کینیڈا کے شمال مشرق میں کسی بھی آبادی سے چھ گھنٹے کی مسافت پر سینٹ انتھونی کا گاوٗں ہے۔ دو ہزار کے قریب آبادی کی اس جگہ پر ناروے سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی این اور ہیلگے انسٹاڈ 1960 میں یہاں پہنچے۔ اپنی ایک پرانی داستان کو کنفرم کرنے کی کوشش کرنے کے لئے اور سکینڈے نیویا کی تاریخ کے ایک راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش میں۔ یہاں پر ہزار سال سے ریت میں دبے کچھ ڈبوں کی مدد سے انہوں نے وہ پا لیا جس کی تلاش میں وہ آئے تھے۔ یہاں پر ان کے آباء کی باقیات تھیں۔ یہ ثبوت تھا کہ ان کے آباء نورس نے شمالی امریکہ دریافت کیا تھا اور کولمبس نے نہیں اور یہ کام سکینڈے نیویا سے تعلق رکھنے والی لیف ایرکسن نے کولبمس سے پانچ سو سال پہلے کیا تھا۔ سکینڈے نیویا میں مشہور ون لینڈ کی قدیم داستان درست تھی۔
اس وقت اگر آپ اس سڑک پر جائیں تو آپ کو سینکڑوں نشان نظر آئیں گے جو اس سڑک کے آخر کے اس مقام کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیں گے۔ وہ ٹیلے جنہوں نے تاریخ تبدیل کی۔ یہاں آنے والے وائکنگ کے نشان جنہوں نے یہ دنیا دریافت کی۔ یہاں پر پہنچ کر اگر آپ غور کریں تو ایک چیز کا احساس ہو گا۔ “پہلے” کے جنون کا۔ آج کینیڈا کے سکول میں یہ فخر سے پڑھایا جاتا ہے کہ یورپ سے آنے والے سب سے پہلے ون لینڈ پہنچے تھے، ہسپانیولا نہیں۔ لیف ایرکسن کے مجسمے اب کینڈا اور امریکہ میں کئی جگہ نصب ہیں۔
سوال یہ کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ لیف ایرکسن کی دریافت کے آثار بس اب کینیڈا کی ریت میں دبے چند ڈھانچے ہیں جبکہ کولمبس کی پانچ سو سال بعد دریافت نے نے اس دنیا کو بدل دیا۔ (کولمبس ظالم حملہ آور تھا یا ہیرو، پہلا یقینی طور پر نہیں تھا لیکن شمالی امریکہ میں پہنچنے والا شاید سب سے اہم شخص ضرور تھا)۔
چاند پر پہلے شخص اور پہلے مشن کی کہانیوں سے سب واقف ہیں۔ اپالو 12 جو کہ دوسرا مشن تھا، اس کے کسی مسافر کا نام کم لوگ جانتے ہوں گے۔ “پہلے” کے اعزاز کے لئے ہم بہت سے نئے کام کرتے رہے ہیں۔ انسانی صلاحیتوں کی حد کو بڑھاتے رہے ہیں۔ پہلے کی تلاش کرتے رہے ہیں کہ پہلی بار کس نے کہاں قدم رکھا، سب سے پہلے کس نے کیا دریافت کیا۔ لیکن پہلے کی یہ جستجو ہمیں تاریخ سے زیادہ انسانی فطرت اور نفسیات کے بارے میں بتاتی ہے۔
لیکن شمالی امریکہ میں کون تھا جو سب سے پہلے پہنچا؟ ہم ان کے نام سے تو واقف نہیں لیکن راستے سے، اس وقت سے ضرور واقف ہیں اور اب ان لوگوں سے بھی۔ یہ راستہ الاسکا کی طرف سے تھا، پندرہ ہزار سال پہلے تھا اور ان آنے والوں کو کلووس کہا جاتا ہے۔ کلووس ان کے ہتھیار کا نام ہے جس سے یہ شکار کیا کرتے تھے۔ یہ نیزے کے نوک پر لگایا جانے والا نوکیلا پھل تھا۔ یہاں پر میمتھ اور بڑے ممالیہ اسی ہتھیار سے ختم ہوئے تھے۔ ہمیں بہت سے بڑے جانوروں کی باقیات میں یہ کھبا ہوا ملتا ہے۔
چالیس ہزار سال قبل ہمارے جیسے انسان افریقہ سے نکل کر یورپ، ایشیا اور یہاں تک کے آسٹریلیا تک پہنچ چکے تھے لیکن امریکاز انسانوں سے خالی تھے۔ بیس ہزار سال قبل شروع ہونے والی آئس ایج نے سمندروں کا لیول بڑی حد تک کم کر دیا۔ ان کی وجہ سے روس اور الاسکا کے درمیان ایک آسانی سے پار کیا جانے والا راستہ بن گیا۔ یہاں سے بائزن اور رینڈیر شمالی امریکا کی طرف آئے اور پھر پندرہ ہزار سال پہلے انسانوں نے اس راستے سے یہاں پر قدم رکھا۔ (اس کا پتہ ڈی این اے اور آرکیولوجی سے چلتا ہے)۔ بارہ ہزار سال پہلے تک نہ صرف یہ شمالی امریکہ میں بلکہ جنوبی امریکہ کے سب سے جنوب والے حصے تک پھیل چکے تھے۔ اگلے ہزاروں سال تک یہاں انسانی معاشرت بنی، تہذیبیں، ٹیکنالوجی بنی، جنگیں ہوئیں، کتابیں لکھی گئیں۔ انسان کی نیا سے نیا کرنے کی بے چینی اور امید، جس نے چند لاکھ برس میں انسان کو دنیا میں ہر جگہ پہنچا دیا۔
پھر اسی طرح کے بے چین لوگ اسی زمین کی دوسری طرف یعنی مشرق سے سمندر پار کر کے آنا شروع ہوئے جس نے اس علاقے کو ایک بار پھر الٹ پلٹ دیا۔
ساتھ لگی تصویر وائکنگز کا ایک ہزار سال پہلے کینیڈا پہنچنے کا تصویری خاکہ ہے۔