پھر سجی یاروں کی محفل
کچھ ناستلجیا، کچھ ایک ہی شہر میں بچھڑ چکے رفقائے کار کے مل بیٹھنے کی جستجو اور کچھ اپنی اپنی تنہائی کو دور کرنے کی خواہش میں ریڈیو وائس آف رشیا کے اردو و ہندی کے شعبوں کے سابق اہلکاروں نے کہیں اکٹھے ہونے کی روش اپنائی ہے۔ اس بار پراگتی جی کے گھر کی بجائے، ہمارے جٹ جوان ڈاکٹر کشمیر سنگھ نے ایسی محفل کا اہتمام، پیپلز فرینڈ شپ یونیورسٹی کے سامنے ہوسٹلوں کے احاطے میں موجود قدیمی ریستوران "دیوی کیفے" میں کیا۔ ایک وجہ تو یہ سوچ تھی کہ کسی کے گھر میں انصرام و اہتمام کا سارا بوجھ میزبان پر پڑتا ہے، اس سے بچا جائے دوسری وجہ یہ کہ اس کیفے کا مالک کشمیر سنگھ کا دوست ہے جو بل میں رعایت کرتا ہے یا کم از کم اتنی سہولت ضرور دے دیتا ہے کہ پینے پلانے کا سامان چاہیں تو بازار سے لیتے آئیں۔ ریستورانوں میں پابندی ہوتی ہے کہ پینے والی شے باہر سے لا کر نہیں بلکہ وہیں سے خرید کر استعمال کی جائے گی۔ ریستوران/کیفے اس آب شر کی قیمت عام قیمت سے چار پانچ گنا زیادہ چارج کرتے ہیں۔ یوں یہ بہت بڑی رعایت ہے۔
یہ مقام میری رہائش گاہ سے قدرے زیادہ دور ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد جب کیفے میں پہنچا تو تقریبا" سب شرکاء آ کر پہلے سے ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھنسے بیٹھے تھے۔ میزیں انگریزی حرف یو کی طرح جوڑی کر رکھی گئی تھیں۔ بس یوں کے پیٹ کے اندر دو تین کرسیاں خالی تھیں، جن میں سے ایک سے اٹھا ہوا کشمیر سنگھ سب کو آب سفید یا عرق ارغواں انڈیل کر دے رہا تھا۔ میں نے ہیلو ہائی کے بعد پیٹ والی ایک کرسی پر خود کو جما لیا ، میز کے اس پار پراگتی اور الپنا میرے سامنے تھیں۔ پراگتی کے دائیں جانب ارینا لیبیدیوا اور الپنا کے بائیں جانب ریتا صاحبہ براجمان تھیں۔ میں نے چھوٹتے ہی پراگتی سے کہا کہ آپ کے گھر والی بات نہیں ہے۔ انہوں نے اتفاق کیا ۔اس کی تائید سحر بنگالہ کی سی آنکھوں والی غیر بنگالی الپنا نے اپنی خوش کن آواز میں ہاں کہہ کے کی۔
ابھی ہم نے بات شروع ہی کی تھی کہ میرے دائیں جانب کی میز سے ایک صاحب بلند ہوئے اور اونچی آواز میں بتانا شروع کیا کہ جب وہ پہلی بار ریڈیو کی ملازمت کے لیے پہنچے تو ان کے تاثرات کیا تھے۔ وہ جام صحت تجویز کرنے میں اتنے بلند گفتار تھے جیسے ایک چھوٹے سے کمرے میں سولہ سترہ افراد کی بجائے بڑے سے ہال میں سینکڑوں افراد سے لاؤڈ سپیکر کے بغیر خطاب کر رہے ہوں۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے کشمیر سنگھ سے پوچھا،"خان نے پی لی ہوئی ہے کیا؟" اور اسے تنبیہہ کی کہ اسے زیادہ نہ پلائے۔
دوسرا جام صحت یوگندر ناگپال نے اپنی مسجع روسی میں سبھاؤ سے تجویز کیا، بتایا کہ وہ کل ہی ہندوستان سے لوٹے ہیں۔ ایک مقام پہ جہاں سبھی انگریزی اخبار یا کتب دیکھ رہے تھے، انہیں ایسا شخص بھی دکھائی دیا جس کے پاس ہندی زبان کی کتابیں تھیں۔ تجسس میں ان سے متعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کا بیٹا ادیب ہیں اور انہوں نے ہندی میں ترجمہ شدہ وہ ساری کتب پڑھ رکھی ہیں جو روس سے ترجمہ ہوتی تھیں، چنانچہ انہوں نے جام صحت مترجمین کے نام کیا۔
کشمیر سنگھ نے کہا کہ میرے بھائی اور دوست ڈاکٹر مرجا (مرزا) نے میرے کہنے پر اور آپ دوستوں سے ملنے کی خاطر پاکستان جانے کا پروگرام ترک کر دیا اس لیے میں جام صحت اس کے نام کرتا ہوں۔ شکر ہے میرے واویلا کرنے پر وہ میرے لیے شرابا" طہورہ یعنی اورنج جوس منگوا چکا تھا۔ پھر کشمیر نے چپکے سے مجھ سے پوچھا، "توں بولیں گا؟" میں نے معذرت کر لی۔
ہمارے خان صاحب اسی بلند آواز میں گفتگو کر رہے تھے بلکہ بول ہی وہی رہے تھے اور چاہتے تھے کہ سب ان کو سنیں۔ میں نے اس کی جانب دیکھے بنا کہا،"یار آہستہ بول" تنک کر بولا،" کیوں آہستہ بولوں" بس پھر کیا تھا کچھ پٹھنولی، کچھ سرچڑھی، کچھ ہندوستانی دوستوں کو راضی و خوش رکھنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کیونکہ محفل میں ان کے علاوہ میں واحد دوسرا پاکستان نژاد تھا انہوں نے مجھے غاصبین کی اولاد بتایا، خود کو مرد آزاد۔ شکر ہوا کہ انہوں نے کیفے دیوی سے متاثر ہو کر سجدہ نہیں کیا جو اس سے پہلے ایک موقع پر کر چکے تھے اور اس محفل میں اس عمل کا بآواز بلند اعتراف بھی کر رہے تھے۔ انہیں دیوار پر لگی کسی نرتکی کی تصویر دیوی کی تصویر لگ رہی تھی۔ بار بار پوچھا کہ یہ کس دیوی کی تصویر ہے۔ میں نے ان کی کسی بات کا برا نہ منایا۔ وہ مجھے مولوی بتاتے رہے۔ پراگتی نے مجھ سے کہا اگر آپ بھی پی لیتے تو آپ بھی ان کے لیول پر آ جاتے۔ پینے والوں کے حساب سے ان کی آواز کا پیمانہ درست ہے۔ میں زیر اثر شخص کی بات کا برا مناتا تو احمق ہوتا۔
پاکستانی خاص طور پر مسلمان چاہے وہ مذہب ترک ہی کیوں نہ کر چکے ہوں، انہیں شراب نوشی کی ثقافت سے ہم آہنگ ہونا نہیں آتا۔ چند ماہ پہلے ایسے ہی ایک اور پاکستانی دوست بھی نشے میں اپنی قباحتیں عیاں کر چکا تھا۔ البتہ ہندوستان والے شراب ہضم کر لیتے ہیں۔ میں نے اس جانب سے ہوتی سمع خراشی سے بچنے کے لیے پراگتی سے پوچھا کہ کیا ہندوستان میں عورتیں عام پیتی ہیں کیونکہ دونوں ہندوستانی خواتین ریڈ وائن پی رہی تھیں، تو انہوں نے بتایا کہ ہاں بلکہ وائن کو تو پانی سمجھتی ہیں۔ پھر کہنے لگیں، بعض اوقات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیونکہ نوجوان لڑکیاں شراب نوشی کی عادی ہوتی جا رہی ہیں۔
ارینا لیبیدیوا نے ریڈیو روس پر کام کرنے والے ان سب ساتھیوں کے نام لیے جنہوں نے اپنے وقت میں بہت کام کیا تھا مگر اب اس دنیا میں نہیں رہے اور جام ان کے نام کیا۔ روس میں ریت ہے کہ مرنے ولوں کے نام کا جام ٹکرایا نہیں جاتا اور پیندے تک یکدم پیا جاتا ہے۔ شکر ہے میرے گلاس میں اورنج جوس کا ایک آدھ گھونٹ ہی تھا۔ مجھے دنیا چھوڑ جانے والے ریڈیو صحافیوں کے نام جام کیا جانا اچھا لگا۔ کل باقی سبھوں کو بھی غائب ہونا ہے چنانچہ لوگوں کو یاد رکھا جانا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے۔
اس کے بعد خود میرا بھی دل کر رہا تھا کہ جام صحت تجویز کروں اور کشمیر نے بھی کہا کہ یار کچھ بولو کیونکہ کھانا لگنے والا ہے۔ میں نے اپنا جوس جام بلند کیا اور بولنا شروع کیا،" مجھے افسوس ہے کہ میں نے روسی زبان نہیں سیکھی، ورنہ ادب میں کچھ کام کر سکتا تھا" خان صاحب نشے سے غصیلی ہوئی آنکھوں کو اور بڑا کر کے بولے تو پھر انگریزی میں بولو۔ اب کی بار مجھے اچھا نہیں لگا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ یاد ہوگا میں نے اڑھائی گھنٹے انگریزی زبان میں لیکچر دیا تھا۔ سب کو اردو سمجھ آتی ہے، چپ ہو جائیں۔ سب نے میری ہاں میں ہاں ملائی تو وہ بھی محو گوش ہوئے۔ میں نے کہا، " جب میں ریڈیو میں آیا تھا تو میں نے بہت نخرے کیے تھے" ایرینا میکسیمنکو نے اثبات میں گردن ہلائی اور مسکرائیں، ریتا صاحبہ نے زور سے کہا " اور کیا "۔ میں نے بات جاری رکھی،" ویسے میرے نخرے ہیں ہی زیادہ لیکن ریڈیو بند ہونے کے بعد لگتا ہے کہ ویسا کام نہیں مل پائے گا" پتہ ہی کس نے پوچھا کیوں؟ " اس لیے کہ وہاں کوئی سربراہ نہیں تھا، ایرینا صاحبہ کوئی سربراہ تھوڑا نہ تھیں بلکہ دوست تھیں، دوست ہیں، وقت کی کوئی پابندی نہیں تھی اور تو اور کبھی کبھار تو مرضی کے مطابق ایڈیٹ کیے جانے سے بھی صرف نظر کر لی جاتی تھی چنانچہ اس مر چکے ریڈیو کے نام جو ہمارے دلوں میں زندہ ہے" سب نے اس ٹوسٹ کو پسند کیا اور پراگتی نے کہا، "مرزا جی یہ بات اردو میں ہی کہی جا سکتی تھی"۔
مے نوشی تمام ہوئی تو کچھ لوگ جانے کو پر تولنے لگے۔ کھانا دیا جانے لگا۔ میں حلال کے چکر میں اور یوگندر و انیل شاکا ہاری ہونے کی بنا پر چکن اور مٹن سے گریزاں رہے۔ مجھے وہاں کا کھانا ویسے بھی پسند نہیں لیکن کھایا پھر بھی پیٹ بھر کے بلکہ زعفرانی رس ملائی تو تین بار لی۔
سب خوش خوش گھروں کو لوٹ گئے۔ بچ رہے میں، کشمیر سنگھ، یوگندر ناگ پال، انیل جن وجے اور سنجے شرالی۔ کیفے کا مالک نریش بھی آ کر ہم سے کچھ دور بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ نریش جونیئر کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ ہندوستان گیا ہے پھر کہا میں اور وہ ایک جگہ پر نہیں رہ سکتے۔ یہ باپ بیٹوں سے متعلق ایک عمومی سچ تھا۔ کشمیر سنگھ نے تجویز پیش کی کہ انڈوپاک فرینڈشپ سوسائٹی ان ماسکو بنانے سے متعلق سوچا جائے، میں نے اتفاق کیا مگر انیل نے کہا کہ اس میں بنگلہ دیش بلکہ نیپال کو بھی شامل کر لیا جائے تو اچھا ہوگا ورنہ پالیٹکس شروع ہو ہی جائے گی بالآخر۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک میں سب سے پہلے ہندو پیش پیش تھے، میرا ایسے کہنے پر سب بیک زبان بولے، نہیں نہیں ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔ میں نے جب کہا کہ مسلمان حملہ اوروں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو انیل نے کہا کہ کیسا قبضہ؟ مسلمان تو حملہ آوروں سے بہت پہلے ہندوستان میں آباد تھے۔ نفرتوں کی فصل تو بعد میں سیاست دانوں نے بوئی۔ کشمیر سنگھ نے بتایا کہ جب جناح کو متحدہ آزاد ہند کا وزیر اعظم بنانے کی تجویز دی گئی تو پنڈت نہرو نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ آبادی ہندووں کی زیادہ ہے اس لیے وزیر اعظم بھی ان میں سے ہی ہونا چاہیے۔ یوں لگا جیسے دو قومی نظریہ پنڈت نہرو نے اخذ کیا تھا۔ نریش نے بھی اپنی عوامی زبان میں غلط صحیح حصہ ڈالنا چاہا اور کہا کہ میں پاکستان کے نیوز چینل سنتا رہتا ہوں حسن نثار وغیرہ بولتے رہتے ہیں پھر کوئی یونہی سی بات کہی جس کو سب نے درخور اعتنا نہیں جانا مگر میرے دل میں ایک لڈو پھوٹا کیونکہ باقی تین نہیں جانتے تھے کہ حسن نثار کون ہے۔ اس سے شدید اختلاف کے باوجود مجھے اچھا لگا کہ ماسکو میں بیٹھا مہاراشٹر کا ایک شخص ہمارے ملک کے صحافی کا نام لے رہا ہے۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ میں دشمن ملک کے لوگوں میں گھرا بیٹھا ہوں۔ سب دوست تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“