استادِ محترم ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب کی ادارت میں ’اردو ادب‘ کے احیا کے بعد اس کے مندرجات کی زیادہ توجہ تنقیدی اور تحقیقی مضامین کی اشاعت پر مرکوز رہی۔ اردو میں تنقید اور تحقیق کا امتیاز اب اس قدر دھندلا ہو چلا ہے کہ اکثر تحریریں تنقید و تحقیق کا ملغوبہ معلوم ہوتی ہیں۔ نئی نسل کے نقادوں میں کم و بیش سب کے سب مشرقی تنقید کی روایت سے اس لیے ناواقف ہیں کہ اب فارسی پڑھانے کا باضابطہ نظام یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں تقریباً معدوم ہو گیا ہے اور الگ سے فارسی پڑھنا جو ے شیر لانے سے کم نہیں۔ایک فیشن کے طور پر اردو تنقید نے مغربی تنقیدی اصولوں اور رجحانات سے تھوڑی بہت روشنی کبھی حاصل کی تھی جس سے اردو ناقدین کی اکثریت ابھی تک کام چلا رہی ہے۔ انگریزی کی استعداد پرانے لوگوں میں بہت نہ تھی مگر ا نھوں نے اپنی حد تک اس استعداد کو استعمال کیا۔بیسویں صدی میں ادبی تھیوری کے فیشن میں متعارف ہونے کے بعد ادب کو سمجھنے اور سمجھا نے کے وہ سارے طور ہی بدل گئے جن سے ہم کسی متن کو دیکھتے اور دوسرے کسی متن سے اس کا موازنہ کرتے تھے۔ یہ تبدیلی، چوں کہ تبدیلی کی خاطر تھی، اس لیے، خوش گوار تھی، کیوں کہ جدید کے لذیذ ہونے کا حسنِ ظن مشرق میں عام ہے لیکن در حقیقت یہ تھیوری ہمارے اپنے ادب کو سمجھنے میں کار گر نہ ہوسکی، اس لیے، اس کے زیرِ اثر جو کچھ لکھا گیا وہ زیادہ تر تھیوری ہی تک محدود رہا، یعنی ادب کے بارے میں خیالی بات چیت، اور پھر جو بات ہوئی اس کے بارے میں بات چیت!یہ مغربی دانش کا چھوڑا ہوا ایسا شوشہ تھا جو معنی کے وجود ہی سے منکر ہوگیا۔ اردو ادب پر ادبی تھیوری کا اطلاق کرنے والی تحریروں کے مطالعے کے نتیجے میں بہ شمول دیگر مہملات کے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہوگیا کہ غالبؔ کی غزل میں معنی کس طرح سے اور کہاں سے حاصل کیے جائیں۔
کچھ عرصے سے ادبی تھیوری ایک اور طرز کی تنقید کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ اس اعتراض کی وجہ تھیوری کا وہ نظام ہے جو سب کے لیے قابلِ فہم نہیں اور صرف اُس کے رگ و ریشے سے مکمل واقفیت رکھنے کا دعویٰ کر نے والے ہی اس کے اجارہ دار ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ تھیوری کے عَلم بردار عموماً یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ ہماری بات سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ادبی تنقید کے بعض ناقدین کے مطابق تھیوری ایک خفیہ طفیلی وجود ہے جو کسی دوسرے وجود کے اندر یا اس سے وابستہ رہ کر ہی گزران کر سکتا ہے۔
مابعد تھیوری کے ادبی رجحانات جو درجاتِ تدریس اور ادبی مباحث میں جگہ بنا رہے ہیں، ان میں Postness کو معرضِ بحث میں لایا گیا ہے اورPost Theory to Theory کا ذکر بھی آنے لگا ہے۔ یعنی یہ کہ Post سے کیا مراد ہے؟ کیا ادب میں کوئی بندھے بندھائے ادوار ہیں (جیسا کہ انگریزی تنقید نے ہمیں بتایا تھا) جن کے آغاز اور اختتام کی تاریخ، یا تاریخ نہیں تو زمانہ متعین کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا تھیوری کے بعد کوئی اور تھیوری ہوگی، جیسا کہ جدید کے بعد مابعد جدید کا اعلان کیا گیا۔ کیایہ ہو سکتا ہے کہ پوسٹ تھیوری تنقید کی ایک نئی دنیا خلق کرے جو ادبی تھیوری کے تمام فاسد یا بے معنی عناصرکو تھیوری کے نظام سے باہر کر دے؟ اگر ایسا ہوا تو یہ معرکہ کس کے حق میں جائے گا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اس وقت شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ ہم لوگوں کو اس کی خبر ہو یا نہ ہو مگر تھیوری مغرب سے تقریباً جا چکی ہے اور Post Theory کا مستقبل کیا ہوگا یہ تو مغرب ہی بتائے گا جو اب ادب کی تعیینِ قدر کا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔اردو تنقید کے لیے اب یہ سمجھنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہر ادبی تہذیب اپنے معیار خود مقرر کرتی ہے اور ہمیں مغرب کی دریوزہ گری کی کچھ بہت ضرورت نہیں۔
روسنکا چودھری کی تصنیف The Literary Thing: History