(Last Updated On: )
پاکستان پیپلزپارٹی کو اس وقت یقینی طور پر پنجاب میں اپنی احیائے نو کا چیلنج درپیش ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے آغاز سے لے کر ہمیشہ پنجاب کی ایک بڑی سیاسی پارٹی رہی ہے۔ برے بھلے وقت بھی پیپلزپارٹی پر آتے رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے جیتے ہوئے الیکشن بھی چھینے جاتے رہے، یہاں تک کہ انیس سو ستانوے میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے ایک سیٹ بھی جیتنے نہیں دی گئی اور پروپیگنڈہ کیا گیا کہ پیپلزپارٹی پنجاب سے ختم ہو چکی ہے اور اب یہ صرف سندھ کی پارٹی بن چکی ہے لیکن اس کے باوجود دو ہزار دو اور دو ہزارآٹھ کے الیکشن میں پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر پنجاب کی ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ آج بھی پیپلزپارٹی کو کچھ ایسی ہی صورتحال درپیش ہے اور پروپیگنڈہ یہی کیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب سے ختم ہو چکی ہے اور اس کا پنجاب میں دوبارہ پاوں جمانا اب ممکن نہیں رہا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے دو الیکشن میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک بہت حد تک متاثر ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی کا بہت سارا ووٹ تحریک انصاف کو بھی منتقل ہوا ہے۔ بہت سارے عناصر ہیں جو پنجاب میں اس تبدیلی کا باعث بنے، اگر اس کی ایک وجہ پیپلزپارٹی کی اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں تو دوسری بڑی اور بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ سوچ کہ پیپلزپارٹی جیسی نظریاتی جماعت کو پنجاب جیسے بڑے صوبے کے اقتدار سے دور رکھنا بھی ہے۔ اس استدلال کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ کبھی ق لیگ اور کبھی تحریک انصاف جیسی نوزائیدہ کنگز پارٹیز کو تو پنجاب میں اقتدار دے دیا جاتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کو انیس سو ستتر کے بعد پنجاب میں کئی دفعہ اکثریت میں ہونے کے باوجود اقتدار نہیں دیا گیا۔
جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی نسبتا بہتر پوزیشن میں ہے اور جنوبی پنجاب کے بارے انہی کالموں میں کافی کچھ لکھا بھی جا چکا ہے۔ اس لئے آج ان سطور میں پیپلزپارٹی کی سنٹرل پنجاب میں پوزیشن اور کارکردگی پر ہی بات کی جائے گی۔ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کی نئی قیادت کو اپنے عہدے سنبھالے چند ہفتے گزر چکے ہیں اور نئی قیادت کی جانب سے مسلسل اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ وہ سنٹرل پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر گلیوں اور چوراہوں میں لے کر آئیں گے اور اب پیپلزپارٹی بند کمروں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ نئی قیادت کی جانب سے اس بات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن جو خاموش ہو چکے ہیں اور کسی وجہ سے گھروں میں بیٹھ چکے ہیں ان کے گھروں میں جا کر ان کو منایا جائے گا اور ان کو پارٹی میں دوبارہ متحرک کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف اور ان کی ٹیم اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن ان کی نیت پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ پیپلزپارٹی کو اگر مرکز میں اقتدار کے سیڑھی پر چڑھنا ہے تو پھر اسے پنجاب میں اپنا ووٹ بینک ہر صورت واپس لینا پڑے گا۔
اس ہفتے پیپلزپارٹی پنجاب کی جانب سے پے در پے دو سیاسی سرگرمیاں ایسی کی گئی ہیں جن سے پیپلزپارٹی کے چاہنے والوں کےدل میں اُمید کی ایک کرن جاگ اٹھی ہے اور پیپلزپارٹی کے جیالے ایک دفعہ پھر نئے عزم کے ساتھ پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لئے کمربستہ نظر آنے لگے ہیں۔ لاہور میں مہنگائی کے خلاف نکالی جانے والی پیپلزپارٹی کی ریلی ایک لمبے عرصے کے بعد لاہور میں پیپلزپارٹی کا ایک اچھا شو تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر پیپلزپارٹی کے جھنڈوں سے سجی گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کےترانوں نے جیالوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا۔ ریلی کے آغاز سے لے کر اختتام تک عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ریلی کے ساتھ رہی۔ اس کامیاب ریلی نے اگلے دن گوجرانوالہ میں ہونے والے پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے ورکرز کنونشن کے لئے بھی سٹیج سیٹ کردیا۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے یوتھ ورکرز کنونشن میں شرکت کے لئے لاہور سے پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر راجہ پرویزاشرف اور سیکرٹری جنرل سید حسن مرتضی کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ لاہور سے روانہ ہوا۔ راستے میں جگہ جگہ اس قافلے کا شانداراستقبال کیا گیا اور وہاں سے لوگ قافلے میں شامل ہوتے رہے۔ جی ٹی روڈ جہاں سے پیپلزپارٹی کے جھنڈے اور فلیکسسز کافی عرصہ سے غائب ہو چکے تھے ایک دفعہ پھر اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے قائدین کا قافلہ جب گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوا تو یہ قافلہ ایک بڑے جلوس کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ یہی حال پنڈال میں تھا جہاں یوتھ کا ورکرز کنونشن پیپلزپارٹی کے ایک بڑے جلسے کی صورت اختیار کر گیا۔ گوجرانوالہ کے ورکرز کنونشن کی منفرد بات یہ تھی کہ سنٹرل پنجاب کے جیالے ماضی کی طرح پرجوش نظر آئے۔ جیالوں کے چہروں پر روشن مستقبل اور پارٹی کے احیاء کی امید واضح نظر آئی۔ گوجرانوالہ کے اس کامیاب ورکرزکنونشن کے لئے بجا طور پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن سنٹرل پنجاب کے صدر محسن ملہی، پیپلز یوتھ آرگنائزیشن گوجرانوالہ ڈویژن کے صدر ملک آصف اعوان اور ان کے ساتھی بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کی ان کامیاب سرگرمیوں کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ردہم کو برقرار رکھا جائے۔ پارٹی رہنما اورٹکٹ ہولڈرز اپنے اپنے حلقوں میں پارٹی کے جھنڈے اور فلیکسسز لگا کر رکھیں تاکہ پارٹی گراونڈ پر موجود نظر آئے۔ سنٹرل پنجاب کےبڑے شہروں حصوصا لاہور، قصور، شیخو پورہ، ناروال، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاؤالدین، جہلم، گوجر خان، پنڈی اوراٹک میں ورکرز کنونشن، جلسے اور ریلیاں منعقد کی جائیں تاکہ کسی نہ کسی صورت سیاسی اور عوامی سرگرمیاں جاری رہیں اور عوامی رابطہ مہم چلتی رہے۔ سنٹرل پنجاب کے بہت سارے اضلاع میں پیپلزپارٹی کا اچھا خاصا ووٹ بینک موجود ہے وہاں حلقوں پر توجہ دی جائے اور بہت سے بڑے بڑے سیاسی افراد جو تبدیلی سے بیزار ہو چکے ہیں اور پیپلزپارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں ان کےساتھ رابطے تیز کئے جائیں تاکہ ان کی جلد از جلد پارٹی میں شمولیت کی راہ ہموار ہو سکے۔ تحریک انصاف کی بدترین کارکردگی کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس بہترین موقع ہے کہ پیپلزپارٹی اگلے الیکشن میں اپنا ووٹ بینک واپس لے سکے لیکن ایسا اسی صورت ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی اپنا ردہم برقرار رکھے اور عوام کے ساتھ اپنے رابطوں کو مضبوط بنائے۔ اس وقت لاہور میں مینار پاکستان پر چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک بڑا جلسہ وقت کی ضرورت ہے۔ لاہور کا جلسہ بہت بڑا بریک تھرو کر سکتا ہے جس کا اثر جنوبی پنجاب اور سنٹرل پنجاب دونوں جگہوں پر بہت زیادہ ہو گا۔ پیپلزپارٹی اس وقت لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ قیادت کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئیے۔
لاہور اور گوجرانوالہ کے جلسے جلوس نے ثابت کیا ہے کہ سنٹرل پنجاب کی عوام بھی قیادت کے لئے چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری طرف دیکھ رہی ہے۔ عوام کا پیپلزپارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ چیرمین بلاول بھٹو کا بیانیہ عوام کےدلوں میں گھر کر رہا ہے۔ ورکرز کنونشن بڑے بڑے جلسوں میں تبدیل ہو رہے ہیں تو اندازہ کریں کہ جب چیرمین بلاول بھٹو خود موجود ہوں گے تو صورتحال کیا ہو گی۔ نوجوان جس جوش و خروش سے پیپلزپارٹی کے جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ نوجوان اب نام نہاد تبدیلی سے بیزار ہو کر عوام کی اصل جماعت اور نوجوانوں کے ہردلعزیز رہنما بلاول بھٹو کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حالیہ دو سرگرمیوں سے ہی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی پنجاب میں نہ صرف موجود ہے بلکہ اگلے الیکشن میں پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ پیپلزپارٹی سے ہی ہو گا۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ابھی یہ آغاز ہے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا ہے اور یہ سفر اتنا آسان نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مستقل عوامی رابطے کے ساتھ ساتھ الیکشن لڑنے والے اچھے امیدواروں کا انتخاب اور جن حلقوں میں امیدوار موجود نہیں وہاں اچھے امیدوار کی تلاش ایسے امور ہیں جن پر تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پیپلزپارٹی سنٹرل پنجاب کی قیادت ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنے شاندار ماضی کی طرف نہ لوٹ سکے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی بدترین کارکردگی کے بعد تبدیلی کے جعلی نعرے سے متاثر ہو کر اس کی طرف جانے والا ووٹر مایوس ہوچکا ہے، ایسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ ایک قومی جماعت ہونے کے ناطے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے اور قوم کی قیادت کرے تاکہ یہ مایوس ووٹر کسی انتہا پسند جماعت کی طرف جانے کی بجائے عوام کی حقیقی نمائیندہ جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف لوٹ آئے۔ اگر ایسا ہو گیا تو عوام کو سلیکٹڈ حکمرانوں سے بھی نجات مل جائے گی اور سلطانیِ جمہور کا دور بھی لوٹ آئے گا۔
****
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ
تحریر: آفتاب احمد گورائیہ