ہم سمندر کے کنارے ریت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ یہ پَو پھٹنے کا وقت تھا۔ ہم نئے سال کے پہلے سورج کی امید میں تھے۔
ہمارے پیچھے دکھوں کا جنگل تھا۔ آگے غموں کا سمندر تھا! ریت پر بچھانے کے لیے چیتھڑا تک نہ تھا۔ آنکھوں میں اڑتے ہوئے ذرے پڑ رہے تھے۔ تیز ہوا پھٹے ہوئے کپڑوں سے گزر کر سنسناتے ہوئے تیر کی طرح لگ رہی تھی۔ نظریں سمندر کے پار‘ افق پر تھیں۔ سورج نکلے گا۔ نئے سال کا پہلا سورج۔ سنہری کرنیں‘ سمندر کو عبور کر کے ہمیں آغوش میں لے لیں گی۔
کتنے سال ہو گئے‘ کتنے عشروں سے ہم ہر نئے سال کے پہلے سورج کے لیے ریت پر بیٹھتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! جب بھی نئے سال کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے‘ اس کی کرنیں ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ہمارے پیچھے جنگل کے درختوں پر مچانیں باندھ کر بیٹھے ہوئے تیرانداز‘ نئے سورج کی شعائوں کو اچک لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے‘ پانیوں میں دندناتے گھڑیال‘ سنہری کرنوں کو جھپٹ لیتے ہیں‘ ہم تک کبھی کوئی کرن نہیں پہنچی۔ ہم نئے سال کا پہلا طلوع دیکھ کر… روتے ہیں‘ سسکیاں بھرتے ہیں‘ پھر بدن کے اوپر اور آنکھوں کے اندر ریت کے ذرے لیے‘ واپس اپنے گھروں کو پلٹ آتے ہیں۔ وہی چھوٹے چھوٹے تاریک گھروندے‘ غسل خانوں کے ٹوٹے ہوئے فرشوں پر پانی کی آدھی آدھی بالٹیاں‘ میلی دیواروں اور اکھڑتی ہوئی چھتوں والے کمروں میں ایک ایک بلب جن میں ایک گھنٹہ روشنی آتی ہے اور دو گھنٹے نہیں آتی۔ وہی کیچڑ میں جھپ جھپ کرتے کچے صحن‘ وہی دھوئیں سے بھرے ہوئے نیم روشن‘ نیم تاریک باورچی خانے‘ وہی چہروں اور ہاتھوں کو شل کرتے ٹھنڈے پانی‘ وہی گندی غلیظ گلیاں‘ وہی ٹھہرے ہوئے بدبودار پانی‘ وہی مچھروں کے غول‘ راتوں کے پچھلے پہر وہی آوارہ کتے‘ کھیل کے میدانوں کو ترستے ہوئے وہی بچے جو تھک ہار کر سائبر کیفوں میں پناہ لیتے ہیں۔ وہی کھؤں کھؤں کرتے بوڑھے جن کی قسمتوں میں علاج ہے نہ نگہداشت‘ وہی سیاہ بخت حاملہ عورتیں جو روٹ لگی ٹریفک کے درمیان بچے جنم دینے پر مجبور ہیں۔
کسی نئے سال کا سورج ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر سکا۔ کوئی نیا سال ہمارے لیے عزت نہ لایا۔ ہم اپنے ہی ملک میں ہمیشہ تیسرے درجے کے شہری رہے۔ ہمارے گائوں گرد میں چھپے ہی رہے‘ ہسپتال بنے نہ سکول‘ سڑکیں ٹوٹی ہی رہیں۔ ہمارے قصبے پتھر کے زمانوں سے باہر نہ نکل سکے۔ ہر نیا سال وہی آپشن لایا جو گزرے ہوئے برس لاتے رہے۔ آپشن… اختیار۔ ہاں تمہیں اختیار ہے۔ تم آزاد ہو‘ بلاول کو چُن لو یا مونس الٰہی کو یا حمزہ شہباز کو…
ہمارے پیچھے جنگل ہے۔ درختوں پر مچانیں باندھے‘ تیر انداز بیٹھے ہیں۔ سامنے سمندر میں گھڑیال ہیں۔ یہی آپشن ہیں۔ یہی اختیار ہے۔ یہی آزادی ہے۔ اُن سیاست دانوں کو چُن لیں جن کے ہاتھوں میں تیر ہیں۔ یا انہیں منتخب کر لیں جو گھڑیالوں جیسے جبڑے کھولے ساحلوں پر لیٹے ہیں۔
ہمیں کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو ہمارے جیسے گھروں میں‘ ہمارے محلّوں میں رہتا ہو۔ ہمارے ساتھ کریانے کی دکان پر کھڑا ہو۔ ہمارے ساتھ سی این جی کے لیے تین تین گھنٹے انتظار کرے۔ اس کے بچے انہی سکولوں میں پڑھتے ہوں جہاں ہمارے بچے جاتے ہیں۔ وہ انہی ہسپتالوں کے برآمدوں میں دوائی کے لیے قطار میں کھڑا ہو جہاں ہم اور ہماری بیویاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ہمیں ملے تو وہ ملے جن کے محلاّت فرانس میں ہیں اور رہائش دبئی میں۔ جنہیں اپنے بیٹوں اور اپنی بہنوں کو حکمران بنانے کی فکر ہے۔ جو دن کے دو بجے اٹھتے ہیں‘ ٹیکس ایک پیسہ نہیں دیتے۔ بیٹیوں کو براہ راست پاکستانی سفارت خانوں میں سمندر پار افسر لگوا دیتے ہیں۔ یا وہ ملے جو سٹیل کے کارخانوں کو چارگنا کرنا چاہتے ہیں۔ جنہوں نے دودھ اور مرغبانی کی صنعتوں کو مٹھی میں لے لیا۔ جو اپنے خاندان اور اپنی ذات قبیلے سے باہر نکلنے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ جن کا پاکستان بھائی‘ بیٹی‘ بھتیجے‘ سمدھی اور بھانجے پر مشتمل ہے۔ یا ہماری قسمت میں وہ تھے جن کے فکر کی معراج کشمیر کمیٹی اور اسلامک آئیڈیالوجی کونسل تھی۔ جو اُڑتی چڑیا کے پر گِن سکتے ہیں لیکن عوام کے دکھوں کو شمار کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں کو انگلیاں ہی نہیں مل سکیں۔
ہمارے بچوں نے سیب کھائے نہ انڈے۔ ہمارے بوڑھے دوائوں کو ترستے رہے۔ ہماری عورتیں بچوں کو پیٹوں میں لیے مزدوریاں کرتی رہیں اور دال کے ساتھ باسی روٹی کھاتی رہیں۔ ہماری بیٹیاں جہیز کے انتظار میں سروں سے چاندی جیسے سفید بال نکالتی رہیں۔ ہم سے بجلی چھین لی گئی‘ پانی لے لیا گیا‘ پٹرول کے کنستر آسمانوں پر کھینچ لیے گئے۔ لیکن کروڑ پتی دانشور ہمیں آئیڈیالوجی سے بھرے ہوئے تھیلے دیتے رہے۔ ہم سرخ سویرے کے سراب سے چھُوٹے تو قراردادِ مقاصد میں دھر لیے گئے۔ ہم کپڑوں اور دوائوں کو ترستے رہے لیکن ہمیں مسلکوں‘ فرقوں‘ نظریوں کی پُڑیاں دی جاتی رہیں۔ وہ بیوروکریٹ جو سرکاری گاڑیوں اور عہدوں سے نہیں اترتے‘ جو حکومتی بنگلوں میں ملازموں کے حصار میں رہتے ہیں‘ ہمیں ہر روز مذہب پڑھاتے ہیں۔ جن کی زندگیوں کا واحد مقصد پی آر اور میڈیا پر ظاہر ہونا ہے وہ ہمیں جعلی اعدادو شمار سے ماضی کا جاہ و جلال عطا کرتے ہیں۔ میڈیا کے وہ ملازم جو لاکھوں میں کھیلتے ہیں‘ ان میں سے بعض ہمیں ہر صبح ایک نئی سازش کی خوش خبری دیتے ہیں۔ ہماری چھوٹی چھوٹی بے بضاعت کاریں اور موٹر سائیکل چُرائے جا رہے ہیں‘ ہمارے گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ میڈیا کے سوداگر ہمیں ہر روز تلقین کرتے ہیں کہ ہم نظریات اوڑھیں‘ سازش کھائیں‘ مذہب کا وہ محلول پئیں جسے یہ صحیح سمجھتے ہیں۔ نعرے لگائیں۔ پھر گولی کھا کر مر جائیں تاکہ یہ سکرین پر ابھر کر ایک اور
تقریر کر سکیں۔ ان میں سے کوئی ہماری گلیوں بازاروں میں کبھی نظر نہیں آتا۔ یہ اس طبقے میں شمار ہوتے ہیں جو کُل آبادی کا ایک فی صد ہے لیکن چاہتے یہ ہیں کہ ننانوے فی صد لوگ خالی پیٹوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ان کی پسندیدہ آئیڈیالوجی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بٹیروں کی طرح لڑیں اور میدانوں میں ڈھیر ہو جائیں۔
پھر کوئی آتا ہے اور تین سو کنال کے محل میں بیٹھ کر ہمیں خواب دکھانے لگتا ہے۔ اس کے آگے پیچھے کروڑ پتی ہیں۔ کسی کے پاس سواری کے لیے جہاز ہیں اور کسی کے امریکہ میں جہاز بنانے کے کارخانے۔
کاش! کوئی نیا سال ہمیں بھی اَروِند کجری وال جیسا لیڈر دیتا‘ جو اپنے وزیروں کے ساتھ‘ اقتدار کا حلف اٹھانے کے لیے بس اور انڈر گرائونڈ ریل سے آیا۔ جس نے سرکاری محل میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ جو سکیورٹی نہیں لے رہا۔ جس نے ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور لوگوں سے کہا کہ ہم تمہارے مذہب یا دھرم کی بات نہیں کر رہے‘ نہ ہی تمہارے ملک کو دشمن کا خطرہ ہے۔ نہ ہمارا کسی آئیڈیالوجی سے تعلق ہے۔ ہمیں صرف مسائل بتائو۔ جس نے حلف اٹھانے کے بعد اپنا وعدہ پورا کیا اور دہلی کے ہر گھر کو سات سو لیٹر روزانہ مفت پانی مہیا کر رہا ہے۔ جس کے وزیر رکشے اور بس میں آتے ہیں اور جو بدستور چوتھی منزل کے عام فلیٹ میں رہ رہا ہے۔
کاش! کوئی نیا سال ہمیں بھی ایسا رہنما دے جو چھوٹے گھر میں رہتا ہو۔ جو دکان سے چینی‘ گھی اور پتی خود خریدتا ہو اور جو ہمیں لِٹا کر‘ ہماری چھاتی پر گھٹنے رکھ کر‘ ہمارے گلے سے آئیڈیالوجی نہ اتار رہا ہو۔