سائنس کی دنیا عجائبات ِ فطرت سے بھری پڑی ہے۔ اس میں سنجیدہ موضوعات پر تحقیق تو گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہے مگر اب ایسا بھی نہیں کہ سائنسدان انسان نہ ہوں اور ہر وقت سنجیدہ موضوعات ہر ہی تحقیقی کام کرتے رہیں۔
ایسے ہی کچھ روزمرہ کے موضوعوت یا مسائل ہوتے ہیں جنہیں پہلی بار سوچا جائے تو ہنسی آئے مگرجب ان پر تحقیق کی جائے تو بے حد دلچسپ سائنسی نتائج اخذ ہوں۔
مثال کہ طور پر آنجہانی رچرڈ فائنمین جو فزکس کی دنیا کا ایک بڑا نام اور نوبل انعام یافتہ تھے، ایک روز اپنے دوست کے ساتھ اس بحث میں پڑ گئے کہ خشک سپگیٹی یا نوڈل کو جب لفافے سے نکال کر توڑا جائے تو وہ ہمیشہ دو حصوں کی بجائے تین حصوں میں کیوں ٹوٹتی ہے۔ جتنی بار کوشش کریں تیسرا حصہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا بنتا ضرور ہے۔ اس مظہر کے ہیچھے محرکات کو سمجھنے کے لیے اُنہوں نے اپنے دوست کیساتھ ملکر پوری دوپہر کچن میں مختلف طریقوں سے سپیگیٹی توڑ توڑ کر کچن بے حال کر دیا مگر اس گتھی کو نہ سلجھا سکے۔
اس بات کو ہوئے دہائیاں گزر گئیں مگر کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔ بالاخر 2005 میں امریکا کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے کچھ سائنسدانوں نے یہ گتھی بھی سلجھا دی۔ اُنکے مطابق ایک خشک سپیگیٹی اس لئے تین حصوں میں ٹوٹتی کے کہ جب اسکے دونوں اطراف قوت صرف کر کے اسے موڑا جاتا ہے تو درمیان سے کچھ ہٹ کر ایک طرف فریکچر پہلے ہوتا ہے جس سے ایک شاک ویویو سپیگیٹی کے اگلے حصے کی طرف سفر کرتی ہے۔ جب یہ اُس مقام پر پہنچتی ہے جہاں دباؤ زیادہ ہوتا ہے تو وہاں سے بھی ٹوٹ جاتی یے۔ ویڈیو میں اسے بہتر طور سمجھایا گیا یے۔ یوں سپیگیٹی کے تین حصے ہوتے ہیں۔
رچرڈ فائینمین جو سائنس کی دنیا کے جینئس تھے اس مظہر کے ہیچھے سائنس کو نہ سمجھا سکے مگر یہ کام ایم آئی ٹی کے سائنس کے طلبا نے کر دکھایا۔ اب بظاہر یہ ایک غیر سنجیدہ بات لگتی ہے کہ اس میں ایسا کیا خاص ہے کہ سپیگیٹی دو حصوں میں ٹوٹے یا تین میں۔ آخر میں تو اُبل کر پیٹ میں ہی جانی ہے مگر اس تحقیق کی اہمیت یے۔ وہ اس طرح کے ہمیں اس سے مختلف طرح کے دھاتی سٹرکچررز، اُن میں پڑنے والے فریکچرز اور سول انجینئرنگ می اس تحقیق سے کافی مدد مل سکتی ہے۔
اس گتھیی کو سلجھانے پر انہیں 2006 میں سائنس کی دنیا کا ایک مزاحیہ ایوارڈ دیا گیا جو نوبل پرائز کی پیروڈی ہوتا ہےاسے Ig Noble Prize کہا جاتا ہے۔
یہ ایوارڈ 1991 سے ایسی تحقیقات پر دیا جاتا ہے جس سن کر پہلے ہنسی آئی اور بعد میں یہ سوچنے ہر مجبور کر دے۔
مثال کے پور پر 2000 میں یہ ایوارڈ ایسے سائنسدانوں کو ملا جنہیں نے مقناطیسیت کے ذریعے ایک مینڈک کو ہوا میں اُٹھایا یا پھر 2021 کا فزکس میں یہ ایوارڈ اُن محقیقین کو ملا جنہوں نے اس بات پر تحقیق کی کہ بڑے ہجوم کی صورت فٹ پاتھ پر چلتے لوگ آپس میں کیوں نہیں اتنا ٹکراتے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ان ایوارڈز کی تقریب ہر سال امریکی یونیورسٹی ہاوورڈ میں ہوتی ہے اور دنیا کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان یہ ایوارڈ اس طرح کے محققین کو دیتے ہیں۔
سائنس بے حد دلچسپ ہے۔ یہ فطرت کی رنگینی اور سنگینی دونوں کو عیاں کرنے کا نام ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...