فوجی حکومت کے ایک وزیر اکثر یہ کریڈٹ لیتے ہیں کہ ان کے دور میں اتنے زیادہ پی ایچ ڈی ہوئے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ایچ ڈی ضرورت سے بہت کم ہیں۔ بہت زیادہ پی ایچ ڈیز کی ضرورت ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ اب یونیورسٹیوں میں صرف ایم فل اور پی ایچ ڈی استاد بھرتی کئے جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ایچ ڈی کرکے کوئی زیادہ لائق ہوجاتا ہے ؟
ایک زمانے میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے اداروں میں ایم اے، ایم ایس سی میں اول آنے والوں کو اسی شعبے میں لیکچرر شپ کی پیشکش کی جاتی تھی جو اکثر قبول کی جاتی تھی اور وہ اپنے پریویس کے ساتھیوں کے استاد ہو جاتے تھے۔ اس طرح تعلیم کے شعبے کو بہت سے اعلیٰ پائے کے استاد میسر آئے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ اول آنے والا ایم فل، پی ایچ ڈی نہ کرے تو وہ یونیورسٹی لیکچرر نہیں بن سکتا، ساتویں آٹھویں نمبر پر آنے والا ایم فل، پی ایچ ڈی کرکے یونیورسٹی لیکچرر بن سکتا ہے۔ جبکہ ان کی ذاتی لیاقت میں ایم اے، ایم ایس سی والا فرق موجود رہتا ہے۔
ایم فل، پی ایچ ڈی کرنے میں اب پیسے کا دخل آگیا ہے۔ ایسا نوجوان جس پر خاندان کی کفالت کا بوجھ ہو وہ فوری طور پر کوئی بھی ملازمت کر نے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے پاس ایم فل، پی ایچ ڈی کرنے کیلئے وقت ہوتا ہے نہ پیسہ ۔ ایسی ذمہ داری سے آزاد بآسانی ایم فل، پی ایچ ڈی کرلے گا خواہ اول الذکر سے کتنا ہی کم لائق ہو ۔ صرف داخلہ ہونا ضروری ہے۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ آپ موضوع اور گائیڈ منظور کرالیں ، کہیں بھی رہیں ، کام جاری رکھیں، مقالہ مکمل کرکے جمع کرادیں اور پھر ممتحنوں کا سامنا کریں۔ اب ایسا نہیں ہوتا ۔ آپ خود کام کر بھی سکتے ہوں تو
’’تحقیق سیکھنے‘‘ کیلئے داخلہ لینا پڑے گا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سخت مقابلہ ، سفارشیں ، سیاست ۔۔۔ پرائیویٹ چارٹرڈ یونیورسٹیوں میں کسی کو انکار نہیں کیا جاتا، بس زرِ کثیر کے متحمل ہوں ۔ کوئی کتنا کہے کہ وہ خود کام کرلے گا، کوئی رعایت بھی نہیں چاہتا، دوسرے امیدوار جس طرح دفاع کریں گے ، وہ بھی اس کیلئے تیار ہے ۔۔۔ لیکن یہ نہیں مانا جائے گا۔ داخلہ لازمی لینا ہوگا۔ داخلہ لے لیا تو سمجھیں پاس ہوگئے۔
میٹرک کے امتحان میں اوسطاََ پچاس فیصد امیدوار فیل ہو جاتے ہیں لیکن ایم فل ، پی ایچ ڈی میں سو فیصد پاس ہوتے ہیں ، بس شاذ و نادر ایسا ہوا کہ کسی کو کچھ حصہ دوبارہ لکھنا پڑا۔۔
ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالے لکھنے میں سو فیصد نقل کا موقع ہوتا ہے، یوں سمجھیں چالیس کتابوں میں سے اکتالیسویں کتاب نکالنی ہوتی ہے۔ خاصی تعداد میں مقالے اجرت پر لکھے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست جو خود بوجوہ بی اے بھی مکمل نہ کرسکے، اب تک چار مقالے لکھ چکے ہیں۔ ایک دوست کے بارے میں تو سنا ہے کہ وہ درجن سے زیادہ مقالے لکھ چکے ہیں۔ ان کے پاس اتنی بڑی لائبریری اور آرکائیو ہے کہ امریکی ، برطانوی سکالر بھی استفادہ کرتے ہیں۔
ایسا بھی ہوا کہ ایک پاکستانی زبان میں لکھے ہوئے مقالے کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ ایک اور پاکستانی زبان میں ترجمہ کرکے اپنے مقالے کیلئے استعمال کرلیا گیا۔ یہ سرقہ کوئی سافٹ وئیر نہیں پکڑ سکتا۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ با رسوخ لوگ ممتحن بھی اپنی مرضی سے مقرر کرالیتے ہیں۔ پھر مقالہ شائع کرنے کی اجازت لینا اور اس کا استعمال تو کجا، مقالہ لائبریری سے بھی غائب کرادیتے ہیں۔
ایک ادیب، شاعر، صحافی ہندوستان سے اس طرح بعافیت ہجرت کرکے آئے کہ اپنا تمام علمی اور صحافتی سرمایہ بحفاظت ساتھہ لائے۔ ایک سکالر نے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ مرحوم کی اولاد پڑھی لکھی ہے، بلکہ ایک بیٹا پی ایچ ڈی بھی ہے۔ انہوں نے والد کے علمی ادبی کام کا ایک ایک پرزہ محفوظ کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے وہ یہ بھی چاہتے ہوں گے کہ ان کے والد پر جامع اور معیاری کام ہو۔ اس لئے انہوں نے سکالر کو ایک طرح سے تھیسس تیار کرکے ہی دے دیا۔۔ سکالر کو شاید مرحوم کی کوئی کتاب پڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو.
اردو، پنجابی وغیرہ میں زیادہ تر فن و شخصیت اور احوال و آثار قسم کے مقالے لکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ایک صاحب ۔۔۔ جن کا میں کرایہ دار بھی رہا۔۔۔ ایک یونیورسٹی میں انتظامی شعبے مین ملازم تھے۔ سیاسی لوگوں سے تعلقات رکھتے تھے۔ ترقیاں ملتی گئیں۔ شاید اسسٹنٹ یا ڈپٹی رجسٹرار ہوگئے۔ پھر پروفیسر بننے کا شوق چرایا۔ یونیورسٹی کے افسر رہتے ہوئے ابلاغیات میں ایم اے کر چکے تھے۔ اب پی ایچ ڈی بھی کرلی۔ اس مقالے میں کیا ہوگا،اس کا اندازہ اس سے کر سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی نوٹیفکیشن کی خبر چھاپنے کیلئے مجھے بھیجی تو اس میں مقالے کا لبِ لباب بھی لکھا۔ یقین مانئیے اس موضوع پر اس شہر کے کسی بھی صحافی سے سوال کیا جاتا تو وہ فی البدیہہ اس سے کچھ زیادہ ہی بتاتا۔۔ بعد میں وہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ہوگئے تھے۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پچھلے دنوں اخباروں میں اشتہار چھپا کہ ایم فل، پی ایچ ڈی کے امید وار سناپسس اور کتابیات کی تیاری میں مدد کیلئے رجوع کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد یہاں تک محدود نہیں رہتی ، پورے تھیسس کا سودا بھی ہو سکتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات اشتہار میں تو نہیں لکھی جاسکتی ۔
اس طرح کے ایم فل ، پی ایچ ڈی کے معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سائینسی مضامین میں پی ایچ ڈی ، البتہ اتنا آسان نہیں۔ ان مضامین میں پی ایچ ڈی کرنے والوں نےکوئی سر بستہ راز کھولے ہوں گے یا کوئی مفید شئے سامنے لائے ہوں گے۔ لیکن ایسی خبریں کم ہی سنی ، پڑھی ہیں۔ دو تین سال پہلے ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر توسیع کیلئے کوشاں تھے۔ ان کے کئی ہم جماعت کالم نگاروں نے ان کی حمایت میں لکھا۔ جس میں ان کے دور میں ہونے والی ریسرچ کے بیان میں یہ بھی درج تھا کہ ایک ریسرچر عام استعمال ہونے والی دوا ’ پیرا سیٹا مول ‘ کے مضر ذیلی اثرات ختم کرنے میں کامیاب ہوا۔ سارے اخبار نظر سے گزرتے ہیں، لیکن ان کی ریسرچ کے کسی بین الاقوامی فاماسیوٹیکل کمپنی کے خریدنے اور ان کے ارب پتی ہونے کی خبر کا انتظار ہی رہا۔
کیا ایم فل، پی ایچ ڈی زیادہ اچھا پڑھائے گا ؟
قطعی ضروری نہیں۔ ۔۔ کالج سے یونیورسٹی کے میرے اساتذہ میں سے سب سے لائق استاد ایم فل تھے نہ پی ایچ ڈی۔ یونیورسٹی میں بعض اساتذہ نے ہمارے سامنے پی ایچ ڈی کی۔ اس طرح ترقی کیلئے ایک رسمی شرط ضرور پوری ہوگئی لیکن وہ اتنے ہی لائق رہے جتنے پہلے تھے۔
ایم فل ، پی ایچ ڈی کر لینے والوں کی معلومات صرف اپنے تھیسس کے موضوع کے بارے میں کچھ زیادہ ہوتی ہیں، جو نصاب کے ایک ہزار نمبروں میں سے پانچ دس نمبر کا ہوسکتا ہے اور اکثر تو اس کا نصاب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
میرا خیال ہے کہ میٹرک سے ایم اے اوسطاََ اسی فی صد نمبر لینے والا ساٹھہ فی صد نمبر لینے والے ایم فل ، پی ایچ ڈی سے زیادہ لائق ہوگا بلکہ کہیں کسی جاب کیلئے مجھے انتخاب کرنا ہو تو میں میٹرک سے بی اے فرسٹ ڈویژن والے کو سیکنڈ تھرڈ ڈویژن ڈبل ،ٹرپل ایم اے پر ترجیح دوں گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...