توتنخامون، توتنخاتن اور کنگ توت یہ تینوں نام ایک ہی فرعون کے ہیں جو کہ میرا فیورٹ فرعون بھی ہے ، جی ہاں وہی توتنخامون جو مصر کے فراعین میں ایک مشہور و معروف نوجوان بادشاہ تھا میں نے اسکے بارے اتنا کچھ لکھا ہے کہ مجھے یقین ہے آپ نے اگر میری تحاریر پڑھی ہیں تو آپ اسکو اسطرح جانتے ہوں گے جیسے یہ کوئی جیتا جاگتا اسی صدی کا کوئی لیجنڈ انقلابی شخص ہو۔۔۔جی بالکل توتنخامون قدیم مصری تہذیب کا لیجنڈ تھا اور اسکی شخصیت اتنی پراسرار تھی کہ آج کم و بیش تین ہزار سال بعد بھی اسکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں، اسکے دور حکمرانی اور اسکی زندگی کے مختلف پراسرار گوشوں کے متعلق محققین تحقیق میں مصروف ہیں اسکی شخصیت کے اتنے پَرت ہیں کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ کھلتے جاتے ہیں کھلتے جاتے ہیں مگر اسکی پراسراریت پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔توتنخامون کی زندگی سے لیکر پراسرار موت تک ، اسکی استعمال شدہ اشیاء پر ، اسکے مقبرے پر اور اسکے مقبرے سے ملنے والی اشیاء پر وسیع تحقیق ہو چکی ہے اور ابھی تک اس سے متعلقہ معاملات پر ریسرچر تحقیق میں مصروف ہیں۔
خیر میں بھی اسکی زندگی کے مختلف گوشوں پر وقتاََ فوقتاََ تحقیق کرتارہتا ہوں اب جو میری تحقیق کا مرکز ہے وہ یہ ہے کہ اس نوجوان فرعون کی مَمی کے دریافت ہونے کے بعد کئی عجیب و غریب واقعات روونما ہوۓ تھے جسے آرکایولوجی کی اصطلاح میں ” The Pharaoh’s Curse “ ” فرعون کی بددعا “ کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کی حقیقت کیا ہے؟
آپ نے کئی فلموں میں بھی دیکھا ہوگا کہ فرعون کا مقبرہ دریافت ہوا اور اسکے ساتھ ہی ڈر ، خوف ، بیماری اور موت کی سوگوار فضاء پھیل گئی۔۔۔۔ممکن ہے کہ یہ فضاء خودساختہ طور پر پھیلائی گئی ہو یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ بات کا بتنگڑ بن گیا ہو مگر کسی نہ کسی واقعے میں کچھ نہ کچھ حقیقت تو ضرور ہوتی ہے باقی کچھ نہ کچھ اس میں ہمارے خیالات ، تجزیات ، اعتقادات اور ممکنات کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ بہرحال کنگ توت کے مقبرے کی دریافت کے بعد پیش آنے والے پراسرار واقعات حقیقت پر مبنی ہیں یا توہمات پر اسکے متعلق ماہرین مختلف راۓ رکھتے ہیں ، کچھ ماہرین انکو محض توہمات خواہ مخواہ کی باتیں کہتے ہیں اور کچھ کے نذدیک یہ حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں اسی موضوع پر آپ سے اپنی یہ تحریر شیئر کرنا چاہوں گا امید ہے آپ اس تحریر کو حقیقت اور وہم سے ہٹ انجواۓ کریں گے۔۔۔۔۔
26 نومبر 1922 کو آرکایولوجسٹ کی ایک ٹیم جسکی قیادت ہوورڈ کارٹر کر رہے تھے انہوں نے کنگ توت کے مقبرے کا داخلی راستہ تلاش کیا اور کم و بیش تین ہزار سال سے بند مقبرے کو پہلی مرتبہ کسی انسان نے کھولا اور اندر قدم رکھا۔۔۔۔مقبرے کے اندر سے نوادرات قیمتی اشیاء توتنخامون کی استعمال شدہ اشیاء اسکی چھڑیاں ، اسکا گولڈن ماسک اسکا تابوت اور اسکی حنوط شدہ نعش ( مَمی ) وغیرہ دریافت ہوۓ۔۔۔۔مگر اسکے بعد عجیب و غریب واقعات بھی روونما ہوۓ یعنی ان تمام لوگوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ عجیب واقعات ہوۓ جو لوگ اس نوجوان فرعون کے مقبرے کو اور اسکی مَمی کے تابوت کو کھولنے میں شریک تھے۔ میں چند ایک واقعات کا یہاں تذکرہ کروں گا۔ ممکن ہے کہ ان واقعات کا تعلق عام زندگی میں ہونے والے حادثات کے تناظر میں ہو مگر انکو آج تک ” فرعون کی بددعا “ کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے کیونکہ یہ تمام واقعات یا حادثات 1922 میں کنگ توت کے مقبرے کی دریافت کے بعد پیش آۓ۔
1. جارج ہربرٹ کارن ارون George Herburt Cornarvon ، اسکے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پہلا شخص تھا جو فرعون کی بددعا کا شکار ہوا اور یہ وہ شخص تھا جس نے کنگ توت کے مقبرے کی تلاش کرنے میں کھدائیوں کا تمام تر خرچہ برداشت کیا تھا۔ اسکی موت حادثاتی طور پر اسطرح ہوئی کہ شیو بناتے ہوۓ ایک مچھر نے اسکو کاٹا اور چند روز کے بعد اسکے خون میں زہر کی آمیزش سے اسکی موت واقع ہوگئی۔ یہ واقعہ کنگ توت کا مقبرہ کھولے جانے کے چند ماہ بعد رونما ہوا تھا اور اسکےمحض چھے ہفتوں کے بعد ہی پریس نے ” نعش کی بددعا ” mummys curse “ پر رپورٹنگ شروع کر دی تھی ، یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسطرح کے واقعات ہر اس انسان کے ساتھ وقوع پزیر ہوں گے جو کنگ توت کی مَمی کو پریشان کرنے میں کسی نہ کسی طرح سے جڑا رہا تھا۔ اسکی موت کے متعلق ایک اور بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جب کارن ارون کی موت ہوئی تو اسکے گھر کی تمام لائٹس پراسرار طور پر خودبخود ہی بند ہو گئی تھیں۔
2. جارج جے گؤلڈ George Jay Gould
جارج گؤلڈ ایک امیر ترین امریکن فنانسر تھا اور ریل روڈ ریلوے کا ایگزیکٹیو آفیسر تھا. اس نے 1923 میں توتنخامون کے مقبرے کا دورہ کیا تھا اور اس دورے کے فوراََ بعد یہ بیمار ہو گیا یہ اتنا شدید بیماری میں مبتلا ہوا کہ دوبارہ صحتیاب نہ ہو سکا اور نمونیا سے اسکی موت واقع ہو گئی اسکی موت کو بھی بیماری سے زیادہ فرعون کی بددعا کی حیثیت سے شہرت ملی۔
3. آرون ایمبر Aaron Ember
ایمبر ایک معروف امریکن ماہر مصریات تھا اور اسکے احباب میں زیادہ تر وہ آرکایولوجسٹس شامل تھے جو کنگ توت کی تلاش اور مقبرے کو کھولنے میں شامل تھے جس میں لارڈ کارن ارون بھی شامل تھا۔ اسکی موت 1926 میں ہوئی اسکی موت کا واقعہ یوں ہے کہ ایک رات ایمبر اور اسکی بیوی نے اپنے گھر بالٹی مور میں احباب کے لیے ڈنر پارٹی کا اہتمام کیا ہوا تھا مگر انکے گھر اچانک آگ بھڑک اٹھی اور آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں پورا گھر جل کر خاکستر ہو گیا ایمبر اپنا مسودہ تحاریر جس پر وہ کام کر رہا تھا اور اسکی بیوی اپنے بیٹے کو بچانے کی خاطر آگ کی زَد میں آ گئے ۔ اس افسوس ناک واقعے میں ایمبر کے ساتھ اسکی فیملی اور اسکی ملازمہ کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ایمبر جس مسودہ پر کام کر رہا تھا اسکا نام ” The Egyptian Book of the Dead “ تھا۔ اسکی اور اسکی فیملی کی موت کے واقعہ کو کنگ توت کی بددعا سے جوڑا جاتا ہے۔
4. جیمز ہینری بریسٹڈ James Henry Breasted
جیمیز ہینری ایک اور معروف آرکایولوجسٹ تھا جو ہوورڈ کارٹر کے ہمراہ کنگ توت کے مقبرے کی تلاش اور اسے کھولنے میں پیش پیش تھا، جیمیز جب اپنے گھر واپس آیا تو اس نے ایک کوبرا سانپ کو دیکھا جو کہ اسکی پالتو چڑیا Canary کو کھا چکا تھا اور پنجرے کے گرد لپٹا ہوا تھا یہ منظر جیمز کے لیے ایک برا شگون تھا۔ کیونکہ کوبرا قدیم مصری فراعین کی عظمت کا نشان تھا اور تمام فراعین کوبرا کی شبیہ کو اپنے تاج ( ماسک ) میں لگاتے تھے انکے عقیدے کے مطابق یہ کوبرا مصری بادشاہوں کی حفاظت کرتا تھا۔ تاہم جیمز ہینری 1935 تک زندہ رہا مگر اسکی موت اچانک مصر کے سفر سے واپسی کے فوراََ بعد ہوئی جسے کنگ توت کی بددعا کا اثر کہا جاتا ہے۔
5. سر بروس انگھم Sir Bruce Ingham
سر بروس انگھم ہوورڈ کارٹر کا دوست تھا اور کنگ توت کے مقبرے کی دریافت کے بعد ہوورڈ کارٹر نے انگھم کو ایک پیپر ویٹ Paperweight بطور تحفہ دیا تھا ، یہ کوئی عام پیپر ویٹ نہیں تھا بلکہ یہ مَمی کا ہاتھ تھا ( mummified Hand ) اس ہاتھ میں ایک بریسلیٹ تھا اور جس پر واضح طور پر درج تھا کہ ” اسکے لیے بددعا ہے جس نے میرے جسم کو حرکت دی ” Cursed be he who moved my body “ تحفہ وصول کرنے کے کچھ وقت بعد انگھم کا گھر آگ لگنےسے تباہ ہو گیا بعد ازاں اس نے دوبارہ گھر کی تعمیر کی کوشش کی تو پھر سے سیلاب میں تباہ ہو گیا۔
6. ہوگ ایویلین وائٹ Hugh Evelyn – White
ایویلین وائٹ برٹش آرکایولوجسٹ تھے اور انہوں نے کنگ توت کے مقبرے کا دورہ کیا اور اسکی کھدائی میں بھی مدد فراہم کی تھی۔ ایویلین وائٹ نے جب 1924 میں اپنے بہت سے آرکایولوجسٹ ساتھیوں کو موت کا شکار ہوتے دیکھا تو سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئے ، اور اسی ذہنی دباؤ کے زیر اثر انہوں نے خود کو پھانسی لگا لی ۔ اپنی پھانسی سے قبل انہوں نے اپنے خون سے تحریر کیا کہ ” مجھے ایک بددعا کا سامنا ہے جو مجھے غائب ہو جانے ( دنیا سے چلے جانے ) پر مجبور کرتی ہے۔۔۔۔۔
7. اوبرے ہربرٹ Aubrey Hurbert
اوبرے ہربرٹ لارڈ کارن ارون کا سوتیلا بھائی تھا ، یہ بھی کنگ توت کی بددعا کے زیر اثر آیا کیونکہ اسکا تعلق کارن ارون سے تھا۔ اوبرے ہربرٹ کی پیدائشی طور پر ایک آنکھ خراب تھی اور اسی وجہ سے مستقبل میں وہ مکمل طور پر اندھا ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق اسکے بوسیدہ دانت اسکی بینائی میں رکاوٹ بن رہے تھے اور ہربرٹ اپنی بینائی کے حصول میں اپنے ہر دانت کو اوپر کی طرف سے اکھاڑ رہا تھا، جو کہ کام نہیں کر رہے تھے۔ تاہم سرجری کے بعد اسکا جسم گلنا سڑنا شروع ہو گیا اسکی موت اسکی بھائی کی موت کے پانچ ماہ بعد ہوئی۔
8. سر آرچبَلڈ ڈگلس ریڈ Sir Archibald Douglas Reid
ڈگلس ریڈ آرکایولوجسٹ یا Excavator نہیں تھے بلکہ یہ ریڈیالوجسٹ تھے اور یہ بھی کنگ توت کی بددعا کے حوالے سے موت کا شکار ہونے والوں میں شامل تھے اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کنگ توت کی مَمی کو میوزیم اتھارٹیز کے حوالے کرنے سے قبل مَمی کا مکمل ایکسرے کر کے نعش کا مکمل معائنہ کیا تھا، مگر مَمی کا ایکسرے کرنے کے اگلے ہی روز یہ شدید بیماری کا شکار ہوۓ اور تین روز کے بعد انکی موت واقع ہو گئی۔
9. رچرڈ بیتھیل Richard Bethell
بیتھیل لارڈ کارن ارون کا سیکریٹری تھا اور یہ وہ پہلا شخص تھا جو ہوورڈ کارٹر کے بعد کنگ توت کے مقبرے میں داخل ہوا تھا اسکی موت 1929 میں پراسرار حالات میں ہوئی ، لندن کے ایلیٹ کلاس جنٹلمین کلب کے ایک کمرے میں یہ مردہ پایا گیا اسکی موت بند کمرے میں دم گھٹنے سے ہوئی ۔ اس کے متعلق ناٹنگھم پوسٹ میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ بیتھیل کی موت کنگ توت کی بددعا کا نتیجہ ہے اس میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ اسکے گھر میں ایک سٹور تھا جہاں کنگ توت کے مقبرہ سے متعلقہ کئی انمول نوادرات و اشیاء رکھی گئی تھیں ، اس سٹور میں آگ لگ گئی تھی اور انہی کی وجہ سے بیتھیل کی موت بھی واقع ہوئی۔
10. ہوورڈ کارٹر Howard Carter
ہوورڈ کارٹر جو کہ کنگ توت کی تلاش اور مقبرے کی دریافت میں ایک مرکزی کردار تھے ۔ یہ کبھی کسی ناقابل فہم اور پراسرار بیماری میں مبتلاء نہیں ہوے اور نہ ہی انکا گھر کبھی کسی قدرتی آفت کا شکار ہوا۔ کارٹر کی موت 64 سال کی عمر میں Lymphoma کینسر ( رسولی ) کے باعث ہوئی انکی قبر کے کتبے پر خوبصورت دعائیہ جملہ تحریر ہے کہ ” آپ کی روح زندہ رہے ، آپ لاکھوں سال جئیں ، آپ جو کہ تھیبس سے پیار کرتے ہیں ، اپنے چہرے کے ساتھ شمالی ہوا کی طرف بیٹھے رہیں ، آپکی آنکھیں خوشیاں دیکھتی رہیں (آپکی آنکھیں خوش رہیں )۔۔۔۔۔۔امین
نوجوان فرعون کنگ توت کے مقبرے کی دریافت اور اس سے متعلق بددعا ( Curse ) کے حوالہ سے بات ہو رہی تھی ۔ فرعون کی بددعا کے متعلق ماہرین کی مختلف آراء ہیں تحریر کے اس حصہ میں ماہرین کی آراء کا جائزہ لیا جاۓ گا۔
“ Dont open the coffin…..Death will strike anyone who dares to disturb us death will strike all those who disturb the king ”
جب 1922 میں توتنخامون کا مقبرہ کھولا گیا تو مقبرے کی دیواروں پر قدیم زبان میں مختلف تحاریر دریافت ہوئیں بعدازاں جنکا ترجمہ کیا گیا یہ تحریر بھی مقبرے کی دیوار پر لکھی تھی۔۔۔
جب آرکایولوجسٹ مقبرے میں داخل ہوۓ تو انہیں کم و بیش پانچ ہزار نوادرات و قیمتی اشیاء ملیں جن پر عرصہ دراز سے تاحال تحقیق جاری ہے۔ ان اشیاء میں توتنخامون کا خالص سونے کا ماسک بھی شامل تھا جسکا وزن دس …
فرعون کی بددعا اور قدیم مصر میں بددعا کے نظریے پر گفتگو چل رہی تھی سلسلہ کلام وہیں سے جوڑتا ہوں جہاں سے چھوڑا تھا۔۔۔۔۔
پرفیسر ڈیوولف ملر Prof Dewolfe Miller ، مانووا Manoa یونیورسٹی آف ہوائی میں وبائی امراض کے علوم کے پروفیسر ہیں ، ہوورڈ کارٹر کی راۓ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ ” لارڈ کارن ارون حالات کے پیش نظر کنگ توت کے مقبرے کے اندر باہر کی نسبت زیادہ محفوظ تھے “۔۔۔۔۔ اب اس بات کے تناظر میں اسکا مطلب دیکھا جاۓ تو جہاں تک مجھے سمجھ آتا ہے کہ لارڈ کارن ارون کو کسی بددعا نے نہیں بلکہ کسی اندیکھے خفیہ دشمن نے نشانہ بنایا تھا۔
خیر ملر کہتا ہے کہ ، 1920 میں بالائی مصر مشکل ہی سے صفائی ( حفظان صحت ) کے مطابق تھا ، یہ خیال کہ ایک زیرزمین مقبرہ جس میں تین ہزار سال کے بعد ایک طرح کا عجیب و غریب قسم کا جراثیم ہوگا جو کسی کو بھی محض چھے ہفتوں کے بعد مار ڈالے گا اور اسکو اسطرح دکھاۓ گا کہ ( جیسے خون میں زہر شامل ہو ) اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔
ملر کے مطابق وہ اس معاملے میں کسی آرکایولوجسٹ یا کسی ایک بھی ایسے ٹوررسٹ کو نہیں جانتا جو مقبرے میں زہر کے باعث کسی بھی بیماری میں مبتلا ہوا ہو۔۔۔۔
بہرحال یہ کہانی کہ جو کوئی فرعون کی مَمی کے مقبرے یا مَمی کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کرے گا اسکو سخت عذاب ہوگا یا وہ مَمی کی بددعا کا شکار ہوگا ، اس آئیڈیا پر بہت سے بیسٹ سیلنگ ناولز لکھے گئے آرٹیکلز لکھے گئے ، یہ لمبے عرصے کی بات نہیں ہے اس کہانی کو تب شہرت ملی جب لارڈ کارن ارون کی چھپن سال کی عمر میں موت واقع ہوئی اور پورے شہر میں ایک ساتھ یکدم بجلی منقطع ہو گئی اور اس صورتحال نے ان واقعات کو کنگ توت کی بددعا سے جوڑنے اور اس پر قیاس آرائیوں کا راستہ ہموار کیا۔
آرتھر کینن ڈوئل ایک برٹش رائیٹر تھا Arthur Conan Doyle اس نے امریکن پریس کو بتایا کہ مصر کے قدیم پجاریوں نے مَمی کی حفاظت کے لیے ایک بدروح کو تخلیق کیا تھا جس کے باعث لارڈ کارن ارون کی موت واقع ہوئی۔۔۔۔۔!
المختصر یہ کہ مقبرے کے حوالے سے کوئی بددعا لعنت یا ہندی میں شڑاپ نہیں پایا گیا ، مگر کارٹر کی ٹیم کے ممبران کی وقتاََ فوقتاََ اموات نے مَمی کی بددعا کی بحث کو زندہ رکھا۔ جن میں کئی لوگوں کا احوال تو میں بیان کر چکا انکے علاوہ پھی چند لوگ تھے جنکی موت کو مَمی کی بددعا کے حوالے سے ڈسکس کیا گیا جیسا کہ۔۔۔۔۔
پرنس آف کمال فہمی مصر کے حاکم ( گورنر ) کو 1923 میں اسکی بیوی نے گولی مار دی۔۔۔۔۔
1924 میں لی سٹیک Lee Stack گورنر جنرل سوڈان ، نے قاہرہ میں خود کو پھانسی لگا لی۔۔۔۔۔
1928 میں کارٹر کی ٹیم کے ایک ممبر آرتھر میس Arthur Mace کو زہر دیکر مار دیا گیا ( Arsenic poison )……
کارٹر کے سیکریٹری رچرڈ بیتھیل جسکی موت کو پہلے کنگ توت کے حوالے سے ڈسکس کر لیا گیا ہے اسکی موت 1929 میں ہوئی مگر بعد ازاں اسکے والد نے بھی 1930 میں خودکشی کر لی تھی اور اسکی موت کو بھی اسی بددعا کے حوالے سے شہرت حاصل ہوئی۔
کنگ توت کے مقبرے کے حوالے سے بددعا کی باتوں پر کافی سیر حاصل گفتگو ہوئی میرےاپنے خیال کے مطابق قدیم مصر میں بددعا یا لعنت Curse کا تصور ضرور موجود تھا باقی میں ذاتی طور پر اس کہانی سے متفق نہیں کہ کارٹر اور انکے ٹیم ممبرز کنگ توت کی بددعا کے نتیجے میں مارے گئے ۔کیونکہ اگر کسی قسم کی انکو بددعا یا شڑاپ ہوتا تو سب سے پہلے مرکزی کردار ہوورڈ کارٹر کو مرنا چاہیے تھا جبکہ وہ تو اپنی عمر پوری کر کے 64 سال کی عمر میں کینسر رسولی کے باعث دنیا سے رخصت ہوۓ۔۔۔اور انکی ٹیم کے کئی ممبران اور ورکرز نے اپنی بھرپور مکمل عمر گذاری۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کسی بھی واقعہ میں کچھ حقیقت اور کچھ اعتقادات کی آمیزش ہوتی ہے اب جو لوگ ان اموات اور واقعات کو کنگ توت کی بددعا سمجھتے ہیں وہ اسی پر یقین رکھیں گے اور جو لوگ ان اموات کو عام واقعات سمجھتے ہیں وہ بددعا کے علاوہ اس سے منسلک دوسرے عوامل کو زیادہ ڈسکس کریں گے۔۔۔۔۔۔۔
(ختم شد )