Persian Flaw پرشین فالٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرشین فالٹ یا” پرشین فلا“ ایک معروف ایرانی اصطلاح ہے۔ یہ حکایت قدیم ایران کے قالین باف فنکاروں کے گرد گھومتی ہے۔ روایت کے مطابق قدیم ایران کے قالین بنانے والے اپنے فن میں بے مثال تھے۔ حیران کن رنگوں میں وہ نہایت نفیس اور انتہائی دلکش قالین بناتے، جنہیں دیکھ کر آدمی سحرزدہ رہ جائے۔ اپنے عہد کے یہ سب سے بڑے فنکار اپنے بنائے شاہکاروںکے ساتھ ایک دلچسپ حرکت کیا کرتے۔ یہ قالین باف دانستہ طور پر ہر لحاظ سے مکمل اور بے عیب قالین میں ایک معمولی سا نقص(فالٹ) رہنے دیتے ۔ یہ حرکت دانستہ کی جاتی۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ یہ انسانی تخلیقات ہیں جو ایک سطح پرنامکمل ہیں اور حقیقی، مکمل اور بے داغ تخلیق تو صرف پروردگار کی ہے۔ انسان اسکی ہمسری نہیں کر سکتے۔ یہ سوچ کر ایرانی ہنرمند اپنے کام میں فالٹ رہنے دیتے ۔ اسی سے پرشین فالٹ یا پرشین فلا(Persian Flaw) کی اصطلاح بنی۔ایک معروف قول بھی اسی سے وجود میں آیاکہ A Persian Rug is Perfectly Imperfect, and Precisely Imprecise۔اسی سے نفسیات دانوں نے ایک اور اصطلاح نکالی ، انہوں نے اس کو انسانی شخصیت پر فٹ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر شخص نامکمل ہے اور اس کے اندر کوئی نہ کوئی ایسا نقص، طبعی خامی یا شخصی تضاد ہے، جس کو چھوڑنا اس کے لئے آسان نہیں ہوتا ۔وہ خامی یا ”پرشین فلا “اس کے ساتھ زندگی بھر سفر کرتاہے، اس کے ہاتھوں وہ نقصان اور کبھی بڑے نقصان بھی اٹھاتا ہے، مگر اپنے خمیر میں موجود اس کمزوری کے ساتھ ہی زندہ رہتا ہے۔یہ اب مقدر کی بات ہے کہ کس کے حصے میں کیا کمزوری آئی؟ بعض کمزوریاں معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں اور وہ بڑے نقصان کا باعث نہیں بنتیں، جبکہ کچھ خامیاں ایسی بھی ہیں، جو بڑے کامیاب لوگوں کو آسمان سے زمین پر آ پٹختی ہیں۔
اس” پرشین فلا “کی نوعیت کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ ہم عام زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں، جو اعلیٰ درجے کے ہنرمند یا ماہر ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ میں گویا جادو پوشیدہ ہے، جس سے وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کا حل تلاش کر لیتے ہیں۔ غیرمعمولی فہم رکھنے والا کوئی مکینک، ماہر انجینئر،سمجھدار کارکن ، بہترین لکھاری وغیرہ وغیرہ، مگر کام کے ماہر یہ لوگ صرف اپنی ذات میں چھپے کسی عارضے، کسی کمی کے باعث زندگی میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ کسی کو اپنے غصے پر قابو نہیں۔ اچھی ملازمتیں اور بہترین مواقع صرف اس نے اپنے ٹمپرامنٹ کے باعث گنوا دئیے ۔ کسی کے مزاج میں تلون ہے، گھڑی میں تولہ، پل میں ماشہ والا حساب ۔ اچھی جاب مل گئی، مگر موڈ نہ بنا ، چھوڑ دی۔ کسی دوسرے شہرجا کر کام کرنے کا سنہرا موقعہ ملا، مگر اپنے تلون اور تساہل کے باعث وہ گنوا دیا۔بعض کے اندر خواہ مخواہ کی ضداور ہمالیائی انا موجود ہوتی ہے، وہ انہیں کسی ادارے میں کام کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ ایک ادارے میں مجھے اپنی میگزین ٹیم کے لئے اچھا ترجمہ کرنے والے کی تلاش تھی۔ ایک سینئر دوست نے مترجم بھیجا۔ کام بہت عمدہ تھا، حیرت ہوئی کہ اتنا اعلیٰ ترجمہ کرنے والا بے روزگار کیوں ہے؟درجنوں کتابیں وہ ترجمہ کر چکے تھے، چند دنوںمیں ہفتوں جتنا کام کر ڈالا۔ خوش گوار حیرت ہوئی۔ ایک دو ماہ کے اندر مگر ان کا پرشین فالٹ سامنے آگیا۔دو دن کی چھٹی لے کر گھر گئے اور پندرہ دن بعد لوٹے، اس کے بعد اگلے دو ماہ میں بیس پچیس دن مزید چھٹیاں کر ڈالیں۔ ایک دن آتے اور چار دن غائب رہتے۔ آخر مجبور ہو کر ان سے معذرت کرنا پڑی۔
پرشین فالٹ کی ایک اور بڑی وجہ تساہل بھی ہے۔ لکھنے والوں میں یہ مرض نمایاں ہے۔ کئی لوگ دیکھے، جن میں اعلیٰ تخلیق کا پوٹینشل تھا، جم کر کام کرنے کو وہ تیار ہی نہیں ہوئے۔ جتنا عمدہ کام وہ کر سکتے تھے، شاندار تخلیقات ادبی دنیا کو فراہم کرتے، مگر عملاً کچھ نہ کرپائے۔ ہمارے اساتذہ میں سے ایک بہت قابل احترام اور غیرمعمولی صلاحیتوں والے لکھاری ہیں۔ ایسی فسوں خیز تحریر کہ قاری مبہوت ہوجائے۔ کلاسیکی ادب ، تصوف، داستان گوئی، عربی تاریخ وغیرہ پر عبور۔ اگر سیرت ، تاریخ جیسے موضوعات پر کچھ عرصہ ہی جم کر کام کر پائیں تو تاریخ ساز نوعیت کی شاندار کتابیں وجود میں آئیں، آنے والے زمانے جس کے گیت گائیں۔ ایسا کام جو توشہ آخرت بنے۔ افسوس کہ ان کا ہنر نسبتاً کم درجے کے موضوعات میںصرف ہو رہا ہے۔ علم وادب سے ہٹ کر کھیل کے میدان میں دیکھا جائے تو ایسی بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں۔ ایسے باکمال کھلاڑی جو دنیا کو فتح کرسکتے تھے، انہوں نے مگر آگے بڑھنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی اور تھوڑے پر قناعت کرلی۔
سیاست میں بھی اس طرح کی کئی کہانیاں مل جاتی ہیں۔ ممتاز دولتانہ مرحوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجاب کے ذہین ترین اور سیاست کی باریکیاں سمجھنے والے سیاستدان تھے۔شاندار لائبریری کے مالک، صاحب مطالعہ، کرپشن کا کوئی داغ نہیں، مگر آخری تجزیے میں وہ اپنی کم ہمتی کے باعث دنیا پر گہرے نقوش ثبت نہ کرا پائے۔ ستر کے الیکشن میں بھٹو صاحب کی فتح سے ایسے خائف ہوئے کہ شکست خوردگی کے عالم میں سیاست چھوڑچھاڑ کر برطانیہ سفیر بن کر چلے گئے۔ ایسے کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں، جن میں آگے بڑھنے اور چھا جانے کا پورا پوٹینشل موجود تھا، آخرمیں دوسرے ، تیسرے زینے سے اوپر قدم ہی نہ رکھ پائے۔ کسی میں اتنا تساہل کہ سہ پہر تین چار بجے بیڈروم سے باہرآنا، کوئی وقت پر فیصلہ کرنے کے ہنر سے نابلد اور کسی میں دوسروں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ناپید۔کوئی اقتدار مل جانے پر بھی اپنے نفس کی غلامی سے آزاد نہ ہوسکا، بعض اپنی اولاد کے ہاتھوں ناکام ہوئے۔
بڑے سیاستدانوں کے بھی اپنے ہی” پرشین فلا“ہیں۔ میاں نواز شریف میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ جوڑتوڑ، میل ملاپ، مختلف گروہوں کو ساتھ لے کر چلنا، کارکنوں کے دل جیتنا اور ساتھ ہی طاقتور الیکٹ ایبلز کوملائے رکھنا …. یہ سب ایسی خوبیاں ہیں، جن سے ان کے اکثر سیاسی حریف محروم ہیں۔ اقتدار میں آکر میاں صاحب اپنے اوپر قابو نہیں پا سکتے اور دوسرے اہم سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اختیارات کی جنگ میں الجھ جاتے ، نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔میاں شہباز شریف محنتی اور ان تھک انسان ہیں، جو بات ان کی سمجھ میں آ جائے ، اس پر جنوںکی طرح جت جاتے ہیں۔ اپنی ٹیم وہ مگر نہیں بنا سکتے، ہمیشہ ون مین شو کو ترجیح دی ۔ ذات کے طلسم سے نکل ہی نہیں پائے۔ دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقعہ نہیں دیتے ۔ جدید دور میں بھی قدیم طرز کے شاہانہ گورننس سٹائل کو اپنائے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ وہ کر سکتے ہیں، مگر اسی نقص کے باعث نہیں کر پائے ۔پارٹی کارکنوں اور ووٹروں کے دل نہیں جیت پائے اور آج بھی سیاست کے لئے بڑے بھائی کی آشیر باد کے محتاج ہیں۔
عمران خان کے” پرشین فلا“البتہ ایک سے زائد ہیں۔ موقعہ محل کی نزاکت کو وہ کبھی نہیں سمجھ پائے۔ کون سا کام کس وقت کرنا ہے، یہ سادہ بات بالکل نہیں جانتے۔ پچھلے عام انتخابات کے موقعہ پر پارٹی الیکشن میں خواہ مخواہ الجھ گئے اور بڑا نقصان کرا بیٹھے۔جوڈیشل کمیشن پر راضی ہوئے اور اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھے۔ پانامہ نہ آتا تو سیاست ان کی ڈوب چکی تھی۔ غلط جگہ اور غلط موقعہ پر دوسری شادی کی ،اس سے بھی زیادہ غلط وقت پر طلاق دی۔ اب تیسری شادی کے حوالے سے جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، وہ بھی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ شادی ہر ایک کی طرح عمران کا ذاتی معاملہ ہے ۔ ہر کام کامگر کوئی قرینہ ، وقت ہوتا ہے۔ اپنی پوری سیاست میں پہلی بار اقتدار ان کے بالکل سامنے نظر آ رہا ہے۔ ہاتھ بڑھا کر تاج اٹھا لینے والا معاملہ۔صرف بھرپور انتخابی مہم ،اچھے امیدوار اور مناسب جوڑتوڑکی ضرورت ۔بیس سال سے سیاست میں ٹکریں مارنے والا شخص اس وقت کس مسئلے میں الجھ گیا؟شادی کی خبر انہوں نے کنفرم نہیں کی، مگر پیغام دینے کا اقرار تو کرچکے ہیں۔ پچاس سالہ خاتون، پانچ بچوں کی والدہ، جوان اولاد،تیس سالہ خوشگوار ازدواجی تعلق کے بعد حال ہی میں علیحدگی ہوئی ۔درست کہ ایک معزز گھرانے کی دین دار خاتون ہیں ،سیاسی مخالفین غیر شائستہ زبان استعمال کر کے ظلم کر رہے ہیں۔ عمران خان مگر خود بھی اپنی ادا پر غور کریں۔
اس خبر کے بعد پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں نے دل گرفتگی سے مجھے ان باکس میسج کر کے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ انہیں یہی مشورہ دیا کہ عمران کے سیاسی ایجنڈے کو سپورٹ کریں اور ذاتی زندگی کی غلطیوں کا دفاع ہرگز نہ کریں۔ بلنڈرزوہ کرتے ہیں تو دفاع بھی خود فرمائیں۔ کارکنوں کو عقید ت مند نہیں بننا چاہیے۔ سیاست ایک مسلسل عمل ہے، اس میں ایشو ٹو ایشو اپنی رائے دیں، جو بات درست لگے ،اسے سپورٹ، غلط محسوس ہو تو بے رحمی سے تنقید کریں۔ بات سادہ ہے۔ شادی نجی فعل سہی، مگر جو جنگ عمران لڑ رہے ہیں، اس میں ہزاروں ، لاکھوں سیاسی کارکن ان کے ساتھ جتے ہیں،”سٹیٹس کو“ کے خلاف جاری اس جنگ میںجنہوں نے سب کچھ داﺅ پر لگا رکھا ہے۔خان کو اپنے ساتھیوں، کارکنوں اور چاہنے والوں کی بھی خبر رکھنی چاہیے۔ لیڈرکو اپنی نفسانی خواہشات سے اوپر اٹھناپڑتاہے، اپنے سپنوں سے زیادہ اس کے لئے ساتھیوں کے خواب اہم ہوتے ہیں۔کاش یہ بات عمران خان سمجھ سکتے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔