فلاسفر لڑکی
عثمان ملک نے کہا میں اس کی مسکراہٹ کا دیوانہ ہوں،کچھ تو اس میں ایسا ہے جو مجھے کچھ لمحات کے لئے بہت روحانی کردیتا ہے۔وہ کیا ہے؟نہیں جانتا ،لیکن جو بھی ہے بہت خوبصورت اور دلکش ہے۔عثمان ملک بہت خوش تھا ۔اس نے کہا اجمل شبیر آپ بڑے فلاسفر بنے پھرتے ہیں۔آج میں آپکو ایسی فلاسفر لڑکی کی کہانی سنتا ہوں جس نے میرے ساتھ ایسی باتیں شئیر کی ہیں کہ ابھی تک آسمان کی فضاؤں میں پرواز کررہاہوں ۔میں نے کہا،ایسی کیاباتیں تھی،زرا بتایئے۔عثمان نے کہا،اس لڑکی سے میں نے سوال کیا کہ زندگی کیاہے؟تو معصوم روح نے کہا،زندگی خوبصورت ہے،جس کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے محبت،جو کانٹوں کو پھولوں میں بدل دیتی ہے۔جو مردےکو زندگی عطا کردیتی ہے۔جب وہ یہ کہہ رہی تھی تو میں نے اس سے پوچھا،آئے معصوم زندگی،مجھے تو محبت کہیں نظر نہیں آتی؟انسانیت کے بارے میں کیا کہتی ہو؟ اس پر خوبصورت لڑکی نے اداس لہجے میں کہا،انسانیت کے لئے اس کا پیغام بہت سادہ سا ہے،ایک نیا انسان ہے،آج کا انسان مادہ پرست ہے،روحانیت پسند ہے،اخلاقیات کا پجاری ہے، تقسیم ہے، انتشار کا شکار ہے۔اسی وجہ سے غیر صحت مند ہے،آج کا انسان مردہ ہے ،اسی سبب انسانیت بھی مردہ ہے۔عثمان نے مسکراتے لہجے میں کہا ،وہ فلاسفر لڑکی لاجواب اور باکمال تھی ،فلاسفر لڑکی نے کھلتےاندازمیں کہا ،انسانیت کا آج کا نظریہ، اس کا نظریہ نہیں ،ٹکڑوں میں تقسیم انسان اور انسانیت کو وہ نہیں مانتی ،جب انسان تقسیم ہوجائے تو وہ انسان نہیں رہتا ،ایسا انسان کبھی صحت مند اور مکمل نہیں ہوسکتا ۔فلاسفر لڑکی نے کہا آج کا انسان میدان جنگ بن چکا ہے،وہ حقیقی نہیں ، انسان نما حیوان ہے۔معذور اوربکھرا ہوا ہے۔یہ نامکمل انسان ہے ۔اسی وجہ سے اس میں غصہ اورپریشانی ہے۔فلاسفر لڑکی نے باغیانہ سٹائل میں کہا کہ صرف مکمل انسان ہی اس خوبصورت دنیا میں جشن منا سکتا ہے۔زندگی کا جشن وہ خوشبو ہے ،جو صرف مکمل انسان کی خوبصورتی ہے۔اس نے کہا کائنات میں صرف سرسبز درخت ہی مکمل ہیں، جو زندگی اور محبت کا جشن آزادی سے مناتے ہیں، لہلہاتے ہیں۔اسی لئے تو پھولوں کو جنم دیتے ہیں ۔آج کے انسان نے پھول بننا اور پھول کی طرح مسکراتے رہنا سیکھا ہی نہیں ہے ۔فلاسفر لڑکی نے کہا،آج کی انسانیت تاریک اور خوفناک ہے ،جس میں تاریکی میں بھٹک رہی ہے،نیا انسان جب زمین پر نازل ہو گا تو وہ مکمل ہوگا۔وہ صرف اس جہان کا نہیں کئی جہانوں کا انسان ہوگا ،نیا انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر تسلیم کرے گا ،وہ اندرونی اور بیرونی کیفیات میں تقسیم نیں ہوگا ۔ انتشار کا شکار نہیں ہوگا ،وہ کسی کا دشمن نہیں ہوگا ۔اس کی اخلاقیات غیر اخلاقیاتی قوتوں کی دشمن نہیں ہوگی،اسے دشمنی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوگا ،نیا انسان منافق نہیں ہوگا ۔وہ پرسرار راز ہوگا ،مگر حقیقی راز۔نیا انسان شاع ،رقاص ،سائنسدان ہوگا،مگر وہ کچھ انتخاب نہیں کرے گا ۔نیا انسان ،انسان نما حیوان نہیں ہوگا۔عثمان ملک نے کہا جب اس نے فلاسفر لڑکی سے پوچھا کہ دنیا کے لئے اس کا پیغام کیا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتی ہے ؟تو اس پر بہادر لڑکی نے کہا ،اس کا پیغام آزادی ہے،اب انسان کو تمام پابندیوں سے جان چھڑانی ہوگی،اسے فرد بننا ہوگا،اسے باغی بنناہوگا،اسے حساس بننا ہوگا۔اسے باشعور بننا ہوگا ۔یہ بوڑھا انسان مرے گا تو تب ہی اس کی جگہ نیا انسان لے گا۔پرانے انسان کی موت ہوگی،پھر ہی نیا انسان جنم لے گا۔اس نے کہا پرانے انسان کو مرنے دو اور مرنے میں اس کی مدد کرو۔اور نئے انسان کو پیدا ہونے دو ،اور پیدا ہونے میں اس کی کی مدد کرو ۔یہی تو وقت ہے نئے انسان کے پیدا ہونے کا ۔عثمان ملک کی شاعرانہ گفتگو جاری تھی ۔میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ، میاں،آپ بتاو وہ آپ کو کیسی لگتی ہے؟عثمان نے شریر لہجے میں کہا نے کہا ،دوست اس کی مسکراہٹ میں محبت جھلکتی نظر آتی ہے۔وہ مسکراتی ہے تو لگتا ہے ،وہی ایک نئی انسان ہے اور میں وہی ایک نیا انسان ہوں جس کی وہ صدیوں سے متلاشی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔