پیجو (Peujeot).
انسان اور چمپانزی کا DNA آپس میں 99.5 فیصد ملتا ہے۔ بلکہ انسان کے DNA کا کچھ فیصد چھوٹی بڑی تمام ذی حیات انواع میں پایا جاتا ہے۔ DNA کا یہ تسلسل کروڑوں سال پر پھیلے ارتقاء کی شہادت ہے۔ ارتقا میں نئ صفات شامل اور پرانی صفات متروک ہوتی جاتی ہیں۔ انسان تقریباً ستر، سو سال کے درمیان جیتا ہے۔ اس طویل ارتقاء کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ ہمارا بچہ ہمارے سامنے بڑا ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہم نہیں بتا سکتے کل شام سونے اور آج صبح جاگنے پر وہ کتنے ملی میٹر یا مائکرو ملی میٹر بڑا ہوا ہے؟ وجودی ارتقاء کی خبر ماہرین آرکیالوجی fossils کی کاربن اور یورینیم ڈیٹنگ سے لگاتے ہیں اور یہ ایک علیحدہ منفرد سائنس ہے۔
چمپانزی چالیس پچاس کے گروپ میں قبیلہ بنا کر رہتے ہیں۔ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے، سوتے جاگتے ہیں۔ لڑتے جھگڑتے جوڑے بناتے ہیں۔ بچے پیدا کرتے انہیں پیار محبت سے پالتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ لیکن کسی اجنبی قبیلے سے کوئ چمپانزی آ نکلے تو اعتبار نہیں کرتے۔ حملہ کر کے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ محبت نفرت، غصہ غم، حسد ہمدردی، سب جذبات رکھتے ہیں۔ مگر بول نہیں سکتے۔
انسان کو بولنا آیا تو حیوان ناطق کہلایا۔ خالص تصوراتی الفاظ سے ایسے وجود تراشنے لگا جو حقیقت بن جاتے ہیں۔ خواب میں مرحوم عزیزوں کو دیکھا تو ملاقات منظر مقام سب حقیقی تھے۔ وہ سمجھا کوئ چیز ضرور ہے جو اندر سے نکل کر باہر جاتی ہے اور دوبارہ جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ الفاظ جوڑے اور اس تصور کو "روح" کا نام دیا۔ روح حقیقت بن گئ اور پرستش ارواح عبادت بن گئ۔ یہی روح آسمان پر دیوی دیوتاؤں سے منسوب کی تو دیوی دیوتا حقیقت بن کر ہماری زندگی موت، صحت بیماری، فتح شکست، رزق لباس تک پر قادر ہو گئے۔ جو کبھی نہ تھا، الفاظ نے اسے حقیقت بنا دیا۔
الفاظ نے قبیلے کا تصور دیوی دیوتاؤں سے جوڑا تو سرحد، سمندر پار ہم مذہب ہم قبیلہ بن گئے۔ غیر علاقے پر قبضے میں جان و مال قربان کرنے لگے۔ صلیبی جنگوں، ھلالی معرکوں میں شجاعت پر تمغے پانے لگے۔ غلاموں کنیزوں کی تجارت اور مال غنیمت سے منافع کے انبار لگے تو الفاظ نے ایک اور دیوتا "سرمایہ" تخلیق کیا۔ لوہے تانبے جیسی کار آمد دھاتیں چھوڑ کر گولڈ جیسی بے مصرف دھات کے سر پر سرمایہ کا تاج رکھ دیا۔ تھیلیوں میں بند اشرفیوں کا بوجھ اٹھانا مشکل ہؤا تو کاغذ پر بادشاہ کی تصویر چھاپ کر اشرفیوں کے برابر کر دیا۔ حقیقت کہیں نہ تھی مگر الفاظ کی جادو گری نے پورے مالیاتی نظام کو حقیقت بنا دیا۔ کمپنیوں بینکوں حکومتوں ریاستوں کے بجٹ کاغذ پر سمٹ آئۓ۔ جمع تفریق مالیاتی نظام کا خالق بن گیا۔ سرمایہ تہذیبوں کے عروج و زوال کا مقدر طے کرنے لگا۔ بات شاید پیجو سے چلی تھی۔
آرمنڈ پیجو تعلیم پا کر لوٹا تو وراثت میں ایک دکان ملی جہاں سائیکلوں کے سپرنگ اور گاڑیوں کے پرزے بنا کرتے تھے۔ یہ دکان فرانس میں سٹیڈل غار کے قریب تھی جہاں ایک مجسمہ ملا تھا، دھڑ آدمی اور سر شیر کا تھا۔ کاربن ڈیٹنگ سے معلوم ہؤا مجسمہ چالیس ہزار سال قدیم ہے۔ 1896 میں پیجو نے پہلی کار بنائ اور اس کے بونٹ پر غار والے مجسمے کا دھاتی سمبل نصب کر دیا۔ کار مضبوط تھی "پیجو" کے نام سے مشہور ہو گئ۔ آج وہ سمبل فرانس سے آسٹریلیا تک پیجو کاروں، ٹرکوں، بسوں، موٹر سائیکلوں پر نصب ہے۔ دنیا میں اس کا سٹاف دو لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ 2008 میں پیجو نے پندرہ لاکھ آٹو موبائلز مارکیٹ کیں اور پچپن ارب فرانک منافع کمایا۔ پیجو کے ساتھ ساتھ آٹو کمپنیاں، کارپوریشنز، کارٹیل، بینکس، انشورنس، ایر لائنز، فارمیسوٹیکلز، میڈیا، جنگی ہتھیار، پولٹیکل پارٹیاں ہر دیس میں تیزی سے اگنے لگیں۔
آرمنڈ پیجو مدتیں ہوئیں مر گیا۔ لیکن "پیجو لمیٹڈ" آج بھی زندہ ہے۔ الفاظ سے تراشا "سرمایہ" ایک لافانی دیوتا بن گیا جو دنیا جہان کے قوانین سے ماورا ہے۔ کوئ عدالت کسی حادثے، نقصان، جرم پر سرمائے کو پھانسی نہیں دے سکتی۔ آپ کمپنیوں کارپوریشنوں بینکوں کو عدالتوں میں گھسیٹ سکتے ہو، معاوضہ جرمانہ ہرجانہ وصول کر سکتے ہو لیکن اس کے شیئر ہولڈرز، بینکس، انشورنس کمپنیاں، یونائیٹڈ نیشنز، عالمی عدالت انصاف سب مل کر اسے کسی اور نام سے زندہ رکھیں گے۔ سرمایہ تصوراتی دیوتا ہے اور دیوتا مرا نہیں کرتے؟
کانگریس، سینیٹ، حکومتوں میں سرمائے کے نمائندے بیٹھتے ہیں۔ یہ خود جینئس نہیں ہوتے زندہ جینئس کے اعضا بیچتے ہیں۔ سائنس نے ڈائنامائٹ بارود دریافت کیا تاکہ پہاڑ کاٹ کر سڑک سرنگ ڈیم بنائے جا سکیں۔ یہ اسی بارود سے ٹینک توپ میزائل بنا لیتے ہیں۔ سائنس نے ہوائ جہاز ایجاد کیا تاکہ براعظموں کا سفر آسان ہو جائے۔ یہ پروں کے ساتھ بم باندھ کر آبادیوں پر موت برساتے ہیں۔ سائنس نے نیوکلیئر انرجی دریافت کی تاکہ سڑکوں شہروں گھروں کو روشن رکھا جا سکے۔ یہ ایٹم بم بنا کر ہیروشیما ناگا ساکی کے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کو پل بھر میں بھاپ بنا دیتے ہیں۔ میدان جنگ میں اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے، سچویشن روم میں tv پر عوام کے بچوں کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھتے ہیں۔ رحمدل اتنے کہ رات کو میزائل فائر کرتے ہیں، اور دن کو ہیلی کاپٹروں سے خوراک کمبل ادویات پھینکتے ہیں۔
بہت اوپر، آسمانوں کے اس پار کہیں گلیکسیوں کے مقام پر جا کر نیچے دیکھیں تو خلاء بسیط میں پھرکی لیتا ہمارا چھوٹا سا کرہ ارض ہے۔ صحرا سمندر پہاڑ دریا تو نظر آتے ہیں۔ لیکن کوئ پیجو پروہت، سرحد سرمایہ، کریڈٹ کرنسی، اعداد آئین، نظر نہیں آتے۔ حیوان ناطق نے اپنے الفاظ سے زمیں رنگ آہنی جال بچھائے اور خود ہی ان کا قیدی غلام بن گیا۔ دشمن کو نیست و نابود کرنے نکلا اور اپنی نسل کشی پر جشن و تہوار منائے۔ سوچتا کم پوجتا زیادہ ہے۔ آپ سوتے کو جگا سکتے ہو، جاگتے کو کیسے جگاؤ گے؟ چمپانزی محروم رہا کہ اس کے پاس الفاظ نہ تھے۔
کتاب Sapiens
مصنف: یووال نوح ھراری،
پی ایچ ڈی ہسٹری، یونیورسٹی آف آکسفورڈ
چیپٹر: پیجو
تلخیص و تفہیم: قریشی منظور، بھکر۔