شام کے وقت وہ مونیکا کے منتظر تھے۔ وہ شہر میں کام کرتی تھی۔ سفر کے لیے ریل رابطے اب بھی برے ہیں۔ وہ دونوں، وہ مرد اور عورت، میز کے گرد بیٹھے تھے اور مونیکا کے منتظر تھے۔ جب سے مونیکا نے شہر میں کام کرنا شروع کیا تھا، وہ شام کے ساڑھے سات بجے کے بعد ہی کھانا کھاتے تھے۔ پہلے وہ اس سے ایک گھنٹہ قبل رات کا کھانا کھا لیتے تھے۔
اب وہ میز پر کھانا لگا دیے جانے کے بعد بھی روزانہ ایک گھنٹے تک اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے مونیکا کا انتظار کرتے تھے۔ باپ میز کے سرے پر پہلی کرسی پر، ماں باورچی خانے کے دروازے کے قریب اپنی کرسی پر براجمان اور وہ مونیکا کی خالی کرسی کے سامنے بیٹھے بیٹھے انتظار کرتے رہتے۔
پھر کچھ دیر بعد اس کافی کے سامنے، جس میں سے بھاپ نکل رہی ہوتی تھی، اور مکھن، ڈبل روٹی اور مارملیڈ کو سامنے رکھے ہوئے بھی وہ منتظر ہی ہوتے۔ وہ جوان ہو کر ان سے بھی دراز قد ہو گئی تھی۔ وہ زیادہ بلونڈ تھی اور اس کی جلد آنٹی ماریا کی جلد جیسی عمدہ تھی۔ وہ جب انتظار کر رہے ہوتے تو ماں کہتی، “وہ ہمیشہ سے ہی بہت پیار کرنے والی اولاد ثابت ہوئی ہے۔”
اس کے کمرے میں ایک ریکارڈ پلیئر بھی تھا اور وہ اکثر شہر سے لوٹتے ہوئے اپنے ساتھ ریکارڈ بھی لے آتی تھی۔ اس کو یہ علم بھی ہوتا تھا کہ ان پر ریکارڈ کیے گئے گیت کس کے گائے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کے پاس ایک شیشہ بھی تھا اور کئی چھوٹی چھوٹی شیشیاں بھی، ایک سٹول بھی جس کی بالائی سطح مراکشی چمڑے کی بنی ہوئی تھی اور سگریٹ کی ایک ڈبیا بھی۔
والد نے اپنی تنخواہ کا کاغذ بھی ایک دفتری خاتون کلرک سے حاصل کیا تھا۔ وہاں اس نے ایک دھاتی فریم میں لٹکی ہوئی کئی مہریں دیکھی تھیں، وہ کمپیوٹنگ کے لیے استعمال ہونے والی ایک مشین سے نکلنے والے بہت ہلکے سے شور پر حیران بھی ہوا تھا، اس نے اس خاتون کے سر کے وہ بال بھی دیکھے تھے جنہیں رنگ کر کے سنہری بنا دیا گیا تھا اور جب اس نے اس خاتون کا شکریہ ادا کیا تھا، تو اس نے بڑے دوستانہ انداز میں یہ بھی کہا تھا، “کوئی بات نہیں۔”
بعد دوپہر تک مونیکا شہر ہی میں رہتی، وہ وہاں جا کر کچھ تھوڑا سا کھا بھی لیتی، جو اس کے بقول چائے کا کمرہ کہلاتا تھا۔ تب وہ ایک ایسی نوجوان لڑکی ہوتی، جو چائے کے کمروں میں ہنستے ہنستے سگریٹ پیتی تھی۔ والدین اکثر اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے پھر شہر میں اور دفتر میں کیا کیا کچھ کیا، لیکن اسے علم ہی نہ ہوتا تھا کہ وہ کیا کہے۔
پھر وہ کم از کم لیکن ٹھیک ٹھیک یہ تصور کرنے کی کوشش کرتے کہ کس طرح وہ ریل گاڑی میں اپنا سرخ پرس کھول کر چیکر کو اپنی سال بھر کے لیے جاری کردہ ٹکٹ چیک کرواتی ہو گی، وہ پلیٹ فارم پر کیسے چلتی ہو گی، وہ دفتر جاتے ہوئے راستے میں کس طرح اپنی سہیلیوں کے ساتھ جوشیلے انداز میں گفتگو کرتی ہو گی اور کس طرح وہ کسی معزز آدمی کے سلام کا مسکراتے ہوئے سامنا کرتی ہو گی۔
پھر وہ اسی گھنٹے میں کئی بار یہ بھی تصور کرتے کہ وہ گھر کیسے آتی ہو گی، ایک دستی بیگ اور بغل میں دبایا ہوا ایک فیشن میگزین اور اس کا پرفیوم۔ وہ یہ بھی تصور کرتے کہ وہ آ کر اپنی جگہ پر کیسے بیٹھتی اور مل کر ان کے ساتھ کیسے کھانا کھاتی۔
جلد ہی وہ شہر میں اپنے لیے کرائے پر ایک کمرہ حاصل کر لے گی، یہ بات وہ جانتے تھے اور یہ بھی کہ پھر وہ دوبارہ رات کا کھانا شام ساڑھے چھ بجے ہی کھا لیا کریں گے۔ یہ بھی کہ باپ پھر کام کے بعد دوبارہ اپنا اخبار پڑھا کرے گا، پھر ریکارڈ پلیئر کے لیے کوئی علیحدہ کمرہ بھی نہیں ہو گا اور نہ ہی انتظار کا گھنٹہ۔
الماری پر نیلے سویڈش شیشے کا بنا ایک گلدان رکھا ہوا تھا۔ شہر سے لایا گیا گلدان، ایک ایسا تحفہ جو فیشن میگزین میں چھپنے والی تحائف سے متعلق تجاویز میں سے ایک کا نتیجہ تھا۔
“وہ بالکل تمہاری بہن جیسی ہے،” خاتون نے کہا، “وہ اپنی تمام خصوصیات میں بالکل تمہاری بہن پر گئی ہے۔ تمہیں یاد ہے کیا، تمہاری بہن کتنا خوبصورت گاتی تھی؟”
“دوسری لڑکیاں بھی سگریٹ پیتی ہیں،” ماں نے کہا۔ “ہاں،” باپ بولا، “یہ تو میں بھی کہہ چکا ہوں۔” “اس کی ایک سہیلی کی ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے شادی بھی ہو گئی،” ماں پھر بولی۔
کچھ ہی عرصہ قبل باپ نے مونیکا سے یہ درخواست بھی کی تھی: زرا فرانسیسی زبان میں کچھ کہو۔” “ہاں، ہاں،” ماں نے بھی یہی بات دہرائی تھی، “زرا فرانسیسی زبان میں کچھ کہو۔” لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ آخر کیا کہے۔
“وہ تو اب سٹینوگرافری بھی کر سکتی ہے،” اس کے والد نے سوچا۔ “ہمارے لیے تو یہ بہت ہی مشکل کام ثابت ہوتا،” وہ دونوں اکثر ایک دوسرے کو کہتے۔
پھر ماں نے کافی میز پر رکھ دی۔ “میں نے ریل گاڑی کی آواز سن لی ہے،” اس نے کہا۔
*Original Title: Die Tochter (1964)*
*Written by:*
*Peter Bichsel* (born 24 March 1935) is a popular Swiss writer and journalist representing modern German literature.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...