پیپلزپارٹی کو پنجاب میں اپنا وزیراعلی دیکھے تقریباً چوالیس برس ہو چکے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا، اسدوران نو قومی انتخابات ہو چکے جن میں سے 1985 والے انتخابات کا پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کیا اور ان میں حصہ نہیں لیا جبکہ 1988،1993 اور 2008 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنا وزیراعلی بنانے کی پوزیشن میں تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اور پیپلزپارٹی کو یا تو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا یا اتحادی حکومت پر اکتفا کرنا پڑا۔ 1990 کا الیکشن پیپلزپارٹی سے مکمل طور پر چھین لیا گیا جس کی چوریکا مقدمہ آج بھی اصغر خان کیس کی صورت میں سپریم کورٹ کے کسی کونے کھدرے میں پڑا سسک رہا ہے، اس کیس کے مدعی اصغر خان اور اس ووٹ چوری کی شکار محترمہ بینظیر بھٹو شہید انصاف کا انتظار کرتے کرتے اگلے جہان چلے گئے۔ اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان حقائق کو پنجاب کے عوام کے سامنے لایا جائے اور پیپلزپارٹی کا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کیا جائےکہ کیسے مقتدر حلقوں میں 1977 کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ پیپلزپارٹی جیسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور بائیں بازو کی قومی سطح کی واحد جماعت کو آئیندہ پنجاب میں اقتدار سے دور رکھا جائے کیونکہ پیپلزپارٹی جیسی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے گڑھ پنجاب میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پنجاب بتدریج انتہا پسندی کا شکار ہوتا چلا گیا اور آج صورتحال یہ ہےکہ تحریک لبیک جیسی انتہا پسند جماعت پنجاب کے ہر حلقے میں قابل ذکر ووٹ بینک بنا چُکی ہے۔ ان تمام برسوں میں مسلم لیگ کےمختلف گروپ جن میں مسلم لیگ نون، مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف جیسی پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتیں تو پنجاب پر حکومت کرتی رہیں لیکن پیپلزپارٹی کے لیے پنجاب کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی زندگی تک تمام تر ناموافق حالات، مقتدرہ کی مخالفت، میڈیا ٹرائل اور پروپیگنڈے کے باوجود پیپلزپارٹی بار بارپنجاب کی ایک بڑی جماعت بن کر ابھرتی رہی۔ انیس سو نوے اور انیس سو ستانوے کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات کے باوجودپنجاب میں پیپلزپارٹی کا زور نہ توڑا جا سکا۔ لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمقتدرہ اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے تیسری قوت کے طور پر تحریک انصاف کو پاکستان کی سیاست میں اپنی ایک کنگز پارٹی کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو دو مرتبہ غیر طبعی طور پر منظرعام سے ہٹا دیا گیا جس کا پیپلزپارٹی کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا لیکن پیپلزپارٹی چونکہ ایک نظریاتی جماعت ہے جس کی جڑیں عوام میں بہت گہری ہیں اسلیے پیپلزپارٹی بہرحال اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ورنہ جن حالات سے پیپلزپارٹی گزری ہے بہت سی جماعتیں اپنا وجود کھودیا کرتی ہیں۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کی ناکامی میں جہاں بی بی کی شہادت کا عنصر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے وہاں اور بھی کافی سارے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک تشویشناک حد تک کم ہو گیا۔ ان عوامل میں سب سے بڑا عنصر تو پیپلزپارٹی اوراس کی قیادت کے خلاف کیا جانے والا زہریلا پروپیگنڈہ ہے جس کے لیے ہر قسم کے میڈیا کو بے دریغ استعمال کیا گیا اور پیپلزپارٹیاس زہریلے پروپیگنڈے کا کبھی بھی خاطرخواہ توڑ نہیں کر سکی۔ کوئی ایک مقدمہ بھی ثابت نہ ہونے کے باوجود ہمیشہ پیپلزپارٹی کےخلاف کرپشن کا زوردار پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا اور یہ پروپیگنڈہ کرنے میں وہ لوگ اور جماعتیں پیش پیش رہیں جن کا اپنا سارا وجود کرپشنمیں لتھڑا ہوا ہے اور جو خود کرپشن کے مقدمات میں سزایافتہ بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے جھوٹے مقدمات بنانے والے نہ صرف جھوٹے مقدمات بنانے کا اپنا گناہ تسلیم کرچکے ہیں بلکہ زرداری صاحب کے پاوں میں گر کر معافی بھی مانگ چکے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود زہریلا پروپیگنڈہ آج بھیجاری ہے اور پنجاب کے بھولے عوام اس پر یقین بھی کیے بیٹھے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی پچھلے چوالیس سال سے پنجاب میں حکومت آئیہی نہیں اس لیے پنجاب کے عوام کا پیپلزپارٹی سے کوئی شکوہ یا شکایت کرنا تو ویسے بھی نہیں بنتا۔
پیپلزپارٹی کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کے علاوہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے مقتدر قوتوں نے انتخابات میں ایک نئی انجنئیرنگ متعارف کروائی اور وہ تھی قومی جماعتوں کو صوبائی جماعتوں کے طور پر پیش کرنا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے نتائج کا بغور جائزہلیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ جیسی قومی سطح کی جماعتوں کو سندھ اور پنجاب کی جماعتیں بنا دیا گیا۔ ن لیگ کو تو اس سے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں کیونکہ پنجاب کے بڑا صوبہ اور زیادہ سیٹیں ہونے کی وجہ سے ن لیگ کو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا لیکن اصل گیم یہ ہوئی کہ دونوں بڑی جماعتوں کو صوبائی سطح کی جماعتیں بنا کر تیسری جماعت تحریک انصاف کی انٹری کروا دی گئی۔ اس کے لیے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ریٹرننگ افسران کی مدد لی گئی تاکہ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے بوریا بستر گول کرکے سندھ تک محدود کردیا جائے اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں آر ٹی ایس سے مدد لے کر بالآخر تبدیلی پراجیکٹ کو کامیابی سے حکومت تھما دی گئی۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابات نے یہ بھی ثابت کیا کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمت کی سیاست نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے لیے بیک فائر کیا کیونکہ پیپلزپارٹی کا وہ ووٹر جو ن لیگ سے شدید مخالفت کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا حمایتی تھا وہ ووٹر پیپلزپارٹی کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے ن لیگ کی ضد میں تحریک انصاف کے پاس چلا گیا۔
اب موجودہ صورتحال میں جبکہ تحریک انصاف حکومت یا عمران خان پراجیکٹ تین سال میں ہی بدترین ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ عمران حکومت کی نااہلی، بیڈ گورننس اور بدترین ناکامی کے بعد خاص طور پر پنجاب میں ایک بار پھر بہت بڑا خلا پیدا ہو چکاہے۔ پیپلزپارٹی کا تحریک انصاف میں جانے والا ووٹر تحریک انصاف سے متنفر ہو چکا ہے اور پیپلزپارٹی میں واپسی کے لیے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے فعال کردار کا منتظر ہے۔ اب یہ پیپلزپارٹی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی پنجاب کی عوام کی نبض پر ہاتھرکھتے ہیں اور پنجاب میں اپنی تنظیم مکمل کرکے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں۔ اس کے لیے پیپلزپارٹی کے پاس وقت کوئی زیادہ نہیں ہے کیونکہ پنجاب میں تحریک لبیک جس طرح ہر حلقے اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکی ہے خطرہ ہے کہ ایسا ووٹر جو نظریاتی بھی نہیںہے، ن لیگ کا مخالف بھی ہے اور تحریک انصاف سے متنفر بھی ہے تو اگر پیپلزپارٹی نے اگر جلد ہی پنجاب میں اپنی سرگرمیاں شروع نہ کیں تو ایسا ووٹر پھر تحریک لبیک کی جھولی میں جا گرے گا۔
تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس بہترین موقع ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرےاور اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک دوبارہ حاصل کرے۔ پنجاب کی عوام اس کے لیے تیار بھی ہے جس کا ثبوت پی ڈی ایم کےگوجرانوالہ، ملتان اور لاہور کے جلسوں میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت ہے۔ گوجرانوالہ کے جلسے کےسلسلے میں چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی لالہ موسی سے گوجرانوالہ تک کی ریلی میں عوام کی بھرپور شرکت اور اس کے بعد ملتان کا جلسہ جن حالات میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اپنے زور بازو سے منعقد کروایا ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب کے کارکن اور عوام چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے کس شدت سے منتظر ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کی محدود انتخابی مہم کے بعد بہت کم ایسے مواقع آئے ہیں جب چیرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی صورت پنجاب کے کسی علاقے میں نکلے ہوں، شائد لالہ موسی سے گوجرانوالہ کی ریلی ہی واحدموقع تھا اور اس موقع پر جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ بڑے حوصلہ افزا تھے۔ ایسے علاقوں میں جو نون لیگ کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہاں بھی چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں ایک نئے سورج کی طرح دوبارہ طلوع ہو چکی ہے اور بی بی کی شہادت کے بعد اُجڑ جانے والا میلہ دوبارہ سج چکاہے، شہید رانی کے دور والی رونق بحال ہو چکی ہے اور پنجاب ایک دفعہ پھر چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کےجھنڈے تلے متحد ہو رہا ہے۔ جیالے چارج ہو چکے ہیں، مشکل وقت گزر چکا ہے اور پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے شاندار ماضی کیطرف لوٹ رہی ہے لیکن اس کے لیے ابھی بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے سنٹرل پنجاب کے لیے ایک تگڑے صدر کا انتخاب اور جلد از جلد نئی تنظیم کا اعلان کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کی تنظیم میں دوست محمد کھوسہاور گیلانی برادران جیسے متحرک اور نوجوان سیاستدانوں کو ذمہ داریاں دیا جانا بھی اچھے نتائج دے سکتا ہے۔
تنظیم نو کے بعد سب سے زیادہ اہم اور ضروری کام چیرمین بلاول بھٹو زرداری کا پنجاب کے کونے کونے اور شہر شہر جا کر عوامی رابطہ مہم چلانا، ورکرز کنونشنز سے خطاب اور کارکنوں سے ملاقات ہے۔ جس طرح گلگت بلتستان کے انتخابات کے موقع پر چیرمین بلاول بھٹو زرداری گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں تک پہنچے تھے۔ اسی طرح کی میراتھن رابطہ مہم پنجاب میں ناگزیر ہے۔ کم ازکم تحصیل کی سطح تک چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو خود جا کر عوامی رابطہ مہم کی قیادت کرنی چاہیے تب کہیں جا کر پیپلزپارٹی کو پنجاب میں دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۔ پارٹی تنظیم بے شک جتنی بھی فعال ہو لیکن ووٹر قیادت کی جانب ہی دیکھتا ہے اور ووٹپارٹی اور قیادت کے نام پر ہی ملتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ اک فعال پارٹی تنظیم کی افادیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن الیکشن جیتنے کے سب سے زیادہ ضروری چیز قیادت کا عوام سے براہ راست رابطہ ہے۔ اگلے انتخابات میں پنجاب میںانتخابی مہم کے لیے آصفہ بھٹو زرداری بھی اپنے بھائی کی مدد کر سکتی ہیں اور اس سے پیپلزپارٹی کو بہت فائدہ بھی ہونے کی توقع ہے۔ اگلے انتخاب میں بظاہر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہی بڑا مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے تو ن لیگ کی مریم نواز کےمقابلے میں آصفہ بھٹو زرداری جن کو عکسِ بینظیر بھی کہا جاتا ہے پنجاب میں پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے بہت موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔ ملتان جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کو ملنے والی پذیرائی اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔
پیپلزپارٹی کا پنجاب کا مقدمہ ایک مشکل مقدمہ ہے اور اسے جیتنے کے لیے مسلسل محنت، یکسوئی، درست لائحہ عمل، بہترین ٹیم اورقیادت کی توجہ درکار ہے۔ کارکن اور عوام یہ مقدمہ لڑنے کے لیے قیادت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ حُسن ظن یہی ہے کہ قیادت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور پس پردہ یقیناً سٹریٹیجک پلاننگ ہو بھی رہی ہو گی، لائحہ عمل بھی مرتب ہو رہا ہو گا اور پنجاب کی تنظیم کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۔
امید ہے کہ پنجاب کے جیالے کارکن جلد ہی اپنی قیادت کے شانہ بہ شانہ تحتِ لاہور کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔ پیپلزپارٹی کو ہرصورت پنجاب میں اپنا یہ مقدمہ جیتنا ہے کیونکہ صرف اسی صورت پنجاب میں عوامی راج آئے گا۔
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...