حج ختم ہو جانے کے بعد زیادہ تر حاجی گھروں کو لوٹ چکے تھے۔ ہجری کیلنڈر میں نئی صدی کا پہلا روز تھا۔ مسجدالحرام میں صبح سویرے کچھ جنازے لائے گئے تھے تا کہ فجر کے بعد ان کی نماز ادا کی جا سکے۔ آج ان میں سے کچھ میں وہ لایا گیا تھا جو اس مسجد میں پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ کلاشنکوف، بلیجن گن، گولیوں کی بیلٹیں اور پستول۔ جو لوگ یہ کر رہے تھے، وہ تاریخ بدلنا چاہتے تھے۔ ایک عالمی جنگ شروع کرنا چاہتے تھے تا کہ اسلام پوری دنیا میں غلبہ پا سکے۔ کفر کو شکست دینے کیلئے انہوں نے نئی صدی کا پہلا روز چنا تھا۔ ان کیلئے کفر کے کیلنڈر میں یہ 20 نومبر 1979 کا دن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد میں ایک لاکھ افراد تھے۔ بہت سے مقامی لوگ جنہوں نے نئی صدی کا پہلا روز فجر کی نماز خانہ کعبہ میں ادا کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ پاکستان، انڈیا، مراکش، یمن، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا وغیرہ سے آنے والے لوگ تھے۔ ان افراد میں کئی باغی بھی اس کا حصہ تھے۔ کچھ رات سے ہی یہاں پر تھے۔ کچھ نے رات قریبی اکیڈمی میں گزاری تھی۔ کچھ صبح ہی اپنی گاڑیوں میں پہنچے تھے۔ زیادہ تر سعودی تھے لیکن کئی دوسرے ممالک سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
پانچ بج کر اٹھارہ منٹ پر “اللہ اکبر” کی صدا گونجی۔ اذان کے بعد جماعت ہوئی۔ ابھی امام نے سلام پھیرا ہی تھا کہ گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی۔ ایک نوجوان بندوق اٹھائے کعبہ کی طرف دوڑ رہا تھا۔ کبوتروں نے پر پھڑپھڑا کر اڑنا شروع کر دیا۔ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ کسی اہم شخصیت یا بادشاہ کے گارڈ تھے؟ یا نئی صدی کو منانے کیلئے جشن میں کیا گیا تھا؟
جو زیادہ واقف تھے، وہ دہشت زدہ تھے۔ اس جگہ پر گولی چلانا بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ مزید مسلح افراد کعبے کی طرف بھاگتے نظر آئے۔ جنازوں کے کفن سے ہتھیار نکال لئے گئے تھے۔ یہاں کی پولیس فورس کے پاس صرف ڈنڈے تھے۔ ان میں سے دو گارڈز کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کسی اور کو مزاحمت کی جرات نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھیمان العتیبی اب مسجد کے اندر سے برآمد ہوئے۔ سیاہ مقناطیسی آنکھوں والے تینتالیس سالہ عالمِ دین جن کے بال شانوں تک بکھرے تھے، لباس ٹخنوں سے اونچا تھا اور سر پر سبز پتی بندھی تھی۔ تین مسلح افراد کے درمیان وہ امامِ کعبہ تک پہنچے۔ ان سے مائیک چھین لیا گیا۔
خوفزدہ مجمع جب باہر کی طرف بھاگا تو پتا لگا کہ تمام 51 دروازے زنجیروں سے باندھ دئے گئے ہیں۔
جھیمان نے مائیکروفون میں ہدایات دیں۔ ان کے پیروکار ہر جگہ پھیل گئے۔ ساتوں میناروں پر مشین گن پوسٹس قائم کر دی گئیں۔ زائرین میں سے جو صحتمند تھے، انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ سامان ان میناروں کے اوپر اٹھا کر لے جائیں۔ تین سو فٹ اونچے میناروں سے پورے مکہ کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ “اگر کوئی بھی حکومتی اہلکار ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرے، اسے وہیں بھون کر رکھ دو، ذرا بھی رحم دل میں نہ آنے پائے۔ ذرا سی ججھک بھی نہیں”۔ جھیمان نے یہ ہدایات بآوازِ بلند جاری کی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر موجود لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ خواتین کا رونا، بوڑھوں کی کھانسی اور چہ میگوئیاں۔ بہت سے لوگ عربی سے ہی ناواقف تھے۔ پوچھ رہے تھے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔ قبضہ آوروں نے اس کی پلاننگ بھی کی تھی۔ وہ اپنی بات سب کو اچھی طرح سمجھانا چاہتے تھے۔
پاکستانی اور انڈین زائرین کو الگ کر دیا گیا۔ ان کو پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک حملہ آور کے حوالے کر دیا گیا تا کہ اردو میں ان سے بات کی جا سکے۔ افریقہ سے تعلق رکھنے والوں کو انگریزی بولنے والے ایک شخص کے۔ “بیٹھ جاوٗ اور سنو”۔ جو بات ماننے میں کچھ بھی تامل کرتا تھا، بندوقوں کے بٹ سے پٹائی کی جاتی تھی۔ “مکہ، مدینہ اور جدہ اب ہمارے قبضے میں ہیں”۔
اگلے ایک گھنٹے تک جھیمان عربی میں اس سب کا مقصد بیان کرتے رہے۔ مسجد کے سنٹرل سپیکر سے ہونے والے یہ اعلان دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے تھے۔ ایک قدیم پیشگوئی درست ثابت ہونے لگی ہے۔ آخری وقت آن پہنچا ہے۔ مسلمانوں کی فتح کے دن آ گئے ہیں۔ یہ اس کا آغاز ہے۔ تقریر ختم ہوئی۔ لاوٗڈ سپیکر خاموش ہو گیا۔ مکہ بھر میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ مسجد کے قریب کے ہوٹلوں میں کام کرنے والے ویٹر بھی اپنی دکانیں چھوڑ کر بھاگ چکئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے چند گھنٹوں میں دنیا میں یہ خبر پھیل گئی۔ موت اور تباہی ہزاروں میل دور تک بکھر گئی۔ اگلے دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اس محاصرے نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ ماضی میں ہونے والا اور بھلا دیا جانے والا یہ بحران سعودی عرب میں تاریخ کی کتابوں سے کھرچ دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا تاریک سایہ ابھی تک مسلمان دنیا میں موجود ہے۔
جھیمان کے اس حملے کی اپنی تاریخ کم از کم دو سو سال پرانی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مکہ پر اس سے پہلے دو بار فوج کشی کی گئی تھی۔ یہ اسی تسلسل کی کڑی تھا۔ ہونے والی ایک بڑی نظریاتی جنگ کا اہم سنگِ میل۔
جس طریقے سے ہینڈل کیا گیا۔ جس طرح اس کے بعد اقدامات لئے گئے، اس نے سعودی عرب میں ہی نہیں، باقی دنیا میں بھی بہت کچھ بدل دیا۔ جھیمان اس کے بعد مارے گئے۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔
اس وقت اسے مقامی مسئلے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ لیکن آج بھی چالیس برس بعد بہت سے مسائل کو سمجھنے کیلئے ہم اس واقعے کو تفصیل میں دیکھ سکتے ہیں۔ 1979 میں انقلابِ ایران یا مصر میں ہونے والی بڑی تبدیلیاں اسلامی دنیا میں بڑی اہم سمجھی جاتی ہیں لیکن پہلی محرم 1400 ۔۔ یہ جدید اسلامی تاریخ کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...