پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جب زرداری صاحب صدر مملکت بن چکے تھے تو اردشیر کاوس جی سے ایک انٹرویو میں کسی صحافی نے پوچھا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہو چکا ہے تو اردشیر کاوس جی کا جواب تھا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہی نہیں ہوا بلکہ آوارہ بھی ہو چکا ہے۔ موجودہ زمانے کے میڈیا کی اس سے اچھی تشریح میں نے کسی اور سے نہیں سنی۔ سب کو یاد ہو گا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں چینلز کس حد تک جا کر حکومت کی مخالفت کیا کرتے تھے اور زرداری صاحب تو ہمیشہ کی طرح میڈیا کا سب سے پسندیدہ اور آسان ٹارگٹ تھے لیکن پیپلزپارٹی کی طرف سے میڈیا کے خلاف کبھی کسی قسم کا کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں میڈیا کو جس قسم کی آزادی حاصل رہی اس کا مقابلہ کسی اور دور حکومت سے نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلزپارٹی کے دور کے وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے صدر آصف علی زرداری سے کہا کہ میڈیا اپنی حدود سے بہت زیادہ تجاوز کرنے لگا ہے اس کے لئے کچھ کرنا چاہئیے تو صدر زرداری نے مجھےجواب دیا “بس اتنی سی برداشت ہے آپ میں۔ ان کو اپنا کام کرنے دو آپ اپنا کام کرو” صدر زرداری کے اس ایک فقرے سے پیپلزپارٹی کے میڈیا کے ساتھ برتاؤ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کیسے ہمیشہ سے آزادی صحافت کی داعی رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے میڈیا کو دی جانے والی آزادی کا اعتراف تو پیپلزپارٹی کے بدترین ناقد کامران خان جیسے لوگ بھی کرنے سے باز نہیں رہ سکے۔
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے جہاں آزادی صحافت کی بات کی جاتی ہے وہاں یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ صحافت سے وابستہ افراد بھی اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں کیونکہ اگر صحافت میں جانبداری کا ذرا سا بھی عنصر آ جائے تو پھر آپ اسے جو مرضی کہیں صحافت نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان میں بھی بڑے بڑے نام گزرے ہیں جنہوں نے صحافت کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے اور جن کی غیرجانبداری پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اب بھی ایسے لوگ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں موجود ہیں جن کی غیرجانبداری کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی لیکن ان لوگوں کا دم غنیمت ہے جو اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح پورا معاشرہ ہی انحطاط کا شکار ہے صحافت بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ پچھلے کچھ سالوں میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد اور دھڑا دھڑ نئے چینلز کے کھلنے اور پیسے کی ریل پیل نے بھی صحافت کے معیار کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صحافت میں لفافے کی اصطلاح بہت عام ہو چکی ہے، ایک اصل صحافی کے لئے تو لفافے کا لفظ گالی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن صحافیوں اور اینکرز کے لبادے میں چھپی کالی بھیڑوں کے لئے لفافہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سیاست میں لفافے اور حکومتی نوازشات کا آغاز اسی کی دہائی میں اس وقت ہوا جب میاں نواز شریف نے صحافیوں کومختلف طریقوں سے نوازنا شروع کیا۔ صحافیوں کو قیمتی پلاٹ الاٹ کئے گئے، واجبی سے کرایے پر پٹرول پمپوں کے ٹھیکے دئیے گئے، اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر صحافیوں کو پارلیمان میں پہنچایا گیا اور وزارتوں کے منصب دے کر نوازا گیا۔ ان سب نوازشات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف وہ غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جس کے اثرات سے پیپلزپارٹی کبھی نکل ہی نہیں سکی، پنجاب میں زرد صحافت کے اس پروپیگنڈے کا پیپلزپارٹی کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے آنے سے جہاں خبر کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے وہاں پروپیگنڈہ کی رفتار میں بھی اتنی ہی تیزی آئی ہے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف جیسی جماعتیں میڈیا کے ان دونوں محاذوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر پروگرام کرنے والے اینکرز اور تبصرہ نگار آدھے ن لیگ کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں اور آدھے تحریک انصاف کا دم بھرتے نظر آتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے بارے کسی بھی خبر اور اچھے کام کو بڑی سہولت کے ساتھ نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہاں پیپلزپارٹی کے خلاف اگر پروپیگنڈہ کرنا مقصود ہو تو فیک خبروں اور تبصروں کو بار بار چلایا جاتا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے سیاسی ایونٹس کو یا تو بالکل اگنور کردیا جاتا ہے یا چند سیکنڈز کی خبر میں نمٹا دیا جاتا ہے۔
میڈیا کے اس دوہرے معیار کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جہاں پروپیگنڈہ کرتے وقت تو تمام چینلز نے پروپیگنڈے پر مبنی خبر کو اپنے پرائم ٹائم میں جگہ دی لیکن جب وہ خبر غلط ثابت ہوئی تو معذرت کرنا تو دور کی بات، تردید بھی نشر نہیں کی گئی۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں کامران خان کے پروگرام عجب کرپشن کی غضب کہانیاں کس کو یاد نہیں، ہر چینل پر ایسے پروگرام نشر کئے جاتے رہے لیکن وہ سب کہانیاں ہی رہیں کبھی ان کہانیوں پر نہ تو کوئی ریفرنس بن سکا اور نہ باقاعدہ کوئی کاروائی عمل میں آ سکی، اسی طرح تنویر زمانی نامی خاتون کے ساتھ زرداری صاحب کے پتہ نہیں کون کون سے رشتے جوڑے گئے، سجاول زرداری نامی بیٹا تک پیدا کروادیا گیا اور یہ سب ان چینلز کے پرائم ٹائم کی نشریات میں ہوا لیکن ان سب خبروں کے غلط ثابت ہونے پر کسی نام نہاد اینکر اورمیڈیا ہاؤس کو معذرت کی توفیق تک نہ ہوئی۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے ایک آرٹیکل بہت کم ہے اس کے لئے بہت سے صفحات درکار ہیں۔
سوشل میڈیا کو دیکھیں تو ن لیگ اور تحریک انصاف نے باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جہاں تنخواہ دار ملازمین کام کرتےہیں جن کا کام ہی اپنی پارٹی کو پروموٹ کرنا اور مخالفین پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال کرنا تو معمول کی بات سمجھی جاتی ہے، اسی طرح ایک دوسرے کی خواتین کے خلاف اخلاق سے گرے ٹرینڈ چلانے میں بھی ان دونوں جماعتوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ن لیگ کا سوشل میڈیا سیل تو براہ راست مریم نواز کی نگرانی میں چلایا جاتا ہے۔ دوسری طرف جہاں تک تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کا تعلق ہے تو چونکہ تحریک انصاف اس وقت حکومت میں ہے تو سوشل میڈیا سےتعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے اراکین کو بڑی بڑی سرکاری نوکریوں اور مراعات سے نوازا گیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم نے تین سالوں میں اور تو کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو سوشل میڈیا سیل کی براہ راست نگرانی ضرور کرتے ہیں۔ کتنی ہی مصروفیت کیوں نہ ہو یا ملک کو جیسے بھی حالات کا سامنا ہو وزیراعظم اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے اجلاسات میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں اور ہدایات جاری کرتے ہیں کہ مخالفین کی پگڑی کیسے اچھالنی ہے۔ موجودہ حکومت کے وزرا سے لے کر سوشل میڈیا ایکٹویسٹس تک جھوٹ اس ڈھٹائی سے بولا جاتا ہے اور اس قدر تواتر کے ساتھ بولا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے۔ پہلے وقتوں میں کسی کی زمین کو اپنے زیر تسلط کر لینے کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا لیکن آج کے دور میں پروپیگنڈہ کےذریعے کسی کی رائے کو بدل دینا یا اپنے زیر اثر کر لینا بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا، پروپیگنڈہ کی اس جنگ کا ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے موجودہ حکومت اور ن لیگ کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس بڑی کامیابی سے اپنی سیاست کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی سوشل میڈیا کے محاذ پر دوسری دونوں جماعتوں سے کافی پئچھے ہے۔ عام طور پر پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس پارٹی سے محبت اور پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کا جواب دینے کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کا سوشل میڈیا سیل تو موجود ہے لیکن اس کا سوشل میڈیا رضاکاروں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوائے سنٹرل پنجاب کے کسی دوسرے صوبے کا سوشل میڈیا سیل موجود ہی نہیں۔ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے سوشل میڈیا رضاکاروں کو باقاعدگی سے پارٹی سرگرمیوں سے آگاہ بھی رکھا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کی کسی بھی سیاسی سرگرمی سےمتعلقہ مواد بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جا سکے۔
پیپلزپارٹی کی میڈیا سے شکایت بجا ہے لیکن اپنی صفوں کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق انفارمیشن کے سیلاب اور پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کے توڑ کے لئے باقاعدہ میڈیا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پارٹی کی بہتر طریقے سے نمائیندگی ہو سکے۔ ریسرچ سیل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ الیکٹرانک میڈیا پر پارٹی کی نمائیندگی کرنے والے افراد کو مواد فراہم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر نمائیندگی کرنے والےافراد میں بھی اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے چند ہی نام ہیں جو ٹی وی چینلز پر پارٹی کی نمائیندگی کرتے نظرآتے ہیں۔ سوشل میڈیا آج کے دور کا سب طاقتور میڈیم بن چکا ہے اس کی اہمیت کا احساس کیا جانا بھی بہت ضروری ہے، سوشل میڈیا رضاکاروں کے ساتھ رابطے اور ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے پاس سوشل میڈیا رضاکاروں کی ایک بہت بڑی تعداد میسر ہے جن کی اگر رہنمائی کی جائے تو پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ پارٹی کےنظریہ اور کارناموں کو اجاگر کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ان کا پیپلزپارٹی کے ساتھ رویہ جیسا بھی رہے پیپلزپارٹی نے میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ اس معاملے میں ن لیگ کا بالعموم اور تحریک انصاف کا بالخصوص کوئی بہت اچھا کردار نہیں رہا۔ موجودہ حکومت کے دور میں تو صحافت کو کنٹرول کرنے کے لئے اور صحافتی آزادیوں کو سلب کرنے کے لئے کبھی قانون سازی کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی ناپسندیدہ صحافیوں کو حکومتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سارے معاملےمیں دلچسپ یا افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وہ میڈیا جس کی گردن پر آج سلیکٹڈ حکومت نے انگوٹھا رکھا ہوا ہے یہی میڈیا عمران خان کے جلسوں کی لئے سپیشل ٹرانسمیشن چلاتا رہا ہے۔ آج اینکر خود تسلیم کررہے ہیں کہ ہم دھرنے کے دوران خالی کرسیاں نہیں دکھایا کرتے تھے۔ کئی اینکرز اور صحافی جو نوکریوں سے فارغ کئے گیے ہیں برملا تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اس تبدیلی کے گناہ میں برابر کے قصوروار ہیں۔ یہاں سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ یہی میڈیا جب پیپلزپارٹی کی بات آتی ہے تو ایک بالکل دوسرے مائینڈ سیٹ کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن جب بھی صحافت پر یا صحافیوں پر کڑا وقت آیا تو سب سے پہلی اور توانا آواز پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہوتی ہے اور بلا امتیاز ہوتی ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی صحافی یا میڈیا ہاؤس پیپلزپارٹی یا اس کی قیادت کےبارے کیسا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان کی مانند ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ وہ صحیح خبر عوام تک پہنچائیں اور کسی غلط پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔ اس لئے اگر آزادی صحافت ضروری ہے تو صحافی کا اپنے پیشے سے مخلص ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔صحافت کو ایک مقدس پیشہ تصور کیا جاتا ہے اس لئے اس شعبہ سے وابستہ افراد اور صحافتی تنظیموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کا خود محاسبہ کریں تاکہ اس مقدس پیشے کا نام بدنام نہ ہو۔ پاکستان میں آزادی صحافت کی ایک بہت بڑی قیمت ادا کی گئی ہے، ضیا آمریت کے دوران جہاں سیاسی کارکن ضیائی آمریت کا شکار رہے وہاں صحافی بھی آزادی صحافت کے لئے پابندِ سلاسل رہے۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور انہیں نوکریوں سے فارغ کروا دیا گیا۔ مشرف آمریت میں عام طور پر صحافت کے لئے ماحول سازگار ہی رہا لیکن ایک موقع آیا جب جنرل مشرف نے بھی اپنے پیشرو کی طرح ہی صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جس کے لئے اسے شدید مزاحمت سامنا کرنا پڑا۔ اس لئے خود صحافتی تنظیموں اور صحافت سے وابستہ افراد کےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا آزادی صحافت کی شاندار جدوجہد کو صحافت کا لبادہ اوڑھے چند کالی بھیڑوں کے ہوس زر کی بھینٹ چڑھا دیا جائے یا صحافت کے پیشے کے تقدس کو برقرار جائے۔
نفس کو آنچ پر اور وہ بھی عمر بھر رکھنا
بڑا محال ہے ہستی کو معتبر رکھنا
****
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ