نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور تھی۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا اور ہے۔ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کی دھرتی پر مینار کی طرح نصب ہو جاتے ہیں۔ دور سے نظر آتے ہیںاور عام گفتگو سے لے کر دانشوروں کی تقریروں تک… ہر موقع پر ریفرنس کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔
صولت مرزا کی پھانسی عالمی تاریخ کے تناظر میں کسی خاص کیا، عام اہمیت کی بھی حامل نہیں… کہاں نائن الیون، کہاں انقلاب فرانس، کہاں 1917ء کا بالشیویک انقلاب، کہاں 1526ء میں مغلوں کی آمد کہ سلاطین دہلی کے تین سو سالہ اقتدار کی تدفین ہو گئی، کہاں پلاسی کی لڑائی جس نے فیصلہ کر دیا کہ اب کے حکومت کرنے والے درہ خیبر سے نہیں، کلکتہ کے راستے آئیں گے۔ کراچی کی حد تک اور پاکستان کی حد تک صولت مرزا کی پھانسی جس اہمیت کی حامل ہے وہ بظاہر ابھی تک ایک چھوٹے سے نقطے سے زیادہ نہیں۔ مگر ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھنے والوں کو دور سے جو نقطہ نظر آتا ہے، وہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک طویل و عریض اور بلند و بالا جہاز کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
سیاسی مسخروں کے وہ بیانات جوان کی اپنی پاکیزگی اور ان کی سیاسی پارٹیوں کی معصومیت کے بارے میں آئے دن سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں، کسی باہوش شہری کو کبھی بھی متاثر نہیں کرتے۔ سننے اور پڑھنے والوں کو تو خیر معلوم ہوتا ہے، خود بیان دینے والوں کو بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور منافقت کی چوٹی پر کھڑے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی
کی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ موجود ہیں (انہیں عسکری کا نام دینا بھی ستم ظریفی سے کم نہیں۔ ان کا نام پارٹیوں کے ’’مافیا ونگ‘‘ ہونا چاہیے۔) سب جانتے ہیں کہ مارنے والے جو بھی ہوں، مروانے والے بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہیں، خواہ یہ مناصب سیاسی حوالے سے ہوں یا کسی اور حوالے سے۔ صولت مرزا کی پھانسی کے بعد کسی کے کہنے پر چوں چرا کہے بغیر کوئی کسی کو قتل نہیں کرے گا۔ کرے گا تو سو بار سوچے گا۔ صولت مرزا نے پھانسی چڑھنے سے کچھ دن پہلے مبینہ ویڈیو بیان کے ذریعے جن افراد کا ذکر کیا تھا، وہ معمولی افراد نہیں۔ قوت کا مرکز رہے ہیں اور ایک اعتبار سے اب بھی طاقت ور ہیں۔ یہ حقیقت کہ وہ سب صولت مرزا سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکے، کراچی کے مستقبل کے لیے ایک خوش آئند علامت ہے۔ قاتل، عمومی طور پر دواقسام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک کرائے کے پیشہ ور قاتل… انہیں یہ تسلی دینے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ انہیں بچا لیا جائے گا۔ یہ ان کا اپنا درد سر ہوتا ہے۔ یہ خالص ’’بزنس‘‘ ہے اور اس میںمرکزی اہمیت اس ’’کرائے‘‘ کی ہوتی ہے جو قاتل کو دیا جاتا ہے۔ قاتلوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کسی جماعت، کسی نظریے یا کسی گروہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس گروہ کے چلانے والوں کے احکام کے پابند ہوتے ہیں۔ یہاں اہمیت رقم
کی نہیں، گروہ سے وفاداری کی ہوتی ہے۔ حکم دینے والے اس امر کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ قاتل کی حفاظت کریں۔ صولت مرزا دوسری قبیل کا قاتل تھا۔ اس نے موت سے پہلے جو بیانات دیئے، وہ صحیح ہیں یا غلط، مگر یہ حقیقت تو جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پندرہ سال تک صولت مرزا سزا سے بچا رہا۔ اینٹی ٹیررازم کورٹ نے مئی 1999ء میںصولت مرزا کو سزائے موت دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے 21 جنوری 2000ء کو‘ سپریم کورٹ نے 14 ستمبر 2001ء کو اپیل نامنظور کر دی۔ 2006ء میں جیل کا ایک اہلکار امان اللہ نیازی قتل ہو گیا۔ یہ اسی جیل میں ڈیوٹی دے رہا تھا جس میں صولت مرزا کو رکھا گیا تھا۔ اگرچہ میڈیا میں یہ خبریں ریکارڈ پر ہیں کہ کس کس موقع پر کس کس کے درمیان بات چیت کا موضوع صولت مرزا کا ’’مستقبل‘‘ رہا۔ مگر پھر بھی کہنا یہی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے 2001ء کے فیصلے اور 12 مئی کی پھانسی کے درمیان جو پندرہ سالہ عرصہ گزرا‘ اس میں مافوق الفطرت قوتیں، جنات، پریاں، اڑن کھٹولے اور فرشتے صولت مرزا کو بچانے کے لیے سرگرم کار رہے۔
ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ 12 مئی صبح چار بجے صولت مرزا کو پھانسی دی جانی تھی۔ اس سے ایک دن پہلے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں گورنر سندھ سے استعفیٰ مانگ لیا گیا۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ وہ کارکنوں کا قتل عام رکوانے میں ناکام رہے۔ مبینہ ویڈیو پر صولت مرزا نے کہا تھا کہ گورنر سندھ کے ذریعے مجرموں کو تحفظ دلایا جاتا تھا اور ایک سیاسی جماعت کے عہد اقتدار میں جیل میں سہولیات بھی دی گئی تھیں۔ کیا گورنر سندھ سے مستعفی ہونے کے مطالبے کا کوئی تعلق صولت مرزا کو چندگھنٹوں بعد دی جانے والی پھانسی سے بھی تھا؟ اس سوال کا جواب تاریخ نفی یا اثبات میں ضرور دے گی‘ مگر یہ نہیں معلوم کہ کب دے گی!
صولت مرزا کی کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد اور ان کے سٹاف کے دو افراد سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ کبھی شاہد حامد سے ملا بھی نہ ہو گا۔ شاہد حامد کو بھی معلوم نہ تھا کہ صولت مرزا کون ہے۔ اسی طرح‘ بالکل اسی طرح میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفی کی بھی نواب محمد احمد خان قصوری سے کوئی دشمنی نہیںتھی۔ گمان غالب یہی ہے کہ ان افراد کی نواب محمد احمد خان قصوری سے کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو گی نہ ہی مقتول نواب صاحب ان اشخاص کو جانتے ہی ہوں گے! ان چاروں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی دی گئی۔ عدالت نے اپنے طویل فیصلے میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ بھی لکھا کہ
For his own personal ends he has turned those persons into criminals and hired assassins and thus corrupted them.
یعنی اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اُس نے ان اشخاص کو مجرم اور کرائے کا قاتل بنا دیا اور یوں انہیں بدعنوان بنا دیا۔
قانون کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا یہ اصول صرف ذوالفقار علی بھٹو کے لیے تھا؟ یا صولت مرزا نے جو قتل کیے تھے، وہ اس نے اپنے طور پر کیے تھے، کسی اور کے کہنے پر نہیں کیے تھے!
اصولی طور پر یہ سوال ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت کو اٹھانا چاہیے تھا‘ مگر تاریخ بھٹو کی سیاسی جماعت کو، جوکبھی تند کوہستانی ندی کی طرح تھی، میدان میں بہنے والے آہستہ رو نالے کی صورت دے چکی ہے۔ اب اس جماعت کی ترجیحات اور ہیں۔ اب اس جماعت کے نظریاتی کارکن آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالتے وقت آنکھیں چھلکا لیتے ہیں مگر کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے محلات دیکھ کر ان کی آنکھیں کسی بھی قسم کے تاثر سے خالی ہوتی ہیں! یکسر خالی!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“