“وہ ایسے حالات میں بچ نکلا کہ دنیا کا کوئی اور شخص ایسی چوٹ سہہ کر بچ نہیں سکتا”۔
فنیاس گیج کی کہانی باقی سب کے لیے تو شاید صرف ایک حیرت انگیز واقعہ ہو۔۔۔لیکن میرے لیے یہ ایک غم سے لبریز کہانی ہے جو “انسان کے اندر انسانیت کے فقدان” کو آشکار کرتی ہے۔۔
گیج 9 جولائی 1823 کو امریکہ کی ریاست “نیو ہیماسفیئر” میں پیدا ہوا۔
نوجوانی کی عمر سے ہی وہ ریلوے کنسٹرکشن ڈیپارٹمنٹ میں فورمین کے کام پر فائز ہوگیا ۔
ریلوے کے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن کی تنصیب کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے پتھریلی ڈھلانوں کو بارود کی مدد سے تباہ کرکے زمین کو برابر کرنا بھی اس کی جاب کا حصہ تھا جس میں وہ خوب ماہر تھا اور کئی برس سے اس خام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہا تھا۔
لیکن ایک روز اس کی بدقسمتی اس پر غالب آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔
13 ستمبر 1848 کو گیج اپنی ٹیم کے ہمراہ Vermont میں ریلوے لائن کی تنصیب کے واسطے ایک چٹان کو بلاسٹ کرنے میں مصروف تھا۔۔۔اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمین/چٹان میں ایک گہرا سوراخ کھود کر اس میں بارود بھر دیا جاتا تھا اور پھر اس بارود کو دھماکے سے اڑا دیا جاتا تھا۔
اس روز بھی گیج، سوراخ میں بارود بھرنے کے بعد اسے 5 فٹ لمبے ایک آہنی راڈ کی مدد سے بٹھانے میں مصروف تھا کہ اچانک غیر متوقع طور پر بارود بلاسٹ ہوگیا۔
گیج کی بدقسمتی کہ اس وقت اس کا سر اس پوزیشن میں تھا کہ جب وہ آہنی راڈ گولی کی رفتار سے اور کسی راکٹ کی طرح فضا میں شوٹ ہوا تو وہ گیج نیچے سے اوپر کی طرف ، گیج کے جبڑے کو توڑتا ہوا اس کے دماغ کو چیر کر اس کی کھوپڑی میں سوراخ کرتے ہوئے دوسری طرف نکل گیا اور 80 فٹ دور جا کے گرا۔
اصولا تو گیج کو ایک سیکنڈ میں مر جانا چاہیے تھا۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ ایک منٹ بعد وہ زمین سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا چہرہ لہو لہان تھا۔
اسے فورا ہسپتال پہنچا دیا گیا۔۔۔۔۔۔ہسپتال پہنچتے ہی اسے قے آگئی اور جب وہ جھکا تو اس کی کھوپڑی کے سوراخ سے نصف پیالی کے برابر بھیجا نیچے آن گرا۔
لیکن گیج پھر بھی زندہ بچ نکلا!!!!
چند ماہ ہسپتال میں رہنے ، اور علاج کے بعد اسے ڈسچارج کردیا گیا۔۔۔ اور وہ واپس اپنے کام پر آگیا۔
لیکن۔۔۔۔۔ اب کی بار وہ اپنا نصف کے قریب دماغ کھو چکا تھا۔ اب کا رویہ، سوچ ، جذبات اور استعداد کار سب کچھ بدل چکا تھا۔
اب وہ بہت چڑچڑا ہوچکا تھا ، بیمار سا رہتا تھا اور کام بھی پہلے جیسے مستعدی سے نہیں کرسکتا تھا۔
چنانچہ اسے نوکری سے برخاست کردیا گیا۔۔۔۔
جس کے بعد بدقسمت گیج دو وقت کی روٹی اور سر پے چھت کی خاطر مارا مارا پھرنے لگا۔
اس نے کچھ عرصہ چھوٹی موٹی کئی نوکریاں کیں لیکن ہر مرتبہ اپنی اس کیفیت کی وجہ سے نکال دیا جاتا تھا۔
بالآخر گیج کو نیویارک کے ایک عجائب گھر Barnum’s American Museum میں کام پے رکھ لیا گیا۔۔۔
اور اس کا کام کیا تھا ؟
اس نے بس میوزیم میں وہی راڈ ہاتھ میں لے کر ایک جگہ بیٹھنا ہوتا تھا اور ہر آنے جانے والے کو اپنی نمائش دینی ہوتی تھی۔۔۔۔۔گیج کے حادثے کی حیران کن خبر امریکہ میں سبھی اخبارات میں چھپی تھی اور کروڑوں لوگ اس حیرت انگیز واقعہ سے آگاہ تھے ۔۔۔ تو یقینا کئی لوگ اس شخص کو دیکھنا چاہتے تھے کہ جو اس ناقابل یقین حادثے سے بچ نکلا اور زندہ سلامت بھی ہے۔
گیج نے اپنی زندگی کے آخری سال اسی کام میں گزارے اور خود کو زندہ سلامت اس نمائش میں دکھاتا رہا۔
پھر 12 مئی 1860 کو گیج کو مرگی کا دورہ پڑا۔ اور اس کا انتقال ہوگیا۔
موت کے وقت گیج کی عمر 36 تھی۔
اور اس حادثے کو تب 12 سال بیت چکے تھے ۔۔۔
۔
تبصرہ :
گیج کی داستان سن کر مجھے کافی صدمہ پہنچا اور دل پر ایک بوجھ محسوس ہوا۔
یہ کہانی بنی نوع انسان میں انسانیت کے سقوط کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک غریب مزدور جو ایک بھیانک اور بدترین حادثے سے گزرا اور اس کے بعد معذوری کا شکار ہوگیا اسے اس کے محکمے نے بھی کوئی خاطر خواہ معاوضہ دیے بغیر کام سے نکال دیا ۔
اس کے بعد پورے امریکہ میں کوئی ایسا مخیر شخص یا فلاحی ادارہ ایسا نہ تھا کہ اسے انسانی ہمدردی کی خاطر دو وقت کی روٹی اور رہنے کو ایک کمرہ فراہم کرسکتا۔
یہاں تک کہ وہ زندہ سلامت ہو کر بھی اپنی نمائش پر مجبور ہوگیا ۔
کسی زندہ انسان کی نمائش انتہائی غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل ہے۔۔۔۔ایسے نمائش جانوروں کی ہی کی جاسکتی ہے وہ بھی چڑیا گھر میں۔
انسان کی معذوری نمائش نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے کسی ٹیلنٹ کی کی جاسکتی ہے جیسے میجیشیئن یا سرکس۔
پھر میوزیم میں جن ہزاروں افراد نے دیکھا ان میں سے بھی کسی نے اس کی مدد کرنے کی زحمت نہ کی یہاں تک کہ وہ اسی حالت اور اسی مرض میں جان سے گزر گیا۔
موت کے بعد اس کا سرکاٹ کے رکھ لیا گیا اور اس کی کھوپڑی آج بھی نمائش پے ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...