یہ کہانی دھند نے لکھی ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ دھند ہمیشہ ظالم کہانیاں لکھتی ہے۔
جو ابھی ابھی سفید گاڑی یہاں سے گزری ہے، اس میں سوار تین لوگ اس کوشش میں ہیں کہ صبح ہونے سے پہلے سپریم کورٹ تک پہنچ جائیں۔ دورانِ سفر جرم اور مجرم انکا موضوع ہے۔۔۔ اس گاڑی کو بہت دور جانا ہے۔ لیکن۔۔۔ دھند گہری ہے، بہت گہری ہے۔۔۔ کہ جیسے جہالت ہو۔۔۔ جہالت جیسی گہری دھند میں اس گاڑی کی رفتار بیس کلو میٹر فی گھنٹہ سے بھی کم ہے۔ یعنی بہت آہستہ، بہت سست۔۔۔ بالکل ایسے ہی سست جیسے کسی بد نظم معاشرے کا نظام ہو۔۔۔
عبداللہ ڈرائیور کی آنکھیں دھند کو کاٹ کر سامنے سڑک پر راستہ تلاش کر رہی ہیں، ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھے وکیل صاحب اپنے ہاتھوں کو بغلوں میں دبائے، سمٹے بیٹھے ہیں اور پچھلی سیٹ پر ایس ایچ او دین الہیٰ دراز ہے۔
کل عدالت میں کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہے اور یہ تنیوں لوگ اس فیصلے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دلیلوں اور ثبوت میں وزن ہوا تو موت یقینی ہے لیکن اگر ڈرائیور نے کوتاہی دکھائی اور گاڑی وقت پر نہ پہنچ سکی تو ایک مجرم کی زندگی کے امکانات پختہ ہوسکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وکیل صاحب نے اپنے اکٹرے ہوئے جسم کو ڈھیلا چھوڑا اور ایک گہری سانس لے کر بہت پُرفکر انداز میں بولے؛
“اکثر سوچتا ہوں۔۔۔ کہ مجرم بڑی سے بڑی سزا سے بھی کیوں نہیں ڈرتا؟ وہ جرم سے توبہ کیوں نہیں کرلیتا؟”
پچھلی سیٹ پر لیٹے ایس ایچ او کی آواز جو قدرے بھاری تھی، سنائی دی؛
“او جی۔۔۔ بے غیرت ہوتے ہیں یہ لوگ۔۔۔ جرم انکی عادت میں ہے، ماں باپ کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے۔ کچھ حرام کھانے کی لت بھی پڑ جاتی ہے۔”
وکیل صاحب کو جواب نامعقول لگا، انھوں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو ایس ایچ او سگریٹ کی ڈبیا میں سے سگریٹ نکال رہا تھا۔
گاڑی میں دیا سلائی جلتے ہی مٹیالی روشنی پیدا ہوئی، جس میں ایس ایچ او کا کالا چہرہ واضح دکھائی دینے لگا۔
سگریٹ جلانے کے بعد وہ بولا؛
“او جی ہم نے بڑے بڑے کمینوں کو مارا ہے۔ جب ڈپٹی صاحب ہوتے تھے تھانے میں تو سیدھا اِن کاؤنٹر ہوتا تھا۔”
اس نے بات کہہ کر کش لگایا، دھواں باہر چھوڑا جو کہ ایک قہقہے نے غائب کر دیا؛
“ایک دفعہ جی۔۔۔ میں نے بڑے مشہور قاتل کو پکڑا۔ حرامزادے نے نو قتل کیے ہوئے تھے۔ کسی کے ہتھے نہیں چڑھتا تھا۔ پکڑ لیا۔۔۔ وہ دو راتیں تھانے میں رہا۔۔۔ اس کے آڈر آگئے۔۔۔ آڈر سرکاری نہیں۔۔ ڈپٹی صاحب کے۔۔۔ ہم موٹر وے کے پار اسے لے گئے اور وہاں جا کر کہا بھاگ جا۔۔۔ اتنا کمینہ تھا۔۔۔ بولا تم مجھے مارنے آئے ہو، میری زندگی لینے۔ اور میں تمہارا ہی حکم مانوں؟ نہیں بھاگتا۔۔۔ سینے پر گولی مارو۔۔۔
ہم نے تو کام ہی کرنا تھا جی۔۔۔ بس میں نے گولی چڑھائی اور کنپٹی پر پستول رکھ کر بولا کہ چل فیر۔۔۔ پڑھ لے کلمہ
اس بےغیرت کی آنکھوں میں ڈر نہیں تھا ۔۔۔ بولا کس کا کلمہ؟ جس سے زندگی مانگی اور دے نہیں سکا؟ کہانیاں نہ ڈال سیدھی گولی مار اور ختم کر قصے کو۔
لو جی۔۔۔ میں نے گھوڑا دب دیا۔۔۔ اسکا بھیجا نکل کر وہ پار دوسرے بَنے پر گرا۔”
ایس ایچ او نے بات ختم کرتے ہی ایک قہقہہ لگایا۔۔۔ وکیل صاحب کا بے تاثر چہرہ اٹھا اور اندھیر میں اسکا منہ تلاش کرنے لگا۔ ڈرائیور دونوں ہاتھوں میں سٹئرنگ تھامے نظریں سامنے گاڑے دھند میں سے راستہ تلاش کر کے گاڑی کو رفتہ رفتہ آگے لیے جا رہا تھا۔
“لو جی ایک ہور سنو۔۔۔ ہم نے تین لوگوں کے اِن کاؤنٹر کیے۔ لاشیں اٹھا کر تھانے کے صحن میں رکھ دی۔ سردیوں کے دن تھے۔۔۔ ہوا کیا جی۔۔۔ رات کوئی ایک بجے کا وقت تھا۔ ہم کمرے میں بیٹھے ہیٹر سیک رہے تھے اور ان لاشوں میں سے ایک اٹھ کھڑی ہوئی۔”
ایس ایچ اور نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا، وکیل صاحب نے ایک مرتبہ پھر اسکے تاثرات دیکھنے کی کوشش میں اپنی گردن پیچھے گھمائی۔
“ادھر تو سب نے شور مچا دیا۔ بندے کو چار فیر لگے تھے جی۔۔۔ اور جب وہاں سے اٹھا کر لائے تھے تو مرا ہوا تھا۔۔۔ اب مرا ہوا بندہ اٹھ کھڑا ہو۔۔۔ تو بڑے بڑوں کا مُوت نکل جاتا ہے۔ ادھر تو بھکل مچ گیا۔ میں نے فیر بندوک لی اور پہلے ایک فیر کیا۔۔۔ وہ اسے لگا نہیں۔ دوسرا کیا تو سیدھا سینے پر لگا۔ لو جی دوبارہ مر گیا، حیرانی کی بات ہے جی۔”
وکیل صاحب کے منہ سے صرف “ہوں” نکلا اور وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔
گاڑی گہری دھند کاٹتے ہوئے بہت سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ وکیل صاحب نے اپنے ہاتھوں کو گرم کرنے کے لیے آپس میں رگڑا اور بولے؛
“دیکھو کل کیا ہوتا ہے۔۔۔ اس بندے کو پھانسی کی سزا ہو جائے گی۔ پاگل پن کی ایکٹنگ کرتا ہے، دراصل وہ پاگل ہے نہیں۔”
وکیل صاحب کے فوراً بعد ایس ایچ او بولا؛
“جی جی۔۔۔ یہ حرامی لوگ ہوتے ہیں جی۔۔۔ مکر کرتے ہیں بین چو۔۔۔”
ڈرائیور جو کافی دیر سے ساکت و خاموش تھا اور آنکھیں بڑی کیے، اسٹئرنگ پر جھکے دھند میں سے راستہ تلاش کرتے آگے بڑھ رہا تھا، حرکت میں آیا۔ اس نے بیک ویو میرر میں سے ایس ایچ او کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن پیچھے بالکل اندھیرا تھا۔ پھر اپنی کمر کو سیٹ کے ساتھ ٹکا کر بولا؛
“سر جی۔۔۔ کیا پھانسی۔۔۔ مجرم کے ساتھ ساتھ جرم کو بھی مار دیتی ہے؟”
اس نے سوال وکیل صاحب سے پوچھا تھا، وکیل صاحب نے اِسکی بات سنتے ہی ہاتھ بغلوں میں دبائے اور بولے؛
“کہاں مرتا ہے جرم۔۔۔ جرم تو باقی رہتا ہے، اتنی پھانسیاں ہوتی ہیں۔ قتل، زنا، چوریاں تو پھر بھی ہوتے رہتے ہیں۔ جرم تو اپنی جگہ پر رہتا ہے، بس مجرم ہی مرتاہے۔”
“سر جی۔۔۔ میں نے اپنی زندگی میں بس ایک ہی پھانسی دیکھی ہے۔ بڑی عجیب۔۔۔ بہت ہی ڈراؤنی پھانسی۔۔۔ اور میں جب بھی اس کے بارے میں سوچھتا ہوں تو دن کی روشنی میں بھی ڈر لگنے لگتا ہے۔”
وکیل صاحب ڈرائیور کی بات سن کر اس کی جانب کھسکے؛
“اچھا؟ ایسا کیا تھا اس پھانسی میں؟”
“بہت بھیانک تھی سر جی۔
میں نے بی اے پاس کرنے کے بعد بہت جگہ کام کیا۔ میری کسی سے بنتی نہیں تھی۔ ہر بار نوکری سے نکال دیا جاتا تھا اور پھر نوکری آسانی سے ملتی بھی کہاں ہے۔ دوستوں یاروں نے مشورہ دیا کہ ٹیکسی لے لوں۔ میں نے قسطوں پر ایک ٹیکسی لے لی۔ دن چلاؤں رات چلاؤں اپنی مرضی ہوتی تھی۔ ٹیکسی کی سواریاں بھی کم ہی ہوتی ہیں۔ مجھ سے زیادہ تو رکشے والے کما لیتے تھے۔
پر پھر بھی دن میں کوئی پانچ سات سواریاں بھی مل جائیں تو اچھی دھاڑی لگتی تھی۔ زیادہ وقت فارغ رہتا تھا۔ میں نے اڈے پر ایک چھپڑ ہوٹل پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ کبھی اخبار پڑھ لیتا تھا کبھی ٹی وی پر خبریں سن لیتا تھا، سواری آگئی تو اسے اسکی جگہ پر پہنچا کر واپس وہیں پر بیٹھ جاتا تھا۔”
اتنا کہہ کر ڈرائیور خاموش ہوگیا، وکیل صاحب ڈرائیور کی خاموشی دیکھتے ہوئے بولے؛
“اچھا تو پھر۔۔۔؟ تم پھانسی کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔”
“جی سر جی۔ میں نے اُسے اسی اڈے پر دیکھا تھا۔ وہ تب ہوگا کوئی پانچ سال کا۔ گرمیاں تھیں جب وہ ناریل بیچ رہا تھا۔ رات کے ایک بجے۔
ایک بندے نے کرنڈی کا سوٹ پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بیگ تھا۔ بڑی جلدی میں تھا، بس کی طرف تیز قدموں سے چلتا ہوا جا رہا تھا کہ اس بچے سے ٹکر ہوگئی، سارے ناریل نیچے گر گئے۔ بچے نے ناریل اٹھائے اور پلیٹ میں رکھے، جس ہوٹل کے بینچ پر میں بیٹھا تھا ساتھ ہی ٹونٹی سے دھونے لگا۔
سر جی۔۔۔ اُس رات میں نے اس کے منہ پر جو نیند اور بھوک دیکھی تھی، وہ میں نہیں بھول سکتا۔ کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔”
وکیل صاحب نے سر اثبات میں ہلایا؛
“ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ نیند اور بھوک ایسی ظالم چیزیں ہیں جو اپنی ضد منوا کر رہتی ہیں۔ جب تک کھاؤ گے نہیں چین نہیں آئے گا، جب تک سو نہیں جاؤ گے تو تکلیف میں رہو گے۔ ان سے پیچھا نہیں چھڑوایا جا سکتا۔ اچھا پھر؟”
ڈرائیور نے دوبارہ بولنا شروع کیا؛
“پھر کیا جی۔ اس دن کے بعد وہ بچہ میری نظر میں آگیا۔ پہلے کبھی میں نے غور نہیں کیا تھا لیکن پھر تو اخبار یا ٹی وی کی طرف میری توجہ اس وقت جاتی جب وہ اردگرد نہیں ہوتا تھا۔ گرمیاں گزر گئیں، سردیاں آگئیں۔ اور وہ انڈے بیچنے لگا۔ ایک ایک سواری کے پیچھے بھاگتا اور منتیں کرتا۔”
وکیل صاحب نے ڈرائیور کی بات کاٹی؛
“اس کا باپ نہیں تھا؟”
“کہتے ہیں جی نشے کرتا تھا۔ کچھ مہینے پہلے کہیں سے اسکی لاش ملی تھی۔ پہلے تو ان کے پاس رہنے کو چھت تھی لیکن جب کرایہ نہ دیا تو مالک مکان نے سامان اٹھا کر باہر پھینکا اور انھوں نے اڈے میں ہی ایک طرف پڑے خالی کنٹینر کو اپنا گھر بنا لیا۔
میونسپل کمیٹی والے آئے تو انھوں نے پہلے آرام سے خالی کرنے کو کہا، تین چار دن جب کنٹینر خالی نہیں کیا تو بستر گھٹڑی برتن اٹھا کر باہر مارے۔۔۔ اور کنٹینر کو کرین کے ساتھ وہاں سے اٹھا کر جانے کدھر لے گئے۔ پھر وہ انہی سردیوں میں ایک کھوکھے کی آڑ میں بیٹھنے لگے۔
ماں تھی کہ چھوٹی سی بچی کو گود میں لٹائے، سر پر ڈوپٹہ باندھے دیوار سے لگ کر بیٹھی رہتی اور کھانستی رہتی۔ وہ ابلے انڈے بیچتا پھرتا۔ روٹی کے وقت پر روٹی لیتا جا کر ماں کو کھلاتا خود کھاتا۔ پھر ایک دن، اسکی ماں کو خون کی الٹی آئی اور اسکی کھانسی چپ ہوگئی، پر بہن نے رونا شروع کر دیا۔ دن رات روتی رہتی تھی۔ وہ اسے وہیں لٹا کر آس پاس انڈے بیچتا رہتا، نظر اسکی ایک جگہ ہی ٹکی رہتی تھی۔انڈے نکال کر دیتے ہوئے، پیسے پکڑتے ہوئے۔ گاہک کے بلانے پر اس کے پاس جاتے ہوئے۔۔۔ اسکی نظر اسی کھوکھے کی طرف رہتی تھی جہاں بہن کر لٹا کر آتا تھا۔ اس کے گاہک کچھ کم ہوگئے تھے۔
ایک دن میرے ساتھ بیٹھے بندے نے اسے بلا کر پوچھا انڈا کتنے کا ہے؟ اس نے پیسے بتائے تو وہ بندہ کہنے لگا کہ ایک دے دو۔ جب برتن میں سے انڈا نکالا تو اسکا چھلکا کہیں سے اترا ہوا تھا کہیں سے لٹک رہا تھا۔ چھلکے کی چھوٹی دراڑوں میں جگہ جگہ میل پھنسی ہوئی تھی۔ اتنا غلیظ انڈا کون لینا چاہے گا جی؟ کون کھائے گا؟ بندے نے اس سے پیسے واپس لیے اور انڈا نہ خریدا۔ میں بھی ہوتا تو یہ کام ہی کرتا ۔۔۔ پر پیسے واپس نہ لیتا۔
کچھ مہینے بعد وہ روٹی مانگ کر کھانا سیکھ گیا تھا، جو مسافر ہوٹل پر کھانا کھانے بیٹھتے تو پہلے انہیں انڈے بیچنے کی کوشش کرتا و ہ نہ مانتے تو کہتا صاحب روٹی کھانی ہے، کئی خدا ترس لوگ ہوتے تھے جو اسے روٹی لے دیتے تھے۔ اب بس ایک ہی خرچہ تھا کہ وہ بہن کے لیے دودھ خریدتا تھا اور اسکی بہن، کبھی چپ نہیں ہوتی تھی، روتی رہتی تھی روتی رہتی تھی۔۔۔ وہ چپ کروانے کی کوشش میں رہتا تھا، لیکن اس سے کہا چپ ہوتی تھی۔
وہ جو اڈا تھا نا سر جی۔ اس کے پاس ہی ایک طرف چھوٹا سا پارک تھا، جہاں پھول لگے ہوئے تھے، گھاس۔۔۔ اور اردگرد گرل لگی ہوئی تھی۔ وہاں پرکچھ اور بچے بھی آکر رہنے لگے تھے۔ اسی جیسے بچے۔ کوئی ٹافیاں بیچتا تھا، کوئی نمکو دال۔ کوئی بچوں کے چھوٹے چھوٹے کھلونےاور کئی بھیک بھی مانگتے تھے۔
اسی پارک میں جہاں گورمنٹ نے پھول لگائے تھے وہاں پر کئی پوڈری رات کو آکر لیٹ جاتے، نشے کے ٹیکے لگاتے۔ اور پڑے رہتے۔
خیرجی۔۔۔ ان دنوں میں اس طرح کی سردی تھی، دھند بھی بڑی ہوتی تھی۔ کچھ دن دھوپ نکلی، لیکن پھر بارشیں ہونے لگیں۔
اس کے بعد وہی دھند اتر آئی۔ ایک رات میں چھپڑ ہوٹل پر بیٹھا چادر لپٹ کر چائے پی رہا تھا کہ دیکھا اسکی بہن بہت رو رہی ہے۔ وہ ہوٹل والے کے پاس آیا اور اس سے دودھ مانگنے لگا۔ ہوٹل والے نے انکار کیا تو میرے جی میں آیا کہ میں لے دوں دھیان جیب کی طرف گیا تو یاد آیا کہ جو پیسے جیب میں تھے اسکی چائے لے کر پی چکا ہوں اور اب خود کسی سواری کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔ خیر وہ واپس جا کر اسے پھر چُپ کروانے لگا، اتنے میں مجھے ایک سواری مل گئی، میں نے اس سے پیسے طے کیے اور کہا کہ مہربانی ہوگی اگر کچھ ابھی دے دو۔ پیسے لے کر ہوٹل والے سے کہا کہ کسی کے ہاتھ بچے کو دودھ پہنچا دے۔ خود سواری لے کر چلا گیا۔”
ڈرائیور خاموش ہوگیا۔ دھند کچھ زیادہ گہری ہو چکی تھی۔ اسکی نظریں راستہ تلاش کرتے کرتے تھک رہی تھیں، بوجھل پن اسکے چہرے پر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ وکیل صاحب کچھ وقت کے لیے تو اسکے بولنے کا انتظار کرتے رہے پھر بولے؛
“لیکن اس سارے واقعے میں پھانسی کا ذکر کہاں ہے۔۔۔ اسے پھانسی کیوں ہوئی؟”
ڈرائیور سوال سن کر کچھ پل کے لیے چپ رہا پھر کہنے لگا؛
“سر جی۔ پھانسی سے پہلے کیا ہوا وہ سنیں۔ میں نے اس رات سواری اتاری اور پھر گھر چلا گیا۔ اگلے دن دوبارہ اڈے پر آیا تو وہ بالکل چپ تھا۔ اس کے منہ پر اداسی تھی۔ اس کے منہ پر وہ نیند نہیں تھی، وہ بھوک نہیں تھی۔ بس اداسی تھی۔ وہ بیٹھا ایک بت سا لگ رہا تھا۔ اس کے آس پاس اسکی بہن نہیں تھی۔ وہ مر گئی تھی۔”
گاڑی کے سامنے دھند کا ایک دیو سا ظاہر ہوا، ڈرائیور نے بریک دبائی۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی اور پھر اسی سست رفتار سے چلنے لگی۔
“پھر سر جی۔ میں کئی مہینے وہاں پر رہا۔ اس نے انڈے بیچے نہ ہی ناریل۔ بس وہ اداس منہ لے کر کبھی کہیں بیٹھا نظر آتا کبھی کہیں۔ اس کے کپڑے میلے ہونے لگے۔ اسکے بال بڑھنے لگے۔ کبھی ہنسا نہ مسکرایا۔ بس جہاں بیٹھا ہوتا، سامنے گھورتا رہتا۔ ایک سردی میں اسے سخت بخار بھی ہوا۔۔۔ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر زور زور سے کھانستا، دوسرے ہاتھ سے گلے کو پکڑ لیتا۔۔۔ سردی سے ٹھٹھرتا رہتا۔۔۔ کانپتہ رہتا۔۔۔ لیکن منہ پر اداسی اسی طرح رہتی۔ شکل میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ میں اسے دیکھنے کے سوا کیا کر سکتا تھا؟ بس ایک طرف بیٹھا دیکھتا رہتا تھا۔
میں جب تک وہاں رہا میں نے اسی حال میں اسے دیکھا۔ پھر جب مجھے نوکری مل گئی تو میں نے ٹیکسی چلانی چھوڑ دی۔ پر وہ ایک نوکری چھوڑ، تین جگہ کام کیا۔۔۔ جیسے پہلے نہیں بنتی تھی تب بھی کسی سے نہ بنی تو نوکریاں چھوڑتا رہا۔ آخر سات سال کے بعد دوبارہ پرانے کام کی طرف آگیا۔ ٹیکسی چلانی شروع کر دی۔ اس بار جب میں اڈے میں آیا تو وہ بالکل بدل چکا تھا۔ نہیں بلکہ اسکا صرف قد ہی لمبا ہوا تھا باقی منہ پر وہ اداسی اسی طرح تھی۔ اداسی کی تو ایک شکل ہوتی ہے جی۔ نہ عمر بڑھتی ہے نہ ہی شکل بدلتی ہے۔ اسکی شکل تو اپنی تھی بھی نہیں۔ اداسی اسکی شکل ہوگئی تھی اور وہ سات سال کے بعد بھی مجھے ویسا ہی نظر آیا۔ اسکے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، غلیظ ہوگئے تھے، پاس سے گزرتا تھا تو بدبو آتی تھی۔ بال بڑھ چکے تھے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے مٹی میں سر دے کر آیا ہے۔ اسی طرح تھا کسی سے بات نہیں کرتا تھا بس چپ چاپ گھومتا رہتا تھا یا بال کھجاتا رہتا تھا۔ انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر انگوٹھے گھماتا رہتا تھا۔
وہاں پر جو پارک بنایا تھا اس کے اندر اب گھاس نہ پھول۔۔۔ جو لوہے کی گرل تھی وہ بھی وہاں نہیں تھی۔ بس کیاریوں میں ٹیکے پڑے ہوتے تھے اور ان ٹیکوں کی طرح نشئی۔ اڈے پر گاڑیوں کا شور بڑھ گیا تھا، سڑک زیادہ ٹوٹ چکی تھی، بھیک مانگنے والے بچے بڑھ گئے تھے، چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والے بھی زیادہ تھے۔بھوک بھی بڑھ گئی تھی اور نشئی بھی۔ وہ بھی ان نشئیوں کے ساتھ ویسا ہی لگتا تھا۔ میرا خیال ہے نشہ نہیں کرتا تھا۔ ہاں وہ نشہ نہیں کرتا تھا۔”
ڈرائیور بات کرتے کرتے اس وقت رک جاتا جب دھند گہری ہوتی، ڈرائیور کی آواز ختم ہوتی تو ایس ایچ او کے خراٹے واضح سنائی دینے لگتے۔ وہ ہر بات سے بے فکر گہری نیند سو رہا تھا۔
ڈرائیور نے سامنے والے دھندلے شیشے پر کپڑا پھیر کر اسے صاف کیا اور بولا؛
“سردیاں ہی تھی جب میں نے دوبارہ ٹیکسی چلانی شروع کی تھی، عجیب کام ہوا۔۔۔ وہاں کے چھوٹے بچے ایک ایک کرکے مرنے لگے۔ ایک دن پہلے چنگے بھلے ہوتے اگلے دن صبح ان کا پھولا ہوا جسم فٹ پاتھ پر پڑا ہوتا تھا۔ ہفتے میں ایک آدھی لاش اٹھا کر دو چار لوگ پاس کے قبرستان میں دفن کر آتے تھے۔ پر سب کے اندر ایک خوف سا تھا کہ ایسی کیا بیماری آگئی ہے کہ جو ایک رات میں بچے کو نگل جاتی ہے اور صبح لاش پھول کر اتنی خوفناک ہو جاتی ہے اور صرف بچے ہی کیوں مرتے ہیں؟
کام بڑھتا گیا، فٹ پاتھ پر بچے گھٹتے گئے۔ لوگوں کو زیادہ خوف آنے لگا۔ پر سر جی۔۔۔ اسکے منہ پر وہی اداسی رہی۔ اسکی شکل بدلی نہ انداز۔ اس نے کسی سے بات کی نہ کسی سے کچھ مانگا۔
بس پھر ایک صبح میں اڈے پر چائے پی رہا تھا کہ اچانک شور مچا۔ ایک رش سا لگ گیا، میں بھی پیالی رکھ کر اس رش میں چلا گیا۔ دیکھا تو وہ وہاں پر الٹا پڑا ہوا تھا اور لوگ اسے لاتیں مار رہے تھے۔ اسے کسی نے بچے کو ٹیکا لگاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔۔۔”
وکیل صاحب چونک گئے؛
“اوہ مائی گاڈ۔۔۔ بچوں کو وہ مار رہا تھا؟”
“جی سر جی۔ وہ ان فٹ پاتھ کے بھوکے ننگے بچوں کو ٹیکے لگا کر مارتا رہا۔ کئی بچوں کی جان لی، کئی دلوں میں خوف بھر دیا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ لوگ اسے اس لیے نہیں مار رہے تھے کہ اس نے بچوں کی جان لی، اس لیے مار رہے تھے کہ اس نے انھیں ڈرایا بہت تھا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ ان لاوارث بچوں کے کتنے وارث ہیں۔ پورا اڈا ہی ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ان بچوں کا ماں باپ ہے۔ وہ چپ چاپ مار کھا رہا تھا۔ نہ کوئی آواز نہ کوئی چیخ۔۔۔ اسے لوگوں کی لاتوں کی تکلیف نہیں ہو رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کسی بوری کو مار رہے ہیں۔ اس کے منہ سے، ناک سے کان سے خون نکل رہا تھا۔ پر اسکے منہ پر وہ اداسی اسی طرح تھی۔
پھر سر جی۔ اس فٹ پاتھ سے مارتے ہوئے، گھسیٹتے ہوئے لوگ پارک میں لے آئے۔ میں دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا، دیکھتا رہا۔ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
گالیوں کے شور میں سے ایک آواز آئی، اس حرامزادے کو لٹکا دو تاکہ سب کو پتہ چلے کہ بچوں کا قتل کرنے کی سزا کیا ہوتی ہے۔ میرے پورے وجود میں ایک لہر سی اٹھی، اور خود سے کہا بول۔۔۔ عبداللہ۔۔۔ اب تو کچھ بول۔۔۔ اتنے سالوں سے چپ ہے اب ہی بول پڑ۔۔۔ پر سر جی بولا نہیں گیا۔ اس شور کو دیکھ کر اس ہنگامے کو دیکھ کر میرے منہ پر تالہ سا لگ گیا تھا۔ میں چپ تھا۔۔۔ اور سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ رسہ بھی آگیا، سامنے پارک میں لگے ہوئے پول کے ساتھ باندھ بھی دیا اور اس بدنصیب کو گھسیٹ کر اسی طرف لے جانے لگے۔ اس نے سر اٹھایا اور سامنے لٹکتے پھندے کو دیکھا جو ابھی کچھ دور تھا اور پھر اسکی نظریں ادھر ہی جم گئیں۔ ابھی دو قدم پیچھے ہی تھے کہ اس کا بے خوف چہرہ ایک طرف ڈھلک گیا۔۔۔ جسم بے جان ہوگیا۔۔۔”
گاڑی میں ایس ایچ او کے خراٹوں سے بھی زیادہ اونچی دو آہیں سنائی دیں۔
“جن لوگوں نے اسے پکڑا ہوا تھا وہ رک گئے۔ ایک بولا یہ تو بے ہوش ہوگیا۔۔۔ دوسرےنے اس کو زمین پر لٹایا اور کہا مر گیا ہے۔۔۔ تیسرا رش میں سے نکل کر آگے آیا اور بولا۔۔۔ مکر کر رہا ہے مادرچو۔۔۔ چوتھا بولا اسے لٹکاؤ، تاکہ سب کو پتہ چلے کہ انجام کیا ہوتا ہے۔ شور پھر بڑھنے لگا۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ۔۔۔ اور میں ایک طرف کھڑا چپ چاپ دیکھ رہا تھا۔
اس بے جان جسم کو اٹھایا اور رسے کے ساتھ لٹکا دیا۔
عجیب پھانسی تھی سر جی۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سامنے اداسی کی شکل والی لاش۔۔۔ جو رسے پر جھول رہی تھی۔۔۔ کس کی تھی؟
مجرم کی۔۔۔؟
جرم کی۔۔۔؟
بھوک کی۔۔۔؟
نیند کی۔۔۔۔؟
یا۔۔۔۔ یا۔۔۔ انصاف کی۔۔۔۔؟”
ڈرائیور نے آخری الفاظ ادا کر نے کے بعد گاڑی کو سڑک کے ایک کنارے پر لا کر بریک لگائی اور پیشانی سٹئیرنگ پر ٹکا دی۔۔۔ پچھلی سیٹ پر ایس ایچ او کے خراٹوں کی آواز ابھی تک اسی طرح آرہی تھی۔ وکیل صاحب کافی دیر تک ڈرائیور کی طرف تکتے رہے۔ اور پھر بولے؛
“گاڑی کیوں روک دی؟”
ڈرائیور نے سر اٹھایا اور سامنے دیکھتے ہوئے بولا؛
“سر جی۔۔۔۔ اب گاڑی اور آگے نہیں چل سکتی۔۔۔ دھند بہت زیادہ ہے۔۔۔”