پہلی اور آخری ملاقات
———————-
اِسی سال مارچ کے اٹھارویں دن — میں نہیں جانتا تھا کہ یہ میری خوش بختی کا دن ہو گا —
میں اور بھائی گگن ایک عرصے سے مختار مسعود صاحب کے صاحبزادے سلمان مسعود سے رابطے میں تھے کہ کسی بھی طرح ان سے ملاقات کا سبب بنے— پہلے اپنے جذبات سے بھرپور ایک خط لکھا — پھر فون پر روابط قائم ہوئے — مدعا بس ایک — بس ایک ملاقات —
17مارچ 20177ء میری لاہور یاترا کا دن طے تھا — واپسی کا دن تعین نہ تھا — رات وہیں بسر ہوئی — اگلے روز ہفتے کو دن کے وقت بھائی کی کال آئی کہ سلمان صاحب نے مختار مسعود صاحب سے ملاقات کا وقت دے دیا ہے — ہماری خواہش قلبی — میں نے سلمان صاحب سے رابطہ قائم کیا — انہوں نے کہا اگر آپ قریب ہیں تو آ جائیں — میں بھی گھر پر ہی ہوں — ایڈریس میسج آیا — میرا سفر مخالف سمت تھا — میں نے گوگل میپ کھولا اور ان کی بتائی گئی لوکیشن اینٹر کی — 15منٹ کی ڈرائیو اور کچھ تلاش و بسیار کے بعد پر ہم شادمان مکان نمبر177 ’’العطا‘‘ کے سامنے تھے — دروازے کے بائیں جانب ’’مختار مسعود‘‘ کی تختی پڑھ کر رُوح تک سرشار ہو گئی — سلمان صاحب ہمارے ہی منتظر تھے — گیٹ پر لینے آئے — پورچ سے گزرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو پہلی نگاہ مختار مسعود صاحب کی رائیٹنگ ٹیبل پر ٹک گئی جہاں آواز دوست، سفرنصیب اور لوحِ ایام جیسی شاہکار تخلیقات ہوئیں — اس ٹیبل کا لمس لیتے ہوئے ہم دیوان خانے میں داخل ہوئے — پہلی نگاہ نے ہی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا — میرا رُخ مختار مسعود صاحب کی پشت پر تھا — جبکہ ان کے سامنے ہمارے عزیز، ادب پرور دوست سلطان ناصر اپنے بھائی سلطان اللہ نواز شاہد کے ہمراہ تشریف فرما تھے — انہیں پہلے سے وہاں موجود دیکھ کر خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا — یہ تو میں جانتا تھا کہ ہم دونوں کی پسند اور منزل ایک ہے— لیکن یہ کیا — میں جہلم سے — سلطان ناصر سیالکوٹ سے — قدرت کے کرشمے — وقتِ ملاقات بھی ایک — دن بھی ایک — ایک عرصے سے ہم دونوں یاروں کی ملاقات کی آرزو، ایک ہی دن — ایک ہی وقت پورا ہونا تھی — اور وہ بھی تب جب مختار مسعود صاحب کی خود اپنی چاہت شامل تھی — سلطان صاحب محوِ گفتگو تھے — درمیانہ قد —چہرے پر سنجیدگی— مختار مسعود صاحب کی نگاہوں نے میرا استقبال کیا — چند سیکنڈز کے تعارفی سلسلے کے بعد ہمارا پورا دھیان، کان اور نگاہیں — ان کی سماعت پر تھیں —یک ٹک بس دیکھے گئے —میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا شخص دیکھا جو لکھنے اور بولنے میں ایک سا ہو — انداز گفتگو اتنا دلچسپ کہ آپ بولنا بھول جائیں — پلکیں جھپکنا یاد نہ رہے — سارے سوالات گم ہو جائیں — وہ ایک بہترین مقرر بھی ہیں— تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ ایک تیار شدہ تقریر سنا رہے ہیں — آپ دل ہی دل میں ان کی یادداشت کے قائل ہو جائیں— کب بک کارنر جہلم سے علی گڑھ چلے — کب علامہ اقبال بیچ میں آئے اور ظفر علی خان کے ہمراہ قائداعظم اٹھ کر چل دئیے — پندرہ منٹ کی ملاقات تعین تھی — کب پچپن منٹ پر جا نکلی — کسی کو اندازہ نہ ہوا — 91برس کی عمر میں اپنی جوانی کا قصہ سنایا ’’— کہ جوان تو اب بھی ہوں‘‘— کھلکھلا کر ہنس دئیے — تو ہم جتنے منہمک تھے میں آپ کو بتا نہیں سکتا — لفظ لفظ قابلِ داد، بعض فقرے لاجواب اور بعض صفحات داد سے بالاتر عطا کرنے والے ابن عطا کی گفتگو بھی ایسی ہی تھی — ایک ایک لفظ ناپ تول کر اور ٹھہر ٹھہر کر کہا گیا — کچھ دیر توقف کیا — تھکاوٹ سی محسوس ہوئی — اجازت چاہی — ہم کھڑے ہوئے — اپنے کندھے پر مختار مسعود کا دست شفقت اب بھی محسوس کرتا ہوں — پچپن منٹ کی اس لافانی ملاقات کو میں اور سلطان ناصر صرف اپنے ذہنوں میں ہی محفوظ کر پائے — باتیں اتنی گہری تھیں کہ اب احساس ہوتا ہے کہ صفحۂ قرطاس پر نہ لکھ پائے — جدید ٹیکنالوجی ہاتھوں میں ہونے کے باوجود — ہوش ہی کہاں تھا — ہم تو بس اسی خیال میں تھے کہ
حضورِ حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت نہ کر دے برپا
)داستاں باقی)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔