وارث شاہ وساہ کیہ زندگی دا
ساڈی عمر ہے نقش پتاشیاں تے
پیر وارث شاہ ؒ پنجاب کے نامور سپوت اور مشہور زمانہ تصنیف ’’ہیر ‘‘ کے خالق ،پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں۔قلعہ شیخوپورہ سے چند میل کے فاصلے پر جنڈیالہ شیر خان جو کہ ان کی جنم بھومی ہے ،میں ہمیشہ کی نیند سو رہے ہیں۔جب کہ ان کا تخلیق کردہ کلام کی روشنی چہار دانگ عام میں پھیلی ہوئی ہے۔سید وارث شاہ ؒ کے حالات ِ زندگی اور ان کی اس گراں قدر تصنیف کے بارے میں بہت سے محققین اور مقالہ نگار اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں اور پنجابی زبان کے عظیم محسن کی حیثیت سے ان کی ذات گرامی بلا شبہ غیر متنازعہ ہے ۔
سید وارث شاہ ؒ در حقیقت ایک
درویش ،فقیر،عارف ،صوفی اور ولی اللہ ہیں جنھوں نے ’’ہیر رانجھا‘‘کے اس رومانوی قصے کو سامنے رکھتے ہوئے عرفان الہٰی کی منازل طے کرنے کی کوشش کی ہے اور حوالہ کے طور پر ان کے کلام سے بہت سے ایسے اشعار پیش کرتے ہیں جو حقیقتاًان کے ولی اللہ ہونے کی دلالت کرتے ہیں جب کہ دوسرا فریق ہیر رانجھا کی داستان کو ایک عام سا رومانوی قصہ قرار دیتا ہے ۔بعض لوگ’’ کیدو ‘‘کے کردار کو پنجاب کا با غیرت کردار سمجھتے ہیں جس نے پنجاب کے ایک شریف گھرانے کی عزت بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہیر کے کلام کو ایسے موتی قراردیتا ہے جو منج کی رسی میں پرویا گیا ہے ۔۔خیر اس بحث میں پڑنا مقصودنہ ہے لیکن ایک بات کا اعتراف کھلے دل سے کرنا پڑتا ہے کہ اس قادر الکلام شاعر کی عظمت میں آج تک کوئی فرق نہ پڑا بل کہ پنجاب ،پنجابی ادب اور پنجابی زبان کی شناخت کی حیثیت سے سید وارث شاہ ؒ کا مقام بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔سید وارث شاہ ؒ کی قادر الکلامی کے حوالے سے بات کریں تو ہیر وارث شاہ ؒ کا مطالعہ کرتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس تصنیف کے عظیم خالق سید وارث شاہ ؒ اپنی ماں بولی پنجابی زبان کی گہرائی ،گیرائی اور ہمہ گیریت سے شعوری طور پر پوری طرح آگاہ تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج پنجابی زبان دیگر عالمی زبانوں کے مقابلے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
پنجابی زبان کے بارے میں سید وارث شاہ نے اپنے کلام کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی زبان نہ صرف ایک قدیم زبان ہے بل کہ اپنے اندر قدیم زبانوں کی بہت سی زبانوں کا ذخیرہ الفاظ جذب کیے ہوئے ہے۔ جیسے سمندر میں نہ جانے کتنے ندی نالے اور دریا جذب ہو کر اپنے حوالے ختم کر لیتے ہیں اور صرف سمندر کا تشخص قائم رہتا ہے اسی طرح پنجابی زبان نے اپنے اندر تمام قدیم زبانوں اور لہجوں کو جذب کر کے بحیثیت پنجابی زبان اپنی شناخت قائم رکھی ۔
سید وارث شاہؒ کی اس تصنیف سے پہلے دمودر،مقبل،احمد کوی،احمد یار اورسید فضل شاہ جیسے عظیم شاعر بھی اس قصہ کے حوالے سے طبع آزمائی کر چکے ہیں۔مگر ہیر وراث شاہ میں اپنی قادر الکلامی کی دھاک جس انداز سے سید وارث شاہؒ نے بٹھائی ہے ، کوئی بھی اہل علم و دانش اس سے انکار نہیں کر سکتا۔پنجابی زبان میں جو مقام سید وارث شاہؒ نے بنایا ہے وہ کسی کو بھی نصیب نہیں ہو سکا۔ہیر وارث شاہ میں ضرب المثل ،محاورے ،دانائی کی باتیں ،نیکی اور بدی کی کشمکش کا اظہار ،تشبیہات اور استعاروں کی اس قدر بھر مار ہے کہ شاید ہی کسی اور پنجابی تصنیف میں موجود ہو اور اپنے کمال کو پہنچا ہوا نظر آتا ہو۔۔سید وارث شاہؒ ایسا فنکار تھا جو ہمیشہ اپنے مشاہدے کی آنکھ کوکھلا رکھتا اور اپنی آنکھ کے کیمرے سے اپنے گردو پیش کے مناظر کو اپنے ذہن کے دریچوں سے گزار کر قلم بند کرتے جاتے اور تمام دنیا کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیاکہ پنجابی زبان کی جڑیں ہڑپہ تہذیب بل کہ اس سے پہلے تک کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں اور پنجابی زبان عام لوگوں کے جذبوں ،امنگوں ،احساسات اور سوچوں کی خوبصورت عکاس و ترجمان ہے۔ہمارے دیس پنجاب کے لوگوں کے خمیر خون اور ثقافت کے علامتی اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔
سید وارث شاہؒ کے کلام سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بحیثیت ماں بولی پنجابی زبان کا ہماری معاشرتی زندگی ،رسم ورواج ،روایت اور مذہبی عقیدتوں سے اٹوٹ رشتہ ہے۔۔ سید وارث شاہؒ پنجاب کی معاشی ،اقتصادی صورت حال اور احساسات و جذبات کے ایک بہترین مصور کے روپ میں سامنے آتا ہے جس نے پانچ دریاؤں کی سوہنی دھرتی میں بسنے والے لوگوں کے سُچے ، سچے اور کھرے جذبوں کا اپنے شعروں کے ذریعے اظہار کیا ہے اور پنجاب کی ثقافت معاشرت ،تہذیب ،رسم رواج،احساسات و جذبات اور سوچوں کو نئے زاویے بخشے۔
ہیر وارث شاہ کے مطالعے سے پنجابی زبان ایک انتہائی رسیلی اور میٹھی زبان کی شکل میں سامنے آتی ہے۔جس کی ساخت انتہائی توانا ہے ،اس توانائی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہیر وارث شاہ پنجابی زبان کی ایک ڈکشنری ہے جس میں پنجابی زبان کی وسعت اور کھلار اتنا کو پھیلا ہوا ہے کہ شاید ہی کسی اور زبان میں ہو۔ایک ایک لفظ کے حوالے سے معانی قطار اندر قطار سید وارث شاہؒکے حضور صف بستہ نظر آتے ہیں اور اپنی باری کے منتظر نظر آتے ہیں کہ شاید سید وارث شاہؒشرفِ قدم بوسی بخشیں۔یہی وجہ ہے کہ آج سید وارث شاہؒ اپنے فن کا لوہا منوا کر سوہنے دیس پنجاب کی پگڑی کا اونچا شملہ بن چکا ہے۔اس نے پنجابی زبان سے محبت کے ایسے احساس کو زندہ تابندہ کیا ہے جو کہ بلا شبہ اہل پنجابپ پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔
سید وارث شاہؒ کا انداز بیان منفرد تھا اور جس ڈھنگ میں ہیر وارث شاہ تحریر فرمائی وہ انھیں پنجابی زبان کے دیگر تمام لکھاریوں سے نہ صرف ممتاز کر دیتا ہے بل کہ وہ ایک قد آور رہنما نظر آتا ہے ۔انھیں اپنے مشاہدات ،تجربات اور معلومات کو تحریرکرتے وقت زبان پر اتنی قدرت حاصل ہوئی تھی کہ قاری اپنی آنکھوں سے خود اس منظر کا نظارہ کرسکتا ہے جو سید وارث شاہؒ نے اپنے اشعار میں بیان کیا۔اس عظیم شاعر اور فن کار کی گہری نظر اور کلام کی تاثیر کی بدولت انسانی زندگی کے ایک ایک پہلو کو نئی زندگی ملی۔مشہور زمانہ پنجابی تصنیف ’’سیف الملوک‘‘میں میاں محمد بخش فرماتے ہیں:
وارث شاہ سخن دا وارث نندے کون اوہناں نوں
حرف اوہناں تے انگل دھرنی،نہیں مجال اساں نوں
سید وارث شاہؒ ۱۷۲۲ء میں سید قطب شاہ ؒ کے گھر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے ہی قصبہ میں حاصل کی اور پھر دین کی تعلیم کے لیے قصور میں موجود تعلیمی مرکز درس گاہ مسجد کوٹ میں داخل ہوگئے۔قصور ان دنوں علم اور تصوف کا گڑھ تھا۔سید وارث شاہؒ نے ہر وہ علم حاصل کیا جو اس وقت دیا جاتا تھا،وہاں پر آپ نے درس نظامی کے ساتھ ساتھ علوم حدیث،فقہ ،طب،نجوم اور تاریخ کے علاوہ دوسرے مذہبی علوم بھی حاصل کیے ۔بعد ازاں آپ تعلیم مکمل کر کے ممتاز بزرگ بابا فرید شکر گنج کی درسگاہ پاکپتن چلے گئے جہاں اس وقت کے گدی نشین مخدوم جہانیاں ؒ کی بیعت کی۔وہاں سے چل کر آپ ملکہ ہانس آ گئے اور وہاں ایک مسجد میں پانچ وقت نمازوں کی جماعت کے لیے امامت کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ یہاں کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے رہے۔یہاں سے چل کر آپ ٹھٹھہ جا پہنچے اور ایک عورت ’’بھاگ بھری‘‘سے عشق کیا ۔بھاگ بھری کا تعلق بلوچ قبیلے سے تھا جس نے سید وارث شاہ ؒکے دل میں عشق کی جوت جگائی اور ان سے’’ ہیر ‘‘جیسی شہرہ آفاق تحریر لکھوا کر لافانی بنا دیا۔
سید وارث شاہؒ کا اپنا عشق کسی حقیقی کردار بھاگ بھری سے ہو سکتا ہے لیکن وہ اس عشق مجازی کے محدود خول سے نکل کر جلد ہی روحانیت کے پاکیزہ ماحول اور وسعت پذیر محبت کے وجدان میں د اخل ہونے کے بعد عشق حقیقی کے راستے پر گامزن ہو گئے۔ہیر رانجھے کا قصہ ابراہیم بہلول کے عہد میں آپ نے یہ ۱۷۶۶ء میں پنجابی زبان میں تخلیق کیا جس کے بعد ہندی، اردو سندھی،فارسی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اس قصے کو سید وارث شاہؒ سے پہلے اور بعد میں بہت سے شاعروں نے منظوم کیا مگر سید وارث شاہؒ کے قصے کو جو شہرت نصیب ہوئی وہ کسی اور کا مقدر نہ بن سکی۔آپ نے پنجابی ادب کا شہکار تخلیق کیاجس نے ان کو زندہ جاوید کر کے ’’ہیر‘‘ کی کہانی کو ایک لافانی حقیقت بنا دیا۔
محققین و ناقدین سید وارث شاہؒ کو پنجابی ادب کا شیکسپیئرلارڈ بائرن اور میکالے جیسے شاعروں سے وارث شاہ کو بڑا شاعر پاتے ہیں۔ وہ سید وارث شاہؒ کی ہیر سے وہ سب کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں جو انھیں ورڈز ورتھ اور شیکسپیئرکی شاعری سے ملتا ہے۔سید وارث شاہؒ ایسے منفرد المزاج شاعر تھے جنھوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کے ذریعے پنجابی کے لسانی ذخیرے کو اس قدر توانا کیا کہ یہ کتاب پنجابی زبان کی ’’ انسائیکلوپیڈیا‘‘ کہلائی۔۔ سید وارث شاہؒ نے رومان کے حوالے سے تصوف ،عشق حقیقی اور سچائی کے ان جہانوںکی نشان دہی کی ہے جن کا انکشاف انسانیت کے لیے روشن مینارکی حیثیت رکھتا ہے۔سید وارث شاہؒ نے ہیر ،معراج نامہ،اشتر نامہ،نصیحت نامہ،چوہڑی نامہ،ڈوہڑے اور ماہیے بھی لکھے لیکن آپ نے پنجابی کا وہ شہکار لکھ ڈالا جس نے سید وارث شاہؒ کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیاکیوں کہ آپ نے ’’ہیر رانجھا‘‘ کی عشقیہ داستان کو منظوم صورت میں کچھ اس منفرد دل کش اور دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے کہ وہ آج تک پنجابی ادب میں ان کی پہچان بنی ہوئی ہے اور ہیر رانجھے کے بجائے ’’ہیر وارث‘‘ کے طور پر مشہور ہو گئی ہے۔
سید وارث شاہؒ کے عہد میں پنجابی کے دو اور نامور شاعر بابا بلھے شاہؒ اور علی حیدر ملتانی گزرے ہیں مگر ان تینوں میں سے کسی ایک نے بھی کسی دوسرے کا ذکر نہیں کیا۔سید وارث شاہؒ عربی اور فارسی کے جید عالم اور سیاسی ،سماجی ،معاشرتی و مذہبی شعور و ادراک کے حامل تھے۔آپ نے اس دور میں آنکھ کھولی جب انگریز سر زمین ہندو پاک کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ سمجھتے ہوئے اسے اپنے دام میں پھنسانے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔یہاں کے مغل حکمران انگریزی کی کاریوں اور عیاریوں سے خوب واقف تھے ۔سلطنت مغلیہ کے عروج و زوال کے بعد نادر شاہ محمد رنگیلااور احمد شاہ ابدالی اور پھرآخر میں انگریزوں نے امور سلطنت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔سید وارث شاہؒ کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صوبہ مغلیہ عہد کی جنگوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا گویا پنجاب کا سارا سیاسی ڈھانچہ بالکل منتشر ہو چکا تھا۔سید وارث شاہؒ نے نہ صرف اس دور کے سیاسی حالات و واقعات کی عکاسی کی بل کہ انھوں نے اپنے دور کے پنجاب کی معاشرتی ،سماجی زندگی کی تصویر بھی کھنچی۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہیر کے مطالعہ کے دوران محاکات نگاری کے بڑے واضح اور اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔سید وارث شاہؒ کی شاعری میں سادگی،تصوف،اخلاق،سوز، سماجی قدریں اور پنجاب کی دھرتی کے بارے میں بہت سی تصویریں ملنے کے ساتھ ساتھ واقع نگاری ،کردار نگاری اور جذبات نگاری والی باتیں ملتی ہیں۔جس کو انھوں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے اسلوب کو اس طرح بیان کیا ہے:
؎حکم من کے سجناں پیاریاں دا، قصہ عجب بہار دا جوڑیا اے
فقرہ جوڑ کے خوب درست کیتا ،نواں پھل گلاب دا توڑیا اے
’’ہیر وارث شاہ‘‘پنجاب کا ایک دل کش مرقع ہے جس کے صفحات کے اندر گھنے درختوں میں ڈھکے ہوئے بیلے موجیں مار کر بہتے ہوئے دریا ،بھنگڑا ڈالتے ہوئے کڑیل جواں ،دودھ ابالتی ہوئی ،اُپلے تھاپتی ہوئی جوان دوشیزائیں ،ترنجن کے چرخوں کی گھوں گھوں میں کنواریوں کے دبے دبے قہقہے بپھرے ہوئے جانوروں کی گرج دار بڑھکیں گویا سید وارث شاہؒ نے نہ صرف ماضی اور حال کو تحریر کیا بل کہ مستقبل کو بھی تخلیق کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سید وارث شاہؒ کا پنجاب آج بھی زندہ ہے۔انھوں نے جو کچھ اخذ کیا، اسے قوم کی امانت سمجھ کر نہایت خوبصورت انداز میں اپنی سدا بہار شاعری کے ذریعے مستقبل کے سپرد کر دیا۔۔یہی وہ امانت ہے جو پنجاب کے لوگوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کر رکھی ہے۔سید وارث شاہؒ نے اپنے قصے کا آغاز بھی عشق سے کیا اور انجام بھی اسی پر کیا کیوں کہ ان کے خیال میں اسی عظیم تر عشق کی خاطر زندگی ملتی اور ختم ہوتی ہے۔ سید وارث شاہؒ کے کلام میں سوز گداز کا اثر دوسرے شاعروں سے بہت زیادہ ہے اگر وارث شاہ کی شاعری کو ڈوب کر پڑھا جائے تو سننے والے پر ایک رقت آمیز منظر طاری ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی کے معروف شاعر نور محمّد نور کپور تھلوی ، پنجاب کی ثقافت کے علمبردار پیر سید وارث شاہ کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوۓ کہتے ہیں۔ ۔۔۔۔
مہاں کوی تے گرو گیانیاں دا ، ساڈے دیس پنجاب دا مان وارث !
پہیہ سمے دا جویں َاگانہہ تریا، تیری ہور ہوئی اچی شان وارث !
جیہڑا پت پنجاب دے پانیاں دا ، توں ہیں اوس دا مان تران وارث !
تیرے دیس دی رکھیا کرن خاطر ، وار دیاں گے جند تے جان وارث !
کیہڑی شے پنجاب دی لکی تیتھوں ، ہر اک دا تینوں گیان وارث !
گرنتھ ، وید ، قرآن تے لوک گاتھا، سبھناں اتے ہے تیرا دھیان وارث !
نفرت کسے توں وی کرنی روا ناہیں ،حلم پریم ہے تیرا ایمان وارث !
کتھوں لبھیے بندے ہن تیں جیہے ، جیہڑے ہون شعور دی کھان وارث !
تیری مٹھڑی سرل زبان اتے سبھو بولیاں کراں قربان وارث !
رچنا ہیر دی نے سانوں بخشیا اے، وچ پرتھاچا مکان وارث !
غفلت وچ ہے پئی سرکار ساڈی، جہنے کیتا نہ پورا سامان وارث !
بالاں تائیں پنجابی چ ملے سکھیا ،علم ہو جیے بہت آسان وارث !
نویں نسل جے بھل گئی مات بھاشا ، پورا کرؤ گا کون
نقصان وارث !
غافل اپنے رسم رواج کولوں ہندے جان سارے نوجوان وارث !
اسیں پت پنجاب دے بڑے بھولے، ولاں چھلاں توں اسیں انجان وارث !
جمے سورما ایس دی ککھ وچوں، ساڈے درد دا کرے درمان وارث !
آدمیت، آدرش دے نال سارا بھریا ہویا اے تیرا بیان وارث !
"بناں مرشداں راہ نہ ہتھ آوے" مینوں یاد اے تیرا فرمان وارث !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔