میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دونوں فریق ساڑھے گیارہ مرلے کے اس گھر میں اکٹھے ہوں گے جو کرائے کا ہے اور جہاں میری رہائش ہے۔ کوئی جانتا تھا کہ آگ اور پانی، شیر(طالبان) اوربکری، بھیڑیا (امریکہ) اور میمنا ایک جگہ پائے جائینگے اور وہ بھی اس حال میں کہ دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو تقویت پہنچا رہے ہونگے۔
جیسا کہ ہر خاص و عام کو معلوم ہے، میں جب طے کر لوں کہ فلاں مسئلہ اب حل کرنا ہی کرنا ہے تو پھر اس عزمِ صمیم کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اگر بظاہر یہ ناممکنات میں سے بھی ہو تو ہر چہ بادا باد کہہ کر میں میدان عمل میں کود پڑتا ہوں۔
یہ جو ملک میں جھگڑا برپا تھا اور دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو گلے سے پکڑا ہوا تھا تو میں نے جھگڑا ختم کرانے کا فیصلہ کیا۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ جتنی مصیبتیں اس ملک پر ٹوٹ رہی ہیں ان کی ذمہ داری طالبان پر ہے۔ یہ اقتصادی پسماندگی، لاقانونیت، یہ پتھر کے زمانے کے رسم و رواج، یہ بھوک یہ ننگ یہ بدحالی، یہ واماندگی اور یہ خستگی سب کچھ اس لئے ہے کہ ہمارے درمیان طالبان پائے جاتے ہیں۔ انکی پگڑیاں، ان کی داڑھیاں، ان کی گھٹنوں سے اوپر شلواریں، انکی ٹوٹی ہوئی چپلیں اور انکے کاندھوں پر لٹکی کلاشنکوفیں ہمیں پیچھے دھکیل رہی ہیں۔ یہ عورتوں کی آزادی کے مخالف ہیں۔ لڑکیوں کو سکولوں میں نہیں پڑھنے دیتے، بچوں کو کتابوں سے اٹھا کر بندوق کے راستے پر لگا دیتے ہیں۔ماڈرن ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں۔ ہر وہ شے جو مغرب سے آئی ہوئی ہے، انکے نزدیک برائی ہے، خواہ انگریزی ہے یا کوکا کولا، مٹی کے کچے کوٹھوں میں رہتے ہیں، قصہ مختصر اس گروہ کا موقف یہ ہے کہ یہ جو ہم آج کھائی میں اُوندھے گرے ہوئے ہیں، تو اس کا واحد سبب طالبان ہیں۔ پھر طالبان کے ساتھ، اسی ہلّے میں، یہ گروہ مسجدوں، مدرسوں، علماء کرام اور دینی علوم حاصل کرنیوالے طالب علموں کو بھی مطعون کرتا ہے اور قوموں کی برادری میں پاکستان کی شرم ناک حیثیت کا سارا الزام ان لوگوں کے سر ڈالتا ہے۔
دوسرا گروہ پاکستان کی بدحالی کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک زکام سے لیکر تپ دق تک، ناخواندگی سے لیکر بھوک تک اور پٹاخے سے لیکر بم دھماکے تک، سب کچھ امریکہ کر رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ یہ گروہ بھارت اور سرائیل پر بھی اپنی مصیبتوں کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ کل ہی ایک بہت پارسا خاتون سمجھارہی تھیں کہ یہ جو بخار نزلہ اور فلو پھیلا ہوا ہے وہ اس لئے ہے کہ دشمن نے ہماری فضائوں میں بیماریوں کے وائرس چھوڑ دیئے ہیں۔
اس گروہ کے نزدیک ہمارے صدر سے لیکر وزیراعظم تک، فوجی سربراہوں سے لیکر وزیروں تک اور خزانہ اور منصوبہ بندی کے سیکرٹریوں سے لے کر سفیروں تک ساری تعیناتیاں واشنگٹن سے ہوتی ہیں اور صدر زرداری ہیں یا نوازشریف، الطاف حسین ہیں یا قاضی صاحب، اسفند یار ولی ہیںیا مولانا فضل الرحمن سب اسی زلف کے اسیر ہیں۔
قریب تھا کہ دونوں گروہ جھگڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کو ختم کردیتے (بالکل اس طرح جیسے دو بڑے سانپ کھلے میدان میں ایک دوسرے کو کھا چکے تھے اور میدان صاف ہوگیا تھا) کہ میں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لئے اور الزام لگانے والوں اور دفاع کرنے والوںکی باتیں سننے کے بجائے مناسب سمجھا کہ امریکہ اور طالبان کو ایک ساتھ بٹھا کر دونوں سے براہ راست بات کی جائے۔
سب سے پہلے میں نے صدر اوبامہ سے درخواست کی کہ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں۔ وہ رضامند ہوگئے تو باقی امریکی رہنمائوں کو منانا چنداں مشکل نہ رہا۔ ہلیری کلنٹن نے تو انکے ساتھ آنا ہی تھا، سابق صدر بش اور رمز فیلڈ نے بھی دعوت کو شرفِ پذیرائی بخشا اور اس قتالۂ جہاں، آفتِ زمانہ، سیم تن، زہر وش، حسنِ سیاہ، کونڈا لیزا رائس نے بھی میرے خاکداں کو خُلا کرنے کا عندیہ دے دیا اب میں نے طالبان کا رخ کیا۔ ملا عمر کی خدمت میں حاضر ہو کر زمینِ ادب کو بوسہ دیا اور عرض مدعا کیا۔ آپ نے دستِ شفقت میرے سر پر رکھا اور کمال التفات کرتے ہوئے درخواست کو قبولیت بخشی۔ عالم بے بدل فاضل بے مثل حضرت مولانا فضل اللہ، ترجمان جہاں مسلم خان اور حضرت شاہِ دوراں نے بھی وعدہ فرمایا۔ احتیاطاً میں نے اپنے محلے میں واقع مدرسے کے مولانا صاحب کو بھی دعوت دے دی۔
وقتِ مقررہ پر یہ سارے مشاہیر، زعما اور مشرق و مغرب کے رہنمایانِ گرامی آئے اور اپنے اپنے حاشیہ برداروں اور مخالفوں کے سامنے تشریف فرما ہوئے۔ جب انہیں پاکستان کے جملہ مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو عجیب بات یہ ہوئی کہ دونوں نے تعجب کا اظہار کیا اور اپنے ملوث ہونے سے صریحاً انکار کیا۔ طالبان کے نمائندے نے اس الزام پر کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا سندھ اور بلوچستان میں جن عورتوں کو کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ان پر کتے چھوڑے جاتے ہیں اور زندہ دفن کیا جاتا ہے، کیا اسکے ذمہ دار طالبان ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا عورتوں پر کھلم کھلا ظلم کرنے والوں کو وفاقی کابینہ میں طالبان کے کہنے پر لیا گیا ہے؟
کیا باسٹھ سالوں میں بلوچستان میں اور وزیرستان میں طالبان کے کہنے پر سکول کالج اور یونیورسٹیاں نہیں بنائی گئیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ریستورانوں میں برتن مانجھنے والے، ورکشاپوں میں مشقت کرنے والے اور گھروں میں نوکر بن کر تشدد کا شکار ہونیوالے لاکھوں کم سن بچے طالبان کی وجہ سے اس ظلم اور بربریت کا شکار ہو رہے ہیں؟ آپ لوگوں کی اسمبلیوں میں اکثریت ان اصحاب کی ہے جو مختلف جرائم میں ملوث رہے ہیں اور جن پر ملکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، کیا طالبان اسکے ذمہ دار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ طالبان پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو پتھر کے زمانے میں واپس لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا بگتی اور مری قبائل، سندھ کے ہاری اور جنوبی پنجاب کے مزارع جو درحقیقت پتھر کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں، طالبان کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں؟ کیا میرٹ کا خون کرکے تعیناتیاں، ترقیاں اور تبادلے طالبان کے کہنے پر کئے جارہے ہیں؟ اور کیا وزیراعظم کے گھر اور دفتر، ایوان صدر کے کروڑوں اربوں کے اخراجات کے ذمہ دار طالبان ہیں؟ اور جو لاکھوں بچے اسلامی مدارس سے ’’بچے ہوئے‘‘ ہیں اور گلیوں میں آوارہ پھررہے ہیں کیا انہیں طالبان کے کہنے پر سرکاری سکولوں میں داخل نہیں کیا جارہا؟
طالبان کو سارے مسائل کی جڑ قراردینے والے مبہوت ہو کر سن رہے تھے۔انکے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب امریکہ کا نمائندہ کھڑا ہوا۔ اس کا خطاب بہت مختصر تھا۔ اس نے کہا ’’اس ملک کیلئے سب سے زیادہ شرم کا مقام یہ ہے کہ بنکوں سے اربوں کھربوں کے قرضے معاف کرانیوالے اور پاکستانی قوم کی دولت ڈکارے بغیر شیرمادر سمجھ کر ہضم کرنیوالے مجرم بڑے بڑے مناصب پر بیٹھے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں، کیا ان مجرموں کو امریکہ کے کہنے پر قرضے دیئے گئے تھے اور کیا امریکہ کے کہنے پر یہ قرضے معاف کئے گئے ہیں؟ اور کیا واشنگٹن نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے یہ قرضے معاف کرنے کی منظوری دی تھی انہیں پھانسی نہ دی جائے؟
http://columns.izharulhaq.net/2009_12_01_archive.html
“