یونانی اساطیر میں کرۂ ارض کی پہلی عورت (خاتونِ اول) پینڈورا کودیوتا ہیفے اسٹس نے زیئس کی درخواست پر تخلیق کیا تھا۔ زیئس آگ کی برکت کا توڑ کرنا چاہتا تھا جو ٹائیٹان پرومیتھیس نے دیوتاؤں سے چرا کر انسانوں کو دے دی تھی۔ دیوتاؤں نے پینڈورا کو حسن اور نیکی کی ہر صفت سے مالا مال کیا اور ایپی میتھیس کے پاس بھیجا جو اسے بیوی بنا کر بہت خوش ہوا۔ البتہ اس کے بھائی پرومیتھیس نے خبردار کیا تھا کہ وہ زیئس کی جانب سے بھیجی ہوئی کوئی بھی چیز قبول نہ کرے۔ دیوتاؤں نے پینڈورا کو ایک صندوق بھی دیا اور ہدایت کی کہ اسے ہر گز نہ کھولے۔
تاہم، جذبۂ تجسس غالب آ گیا اور اس نے پراسرار صندوق کھول لیا۔ اس میں سے بے شمار جسمانی بیماریاں اور ذہنی دُکھ نمودار ہوئے۔ دہشت زدگی کی عالم میں پینڈورا نے صندوق بند کر دیا، لیکن امید (Hope) اور متعدد برائیوں کے سوا اب اندر کچھ بھی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ امید بدبختی کی شکار انسانیت کو راحت دلاتی ہے۔ ایک اور قصے کے مطابق صندوق میں برکات تھیں جو پینڈورا نے ڈھکن کھولنے کی وجہ سے نکال دیں۔
ن م راشد کی ایک نظم ہے ’’نور کا ناشتہ‘‘ جس کی اختتامی لائنیں یوں ہیں:
وہ جو گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو میں لگا رہا!
بڑی بھاگ دوڑ میں
ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں
ہماری عرش پہ رہ گئیں
وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے
وہ مسرّتیں۔۔ وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!
Yasir Javvad sb
سے منقول
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...