آج سے پانچ ہزار سال قبل افریقہ کے اس علاقے میں جہاں آج نمیبیا اور بوٹسوانا ہیں، درخت پر ایک پھل لگا کرتا۔ آڑو کے سائز کے سخت چھلکے والے اس کڑوے پھل کی خاص بات یہ تھی کہ یہ جلدی خراب نہیں ہوتا تھا اور اس میں پانی کی مقدار زیادہ تھی۔ گرم موسم میں رہنے والے انسان اسے ان وجوہات کی بنا پر کھاتے تھے۔ اپنے لحاظ سے بہتر خصوصیات رکھنے والے پھل کے بیج آگے اگاتے جانے۔ اس طرح نسل در نسل ہونے والی تبدیلیوں نے اس کو بڑا، سرخ اور شیریں کر دیا۔ آج اس سے نکلی ہوئی 1200 ورائیٹی مختلف انواع دنیا میں ہیں اور چار رنگوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ پھل تربوز ہے اور پہلی لگی تصویر اس کا انفوگرافک ہے۔
دوسری تصویر کیلے کی۔ کیلے کو سات سے دس ہزار سال قبل پہلی بار جنوب مشرقی ایشیا میں سدھایا گیا۔ جو کیلا ہم آج کھاتے ہیں، اس کی افزائشِ نسل مصنوعی طور پر کی جاتی ہے۔ جنگلی کیلا بیجوں سے بھرا اور چھوٹے سائز کا ہے۔
تیسری تصویر جنگلی بینگن کی۔ قدرتی طور پر مختلف رنگ اور کانٹے رکھنے والے بینگن کی کاشت پہلی بار چین میں ہوئی۔
چوتھی تصویر جنگلی گاجر کی۔ دسویں صدی میں فارس اور ایشیائے کوچک میں اس کی پہلی بار کاشت کی گئی۔ یہ پتلی لمبی اور جامنی سا رنگ رکھنے والی جڑ تھی۔
پانچویں تصویر جنگلی مکئی کی۔ ٹیوسینٹ کے پودے کو نو ہزار سال پہلے سدھایا گیا۔ آج یہ سیلیکٹو بریڈنگ کے عمل سے اب مکئی ہے۔
چھٹی تصویر آڑو کی۔ چھ ہزار سال پہلے یہ چیری کے سائز کا پودا تھا جس کی کاشت چین میں شروع ہوئی۔
ساتویں تصویر اس پینٹنگ کی جو سترہویں صدی کے تربوز کی ہے۔ اس وقت کا تربوز بھی آج کے تربوز سے کچھ مختلف تھا۔
اس ٹاپک پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/981510385350831/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔