ردی کے بھاؤ حسرتیں بازار میں بکیں
ہم پھر بھی زندگی میں نکھرتے چلے گئے
”پہلی اُس نے کی تھی“ کتاب کا نام ہے جسے جبار مرزا نے لکھا ہے۔یہ اُن کے جوان دِنوں کی آپ بیتی ہے لیکن کمال بیتی ہے۔پہل کوئی بھی کرے ضروری نہیں کہ جیت بھی اُس کی ہو۔ویسے بھی جنگ کا میدان ہو یا محبت کا سفر جو پہل کرتا ہے اُسے شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔یہاں معاملہ اُلٹ ہے یہاں تو دونوں کو ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔عاشق جیتا ہے نا محبوب بلکہ ظالم سماج ہمیشہ کی طرح بازی لے گیا ہے۔
”پہل اُس نے کی تھی“میں بھی ایک محبت کرنے والی شخصیت،جس نے ہمت،دلیری اور سچے جذبوں سے پہل کی تھی لیکن سماج کے ظلم و ستم اور معاشرے کی ناسودہ رِیت وروایت سے کم ہی آشکار تھی۔اُس نے پہل کرکے خود کو دُکھوں،آہوں،سسکیوں کے سپرد کیا ہے۔محبت کے لیے قربان ہو گئی۔
جبار مرزا قلم قبیلے کا آدمی ہے بھلا ہو علامہ عبدالستارعاصم صاحب کا جو قلم فاونڈیشن کے روح رواں ہیں۔کتاب دوست ہیں اور کتاب دوستی کے فروغ کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔آپ نے ہی ”پہل اُس نے کی تھی“کے توسط سے جبار مرزا سے ملوایا ہے۔”پہل اُس نے کی تھی بظاہر ایک پیار کی داستان ہے اور وہ بھی ناکام داستان کیونکہ جو محبت کامیاب ہو جاتی ہے اُس کی داستان کم ہی لکھی جاتی ہے۔اختر رضا سلیمی ؔبقول:
یقیں بحال مرا قہر ٹوٹنے سے ہوا
وگرنہ میں تیرا انکار کرنے والا تھا
”پہل اُس نے کی تھی“تین سو بیس صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت بارہ سو روپے ہے اور یکم اکتوبر 2019کی اشاعت ہے۔قلم فاؤنڈیشن نے سفید کاغذ پرنفاست کے ساتھ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے۔شروع کے آٹھ ورق رنگین ہیں جو فہرست،انتساب سے مزین ہیں اسی طرح آخر کے آٹھ ورق لکھاری کی زندگی کے یادگارلمحوں کوتصویری البم کی صورت دیئے گئے ہیں۔
”پہل اُس نے کی تھی“کا انتساب دُنیا بھر کی رانیوں اور چودھرانیوں کے نام کیا گیا جس میں ایک راز پوشیدہ ہے۔یہ راز کتاب پڑھنے کے بعد عیاں ہو جاتا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کی چند ناگزیر وجوہات بھی دی گئی ہیں جو مصنف نے عرض مصنف میں لکھی ہیں۔یہ کہانی اپنی تیس سال کی صغیہ راز کی مدت پوری کر چکی ہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کتاب میں ایک وصیت شامل ہے اور تیسری وجہ زندگی ”جیو اور جینے دو“کا نام ہے
مرے دُشمن ہو تو پھر ثابت قدمی سے رہنا
کوئی مشکل میری آسان نہ ہونے دینا
”پہل اُس نے کی تھی“شاعری اور نثر کا حسین امتزاج ہے۔اس کتاب میں جہاں چودھرانی کے خطوط اور ان کے عکس شامل ہیں وہیں اشعار اور غزلیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ان اشعار اور غزلوں کی وجہ نزول بھی لکھی گئی ہے۔
تاحشر تیرے سائے کو ترسیں گی نگاہیں
یوں تجھ سے بچھڑنے کا نہ تھ اوہم وگماں بھی
”پہل اُس نے کی تھی“میں پیار کی دیوی”چودھرانی“کا ذکر ہے۔جباراور چودھرانی کی ملاقاتوں کا ذکر ہے،خطوط کے تبادلے کا احوال ہے،دوستوں کے مشورے،ہمت،دلیری اور جوانمردی کا ذکر ہے۔مایوسی کے بادل چھانے لگتے ہیں تو خواب آور گولیوں کا ذکر آتا ہے لیکن عاشق اپنے محبوب کو خواب آور گولیوں کی جگہ میٹھی چینی کی گولیاں پیش کرتا ہے۔محبت کی لازوال داستان ہے۔جسے ہر فرد کو پڑھنی چاہیے۔جس میں سبق بھی ہے،اخلاق بھی ہے اور زمانے کے دئیے گئے ستم،دکھ،الم اور آہوں کاتذکرہ بھی ہے۔
”پہل اُس نے کی تھی“دو پریموں کا حال دِل ہے جن کو سماج اور اپنوں کے رسموں ورواجوں نے ایک نہ ہونے دیا جب کہ اُنہوں نے ہر ممکن حد تک اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے بھر پور کوششیں بھی کیں لیکن آخر کار ہار گئے۔دونوں زندہ تو رہے لیکن ایک دوسرے کی یادوں کے سہارے،لمحہ لمحہ تڑپتے،سسکتے ہوئے۔
چُپ ہو گیا ہوں چیخ کر اندھوں کے شہر میں
دیکھو تو کوئی!یہ بھلے انسان کیوں بکے
”پہل اُس نے کی تھی“دودلوں کی سسکتی داستان ہے۔مشرقی معاشرے میں لڑکی کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے اور حالات کا کس طرح اُسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک ایسی لڑکی جس نے والدین کی عزت و ناموس کی خاطر خود کو قربان کر دیا ورنہ وہ بغاوت کر سکتی تھی۔اُس نے ہر جائز طریقے سے ہر ممکن کوشش کی لیکن غلط فہمیوں اور رسم و رواج نے ایک ہنستی مسکراتی زندگی کو دُکھوں،آہوں کے سپرد کر دیا۔
ڈھونڈتے پھرتے رہوگے عمر بھر مرزاؔمجھے
میں تری آنکھوں کو ایسی جستجو دے جاؤنگا
”پہل اُس نے کی تھی“کے بار ے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں ”مرزا صاحب کے ایثار کا یہ بہت ہی خوبصورت انداز ہے کہ خود کو تو تُوپ کے دہانے پر باندھ لیا محب چھپا گئے۔جبار مرزا شاعر ہیں،نثر نگار،ادیب،سینئر صحافی،محقق،مورخ،سوانح نویس،ڈرامہ نگار،کہانی کار،مدیر اور کالم نگار بھی۔اُن کی بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں۔میرے اُن سے اُس وقت کے دوستانہ مراسم ہیں جب اُن کے سر پر بال ہوا کرتے تھے اور میرے سر پر بھی ابھی سفیدی نہیں اُتری تھی۔اب ہم دونوں زندگی کے آخری مرحلے سے گزر رہے ہیں۔میں گزشتہ جونتیس برس سے مرزا صاحب کا قاری ہوں،انہوں نے کبھی مذہب اور وطن پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی قلم کی حُرمت پر کبھی آنچ آنے دی۔ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور دِقاد یانیت ان کے ایمان افروز موضوع ہیں۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ان کی خدمات لائق تحسین ہیں۔وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی ہمارے ساتھ کھڑے رہے،کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔وہ آج بھی ہمارے ہمرکاب ہیں۔”پہل اس نے کی تھی“یہ بالکل ہی مختلف نوعیت کی کہانی ہے۔جبارمرزا کا یہ ذاتی المیہ ہی نہیں ایک معاشرتی سانحہ بھی ہے۔محبت کی دلفریب وادی سے بہت سے لوگ گزرتے ہیں۔جبارمرزا اُن میں سے ایک ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ عطاالحق قاسمی،ڈاکٹر انعام الحق جاویدؔ،ڈاکٹر انور نسیم،مظہر حسین،جام جمالی،جاوید راہی،ابو العمار بلال مہدی،کنول عاصم کی رائے شامل ہے۔
”پہل اُس نے کی تھی“آپ بیتی یا پیار کی داستان ہی نہیں ایک فکر کا نام بھی ہے۔معاشرے میں خود کشی،گھر سے فرار،قتل و اغوا جیسے جو جرائم ہوتے ہیں ان کا حل بھی اس میں بتایا گیا ہے۔یہ کتاب ہر نوجوان لڑکی اور لڑکے کے ساتھ ساتھ ہر اُس والدین کو پڑھنے چاہیے جس کے آنگن میں بیٹی،بیٹے ہیں۔کتاب میں بہت سے راز ہیں جو آپ مکمل کتاب پڑھنے کے بعد پا سکتے ہیں۔کتاب کی دشواری میں مسئلہ ہوتو قلم فاؤنڈیشن کے روح رواح علامہ عبد الستار عاصم سے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔