پیپلزپارٹی ساکھ کی بحالی میں سرگرداں
چار روز قبل منو بھائی کا فون آیا کہ تین بجے بلاول بھٹو زرداری نے میرے ہاں آنا ہے، تم اس سے پہلے میرے ہاں پہنچو۔ جب میں وہاں پہنچا تو پروٹوکول، سیکیورٹی اور میڈیا کے لوگوں کا محلے پر قبضہ پایا۔ ہرطرف پولیس ہی پولیس، اور میڈیا کی گاڑیاں، کیمرے اور بندوقیں تھیں۔ یہ ایک نیا پاکستان ہے۔ دہشت گردی کے زیر سایہ اور الیکٹرانک میڈیا کا زمانہ۔ اب سیاسی رہنما کہیں آئیں جائیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہاں سیکیورٹی کے بندوق بردار اور الیکٹرانک میڈیا کے کیمرا بردار موجود نہ ہوں۔
اتوار کے روز پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کی برسی تھی، جہاں دعا میں شمولیت کے لیے بلاول بھٹو تشریف لائے۔ دعا مانگنے کے بعد میں وہاں سے روانہ ہوا تو گھر پہنچنے سے پہلے ہمارے دوست اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سرگرم رہنما جناب عثمان ملک صاحب کا فون آیا کہ منو بھائی کا فون نمبر اور ایڈریس بھیجیں، چیئرمین بلاول اُن کے ہاں جانا چاہتے ہیں۔ یقینا یہ سب منصوبہ بندی پاکستان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر جناب قمرالزماں کائرہ کی ہے۔ جب سے وہ پنجاب کے صدر نامزد ہوئے ہیں، وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ پنجاب کے اندر پاکستان پیپلزپارٹی کی ساکھ بحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے اور اس جدوجہد کا پرچم انہوں نے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں تھمایا ہوا ہے۔ وہ جتنا بھی ممکن ہے، پارٹی کی مقبولیت اور ساکھ کو بحال کرنے میں اپنے وسائل اور سیاسی حدود میں رہ کر بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اس کے لیے وہ پارٹی کی نظریاتی بحالی کا بھی متعدد بار احساس دلاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اب اپنی پچاسویں سالگرہ منانے جارہی ہے اور وہ اس کے لیے سال بھر تقریبات کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں۔ انہی تقریبات کے دوران اگلے انتخابات بھی منعقد ہوں گے۔ پیپلزپارٹی اس دوران پنجاب سے نئی امیدیں لگائے بیٹھی ہے کہ نتائج 2013ء سے زیادہ نہیں تو اس قدر ضرور بہتر ہوں کہ کسی طرح پیپلزپارٹی سندھ کے بعد پنجاب میں قومی اسمبلی کی 20/30 سیٹیں حاصل کرکے مرکزی حکومت بنانے کے قریب ہوجائے۔
میں جب منوبھائی کے ہاں پہنچا تو وہ اپنے بستر پر سجے دھجے لیٹے تھے اور اُن کی سائیڈ ٹیبل پر وہ کتاب قرینے سے سجی تھی جو اتوار کے روز میں نے خود جاکر انہیں پیش کی۔ یہ کتاب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر ترکی زبان میں لکھا جانے والا ایک سوانحی ناول ہے۔ یہ ناول میری ایک ترک دوست یشار سیمان نے لکھا ہے۔ یہ دنیا بھر میں کسی بھی زبان میں محترمہ بے نظیر بھٹوپر لکھا جانے والا پہلا ناول ہے۔ یشار سیمان خود ترکی کی معروف سیاسی رہنما اور ترقی پسند لکھاری ہیں۔ وہ اتاترک کی قائم کردہ جمہور خلق پارٹی کے محنت کشوں کے شعبے کی سربراہ اور پارٹی کی فیصلہ کن کمیٹی کی رکن ہیں۔ جمہور خلق پارٹی، ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت ہے۔ اس ناول Benazirکے ترک زبان میں پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس ناول کو میں نے ذاتی دلچسپی لے کر انگریزی میں ترجمہ کروا کر شائع کیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ زیراشاعت ہے۔ جب میں نے منوبھائی کے ہاں اس کتاب کو اُن کے بستر کے قریب میز پر سجا پایا تو جہاں خوشی ہوئی کہ میری علمی کاوش کو پاکستان کے معروف ادیب، صحافی، کالم نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر نے بلاول سے ملاقات کے دوران اپنے بستر کے برابر میز پرفخر سے سجا رکھا ہے، وہیں میرے دماغ میں یہ سوال بھی امڈ آیا کہ ہماری ترقی پسند جماعتوں نے اپنے ہاں علمی، فکری، ادبی اور تخلیقی کام کے دروازے مکمل طور پر بند کردئیے ہیں۔ دنیا بھر میں ترقی پسند سیاسی جماعتیں اپنے ہاں حقیقی علمی وفکری ادارے قائم کرتی ہیں۔ خود پاکستان پیپلزپارٹی کا ظہور ’’نصرت‘‘ جیسے جریدے کے بطن سے ہوا۔ پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ مساوات قائم کرکے اس کام کو آگے بڑھایا اور انہوں نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا کہ میرے تین بیٹے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو اور روزنامہ مساوات۔ افسوس دو بیٹے سیاست کی کرختگیوں کا شکار ہوکر قتل ہوئے اور روزنامہ مساوات پارٹی کی عدم دلچسپی (جسے میں علم سے عدم دلچسپی کہوں گا) کا شکار ہوکر میدانِ صحافت کا مکمل گھائل روزنامہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ہاں بڑے بڑے تھنک ٹینک بنانے کے دعوے تو سنتے ہیں، مگر عملاً کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ پارٹی اس سفر کو جاری رکھتی جو ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ مساوات کا اجرا کرکے کیا تو آج پارٹی کا اپنا میڈیا ہائوس ہوتا۔ پارٹی حقیقی پارٹی کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے محروم ہے۔ کسی عمارت کو ہم آج کی جدید دنیا کا پارٹی کا سیکریٹریٹ تسلیم نہیں کرسکتے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا سیکریٹریٹ عمارت کے اندر موجود وسائل، جدید سہولیات اور ان سے متعلقہ لوگوں کے سبب ایک سیاسی سیکریٹریٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے سیکریٹریٹس کا یہی حال ہے، سوائے مذہبی سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے۔ لیکن اگر آپ ان تمام روشن خیال، ترقی پسند اور لبرل دعوے کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے گھر دیکھیں تو وہ گھروں سے زیادہ شہنشاہی محلات ہیں۔ بلاول ہائوس ہو یا نوازشریف کا جاتی عمرہ یا عمران خان کا پہاڑی کی چوٹی پر بنی گالہ محل۔
جب سیاسی جماعتیں اپنے ہاں تنظیمی ڈھانچوں، سیاسی دفاتر اور سیاسی دفاتر میں جدید سہولیات سے محروم ہوں گی تو پھر ان کی سیاست کا یہی حال ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلح افواج کا دفتر شعبہ تعلقات حیران کن حد تک منظم اور جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔
جب ہم ایسی بات کریں تو دلیل دی جاتی ہے کہ ہمارے (سیاسی جماعتوں کے) پاس وسائل نہیں۔ لیکن رہنمائوں کی جیبیں سرمائے سے اٹی ہوتی ہیں۔ جب آپ سیاسی جماعتوں کے اندر چندہ اکٹھا کرکے سیاسی جماعتوں کو چلانے کے طریقہ کار کو متروک کردیں گے تو پھر ایسی ہی جماعتیں معرضِ وجود میں آتی ہیں جیسی ہمارے ہاں ہیں۔ پھر قیادتیں سیاسی دفاتر کی بجائے سیاسی گھروں اور گھرانوں کے اندر جنم لیتی ہیں۔ مریم نواز، حمزہ شہباز، مونس الٰہی، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، اسفند یار ولی۔
پاکستان پیپلزپارٹی اگر اپنی سیاسی ساکھ اور مقبولیت بحال کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس سیاسی ڈھانچے کو قائم کرنا ہوگا جو 1967ء میں قائم ہوا تھا۔ جب پارٹی نصرت، مساوات اور دہقان جیسے جرائد نکالتی تھی۔ تب پارٹی 70کلفٹن یا بلاول ہائوس نہیں بلکہ 4-A مزنگ میں قائم تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی، پنجاب میں کامیابی سے ہمکنار کیوں ہوئی؟ میں دعوے سے عرض کرتا ہوں کہ اس کے کئی اسباب کا پارٹی کی آج کی اعلیٰ قیادت کو علم نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سوشلزم کا نعرہ لگایا، یہ نعرہ پورے مغربی پاکستان میں لگا۔ لیکن اس نعرے کو مکمل کامیابی پنجاب سے ملی۔ سندھ سے جیتنے والے تمام 18اراکین جاگیردار تھے۔ پنجاب سے جیتنے والے 62میں سے 61لوگ درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ کبھی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس پر غور کیا؟ پنجاب ہی تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو مقبول ترین لیڈر بنایا۔ اس پنجاب کی قیادت بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کرتے تھے۔ اس پنجاب سے مساوات، نصرت اور دہقان، پارٹی کے زیراہتمام اور اس کے اراکین نکالتے تھے۔ تب پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت پنجاب کے دانشوروں کے پاس تھی۔ حنیف رامے، اسلم گورداسپوری، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن، اور سینکڑوں نہیں ہزاروں دانشور اور شاعر۔ آج کیا پاکستان پیپلزپارٹی ایسا ڈھانچا اور ہیئت رکھتی ہے۔ فقط سوشلزم کا نعرہ لگا دینے سے پارٹی اپنی ساکھ اور مقبولیت بحال نہیں کرسکتی۔ پیپلزپارٹی کو انہی بنیادوں پر جدید تقاضوں سے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پارٹی نوجوان کیڈر بنانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ خواتین اور نوجوان (پڑھے لکھے) اب اس کی تقریبات میں دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔ پارٹی جب ’’حسین حقانیوں‘‘ جیسے ’’پُراسرار دانشوروں‘‘ پر انحصارنہیں کرے گی، عوامی دانشوروں کو پھلنے پھولنے کے مواقع دے گی تو انتخابی نتائج کچھ بہتر کیے جاسکتے ہیں، ورنہ صرف ذوالفقار علی بھٹو جیسی پارٹی کے خواب ا ور خواہشات ہی کی جاسکتی ہیں۔اس سارے عمل کا آغاز جناب آصف علی زرداری صاحب ہی سے ممکن ہے۔
“