سید وارث شاہ کو پنجابی کا عظیم ترین شاعر ،ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ہیر‘‘کی وجہ سے مانا گیا ہے۔ہیر وارث شاہ کو بجا طور پر ’’دیوان پنجاب‘‘ کہا جاتا ہے اس میں ماحول اور معاشرے کی مصوری اس خوبی سے کی گئی ہے کہ لوگوں کے باطن کے نقوش بھی سامنے آ جاتے ہیں۔یہ زبان و بیان ،علم و فضل اور سماجی شعورکا شاہکار ہے اور اس میں فن داستان گوئی اپنے انتہائی عروج پر نطر آتا ہے ۔وارث شاہ نے ہیر ۱۱۸۰ھ میں تخلیق کی تھی جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:
سَن یاراں سے اسیاں بنی ،ہجرت لیں دیں دے وچ تیار ہوئی
مگرلوگ جانتے ہیں کہ سید وارث شاہ نے اوائل عمری میں امام ابو عبداللہ محمد بن سعید شرف الدین ابو بصیری ؒ کے مقبول بارگاہ عربی "قصیدہ بردہ شریف‘‘کا پنجابی ترجمہ بھی کیا ہے ان کے ترجمے کے کئی قلمی نسخے ملتے ہیں اس میں قصیدے کے ترجمہ کے بعد کچھ ایسے اشعار بھی شامل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ۱۱۵۲ھ حجرت میاں جمال چنابی شرح کی مدد سے کیا گیا تھا۔دو اشعار یوں ہیں:
باراں سے بونجہ سن ہجری ظاہر ہوئے
تاں ایہہ جواہر موتی لڑیاں وانگ پروئے
ایہہ ترجمہ راس کیتا میں اوس شرح تھیں بھائی
حضرت نیں جمال چنابی جہڑی شرح بنائی
حضرت میاں جمال چنابی اور ان کی شرح بردہ شریف کا ذکر ہمیں شاہ حسین بردہ میں کہیں نظر نہیں آیا تا ہم اندازہ یہ ہوتا ہے کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے عالمگیری دور میں قصہ ہیر فارسی مثنوی کی صورت میں لکھا تھا۔پروفیسر شریف کنجاہی نے ان کا نام حکیم چنابی لکھا ہے ۔اپنی ہیر میں حکیم چنابی نے اپنا وطن کلاس بتایا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ رانجھے ہزارے کو جاتا ہوا اسی نام کے گاؤں میں دفن ہوا تھا۔
در دیہہ کلاس نام آنجا
کردند مزاراں دلارا
بالائے چناب دارو آرام
با شہر من آں دہ است ہم نام[1]
بردہ شریف کے اضافی اشعار میں وارث شاہ نے اپنے بارے یہ معلومات بھی مہیا کی ہیں:
ناؤں مصنف سید وارث جنڈیالے وچ وسے
جہڑا شیر غازی نے بدھا سمجھو کوئی دسے
ربا روز قیامت تائیں وسے شہر جنڈالا
کالی آفت پوے نہ اوتھے وسے نت سوکھالا
یہ مصرع مسز سلیم پشاور یونیورسٹی والے قلمی نسخے میں اس طرح ہے:
جہڑا شیر خاں غازی ید با سبھ کو اوتھے وسے
بہر حال ان اشعار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ]]سید وارث شاہ نے اس زمانے میں کیا تھا جب وہ ابھی اپنے گاؤں جنڈیالہ شیر خان میں ہی قیام پذیر تھے۔اسس ترجمے کے بارے میں وارث شاہ[[ نے اعتراف یوں کیا ہے:
ناقص طبع مکدر میری اس کم لائق ناسی
جو ترجمہ کر قصیدے بردے ہندی بیت بناسی
ایہہ پر فضل الہٰی ہویا تے حضرت دی یاری
تاں ایہہ بیت مرتب کیتے کر کے محنت بھاری
نعتیہ ادب کا کوئی سہ پارہ اب تک امام شرف الدین بوصیری کے قصیدے بردہ شریف کی رفعت و مقبولیت تک نہیں پہنچ سکا،اس قصیدے کا اصل نام الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البرئت ہے۔’’بردہ‘‘ ایسی چادر کو کہتے ہیں جس میں مختلف رنگوں کی دھاریاں ہوں ۔ امام بو صیری نے یہ قصیدہ خواب میں زیارت کے وقت پر حضور اکرم ﷺکو پڑھ کر سنایا جس پر آقائے دوجہاں ﷺنے انھیں اپنی بردہ شریف سے نوازا تھا۔علامہ فضل احمد عارف نے اپنی کتاب ’’برکات بردہ‘‘ میں فوات الوفیات جلد۲ کے حوالے سے اس قصیدے کے بارے میں امام بو صیری ؒ کا جو بیان نقل کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:’’میں نے بہت سے قصیدے مدحت پیغمبر ﷺ میں کہے تھے جن میں سے بعض وزیر زین الدین یعقوب ابن الزبیری کو پڑھ کر سنائے تھے پھر اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے فالج لاحق ہو گیا جس سے بردہ کو نظم کرنے کے بارے میں غور وفکر کرتا رہا۔بالاخر اپنے نتائج فکر کو اس قصیدے کی شکل میں ڈھالنے کے قابل ہو گیا ۔اس نعتیہ قصیدے کو وسیلہ بنا کر رہ رہ کر دعا مانگتا رہا۔پھر اپنی پلکوں پر لرزتے ہوئے آنسوؤں کی سوغات لیے سو گیا ۔خواب میں زیارت رسول اللہ ﷺنصیب ہوئی۔حضور اکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے مفلوج بند پر پھیراجس سے میرا رواں رواں فرطِ مسرت سے جھوم اٹھا ۔بیدار ہوا تو اپنے آپ کو تندرست پایا۔فجر ہوئی تو اٹھا اور گھر سے باہر سیرو تفریح کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ابھی میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا تھا کہ اتنے میں میری ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جنھوں نے ملتے ہی مجھ سے قصیدہ طلب فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ قصیدے تو میں نے بہت کہے ہیں ۔کہنے لگے کہ وہ قصیدہ جو تم نے بیماری کے دوران میں کہا ہے۔ اور اس کا آغاز امن تذکرہ جیران بذی مسلم سے ہوتا ہے۔ میں بڑا متعجب ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کو اس کا کیسے پتہ چلا ہے۔ حالاں کہ میں نے تو کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ فرمانے لگے کہ رات بارگاہ رسالت ﷺ میں جب یہ قصیدہ پڑھا جا رہا تھا تو مجھے بھی سننے کی سعادت میسر آئی تھی۔مجھے یاد ہے اور خوب یاد ہے کہ اس کے بعض اشعار پر آقائے دو جہان ﷺاس طرح جھوم رہے تھے جیسے باد نسیم چلنے سے ثمر دار شاخیں جھوم رہی ہوتی ہیں۔یہ سن کر میں وہ لکھا ہوا قصیدہ لے آیا اور انھیں دے دیا۔اس کے بعد لوگوں میں اس قصیدے کا چرچا ہو گیا ۔معتبر روایتوں کے مطابق قصیدہ طلب کرنے والے بزرگ شیخ ابو الرجال الصدیقؒ تھے جو کہ قطب زمانہ تھے اور اہل طیبہ (مدینہ منورہ) سے الگ تھلگ ہو کر اللہ سے لو لگائے ہوئے تھے۔
جوں جوں اس قصیدے کی برکات ظاہر ہوئیں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا چناں چہ ہر زبان میں اس کے بے شمار ترجمے ہوئے۔پنجابی زبان بھی اس سلسلے میں پیچھے نہیں رہی ۔پنجابی زبان میں اب تک حافظ بر خوردار ،سید وارث شاہ ،محمد عزیز الدین شہیدی،مولوی اسماعیل فاضل دیو بندی،خواجہ غلام مرتضیٰ ،ڈاکٹر احمد حسن قریشی قلعداری اور داکٹر مہر عبدالحق کے تراجم سامنے آئے ہیں جن میں سے وارث شاہ کے ترجمے نے خاصی شہر ت پائی۔سید وارث شاہ کے ترجمے کا اجمالی جائزہ پیش ہے۔
قصیدہ بردہ شریف دس فصلوں پر مشتمل ہے ۔پہلی فصل کا عنوان ’’ تشبیب‘‘ہے اس تشبیب میں عام عربی قصائد کی روایت سے ہٹ کر عاشقانہ مضامین باندھنے کے بجائے قرب و جوار مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اشیتاق کا ظاہر کیا گیا ہے۔ تشبیب کے پہلے تین اشعار کا ترجمہ وارث شاہ نے کچھ یوں کیا ہے:
جاں چت آون میرے تائیں ساتھی ذی سلم دے
نین مرے رت ہنجو رورون مارے درد الم دے
یاں ایہہ ٹھنڈی واؤ جھلے محبوباں دی واؤں
یا ایہہ بجلی لشکی آہی رات اندھیاری جاؤں
اکھیں نوں میں منع کراں نہ رو رو ڈھائیں ڈھائیں
دل نوں صبر قرار دیاں پر دونویں سمجھن ناہیں
’’ذی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقعہ ہے اور وہاں ذوم سلم نام کا درخت بکثر ت ہیں جو پیلو کی ماند ہوتے ہیں۔‘‘ دوسری فصل ہوائے نفس کی مزمت میں ہے اس فصل کے پہلے دو اشعار کا ترجمہ وارث شاہ نے یوں کیا ہے:
سرکش نفس کمینہ مینوں بدیاں طرف چلائیے
کراں نصیحت منے ناہیں اوجھڑ بگا جائے
تیسری فصل کا عنوان ’’مدح ضیر البریہ‘‘ اور چوتھی کا ’’مولد النبی ﷺ‘‘ ہے پانچویں ،چھٹی ،ساتویں اور آٹھویں فصلیں علی الترتیب آنحضرت ﷺ کی دعوت بابرکت ،شرف القرآن ،معراج النبی ﷺ اور جہاد النبی ﷺ کے باب میں ہیں۔
نویں فصل میں طلب مغفرت اور دسویں فصل میں مناجات و عرض حاجات ہے ۔تیسری فصل میں کچھ مدحیہ اشعار کا ترجمہ وارث شاہ نے یوں کیا ہے:
حضرت سرور دونہاں جہاناں نالے جن آدم دا
ساری خلقت وچوں چنیا مہر عرب عجم دا
نبی اساڈا مانع منکر آمر مشروعاتے
اوس جیہا نہ سچا کوئی نفی اثباتے
اوہ حبیب خداوند والا تکیہ گاہ غریباں
اوکھے وقت شفیع ہووے گا ساریاں وانگ حبیباں
حضرت بہتے بھلے ہوئے طرف رب دی آندے
نال بجل اللہ دے بدھے کیوں ہووں درماندے
حضرت وچ مٹھاسے خلقت سبھ نبیاں تھیں فائق
علم عمل وچ ثانی نہ کو،نہ صفتاں وچ لائق
اک گھٹ رحمت طلب کیتا،سبھ نبیاں حضرت پاسیوں
دریا فضل اپنے تھیں دیویں چھٹیاں اسیں پاسیوں
حضرت تھیں پیغمبر سارے آئے کہن حقیقت
اک لفظ دے علم اپنے تھیں یاں دس راہ شریعت
آخر میں قصیدہ بردہ شریف کا ایک اصل شعر اور اس کا مختلف شعرا کا پنجابی ترجمہ پیش کیاجاتا ہے:
منزہ عن شریک فی محاسنہ
فجوھر الحسن فیہ غیر منقسم
بو صیری ؒ
ہور شریک نہ کوئی حضرت وچ خوبی زیبائی
حسن ملاحت جو احمد وچ خالق آکھ سنائی
وارث شاہ
دوجا کوئی نہ حضرت جیہا خوبی ٹھاٹھاں مارے
جو ہر حسن نہ قسمت ہوندا جو احمد وچ بارے
حافظ بر خوردار
رکھدا ثانی اپنا نہ اوہ وچ تمام جہاں دے اوس دی حسن جوہر ہرگز قسمت مول نہ کھاندی
محمد عزیزالدین بہاولپوری
حسنے اندر نال نبی ﷺ سے ہور شریک نہ کوئی اے
حسن نبی دا کام آہے آوہے ناہیں وچ رقم
خواجہ غلام مرتضیٰ
خوبیاں پاروں دو جگ اندر اوہدا کوئی نہ ثانی
حسن اوہدے جہی ہور کسے نہ پائی مول نشانی
ڈاکٹر احمد حسین قلعداری
ایندیاں خوبیاں دے وچ اصلوں کوئی سانجھا نہیں
جو ہر ایندے حسن دا تقسیم پتی سکدا نہیں
ڈاکٹر مہر عبدالحق
درج بالا اشعار کے موازنے سے کسی حد تک اندازہ ہو سکے گا کہ وارث شاہ ابتدائی عمر میں ہی مسند فن پر فائز ہو چکے تھے اور کیا عجب ہے کہ ان کی ہیر کو قصیدہ بردہ شریف کے پنجابی ترجمے کی ہی برکت سے اتنی شہرت مقبولیت نصیب ہوئی جو انھوں نے ہیر لکھنے سے اٹھائیس سال پہلے کیا تھا۔قصیدہ بردہ شریف میں سے سید وارث شاہ کے چند اشعار پیش ہیں:
سبھ خلقت تھیں نبی اساڈا ظاہر باطن کامل
نال محبت اپنی خالق کیتا اس نوں شامل
ہور شریک نہ کوئی حضرت وچ خوبی زیبائی
حسن ملاحت جو احمد اندر خالق آکھ سنائی
جوں تعریف کراں حضرت دی جیہڑا خاص حضوری
توں وی لکھ کتاباں لکھاں تابہی کدے نہ پورے
کیا کہاں میں مدح نبی دی نا وچ حد شماری
کتھوں تائیں لکھ دکھائیں ،مول نہ آواں وارے
حضرت بیت مقدس چلے سبھ نبیاں تھیں اَگے
ہوس مخدوم سد ہارے حضرت پچھے مرسل لگے
آسماناں نہیں گزرے حضرت نالے مرسل سارے
صاحب نیزہ حضرت آہی ہور سبھی بیچارے
زینت،قدر،قرب تھیں حضرت کسے نبی نہ چہڑی
تاہیں جائی بلندی پہنچیاں ساس بزرگی وڈی
سب نبیاں دے بہت ٹکانے قرب حضرت دا بھاری
جاں اسماناں اُتے کھڑیا اوتھے بین سرداری
حواشی و حوالہ جات
1۔ پروفیسر شریف کنجاہی، ’’ہیر دمودر توں ہیر وارث تائیں‘‘مشمولہ ،کھوج شمارہ نمبر ۲ پنجاب یونیورسٹی لاہور،ص ۱۵۔۱۸
“