(پیر مہر علی شاہ ؒ کے جانشین پیر سید نصیر الدین نصیر)
(۱۹۴۹ء ۔۔۲۰۰۹ئ)
گولڑہ شریف ایک ایسی درس گاہ ہے جہاں علم و دانش کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔یہ وہ مقام ہے جہاں روحانی فیوض کے حصول کے لیے عاشقان ِ الفت کا ہر وقت تانتا بندھا رہتا ہے ۔گولڑاہ شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے منکرین ختم نبوت کو للکار کر سچ اور حق کا بول بالا کیا گیا۔ یہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ تھے جنھوں نے آلِ رسول ﷺ ہونے کا حق ادا کیا۔حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی اولاد نے بھی ان کے جانشین ہونے کا بھر پور ثبوت دیا اور اس درسگاہ میں جاری چشمہ فیضان ہونے کو کم نہ ہونے دیا۔حضرت پیر مہر علی شاہؒ کے ان ہی جانشینوں کی تسبیح کے دانوں میں ایک بڑا نام حضرت پیر نصیر الدین نصیر کا ہے۔
پیر نصیر الدین نصیر نے ایک صوفی ، شاعر،ادیب ،محقق ،مورخ ،عالم دین کی حیثیت سے اس درس گاہ کے وقار میں اضافہ کیا۔۔ان کی علمی و ادبی خدمات یقینی طور پر تاریخ کا حصہ ہیں۔ان کی طرف سے تحقیق و تالیف اور روحانی بالیدگی عام کرنے کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک دلدوز خبر آئی کہ ان کی روح پرواز کر گئی۔ پیر نصیر الدین نصیر سجادہ نشین آستانہ عالیہ گولڑا شریف جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے تیار ہو رہے تھے کہ اچانک انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔
پیر نصیر الدین نصیر ایک جامع العلوم شخصیت تھے،آپ سات زبانوں میں شاعری فرماتے تھے،آپ آستانہ گولڑہ شریف میں حضرت سید غلام معین الدین گیلانی گولڑوی ؒ کے گھر پیدا ہوئے ۔سادات گولڑہ شریف کے چشم و چراغ ہونے اور ذاتی گوناں گوں علمی و ادبی خوبیاں رکھنے کے باعث سید پیر نصیر الدین نصیربھی ملک پاکستان میں اہم مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔پاکستانی اخبارات ،رسائل،ریڈیواور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں کے توسط سے ان کا کلام بلاغت نظام ہر خاص و عام تک پہنچتا رہتا تھا۔ان کا حلقہ ارادت نہ صرف پاکستان میں پھیلا ہوا تھا بل کہ بیرونی ممالک میں بھی ان کے مریدین کی تعداد کچھ کم نہ تھی۔وہ اپنی زندگی میں ہی ایک نابغۂ روزگار شخصیت اختیار کر چکے تھے۔عربی اور فارسی پر ان کی گرفت کا یہ عالم تھا کہ یونیورسٹیوں کے نامور پروفیسر اور دینی مدارس کے جید علما ان سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔
خاندانی پس منظر:
پیر نصیر الدین نصیر کا سلسلہ نسب دو واسطوں سے حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ گیلانی گولڑوی سے جا ملتا ہے اور ۲۷ واسطوں سے حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی المعروف غوث اعظم سے جا ملتا ہے جوحسنی حسینی سید تھے۔پیر نصیر الدین نصیر نجیب الطرفین سید ہیں ان کے شجرہ نسب کے متعلق
سجاد احمد سیال لکھتے ہیں:
’’آپ کا سلسلہ نسب اٹھائیس واسطوں حضور غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی اور انتالیس واسطوں سے سیدنا امام حسین سے جا ملتا ہے۔‘‘
(۱)
پیر نصیر الدین نصیر کی جامع شخصیت کے پیچھے آپ کے آبا کی تربیت روحانی تھی لیکن ساتھ ساتھ سیدپیر نصیر الدین نصیر کی محنت ِ شاقہ اور تطہیرقلب بھی شامل تھی اور علم کی تشنگی بجھانے کے لیے اپنی حیات مستعار کو بھی وقف کر دیا تھا اور اپنے کردار بے باک سے اپنے آپ کو آبائی وراثت کا اہل بنایا ۔نعیم الدین چشتی لکھتے ہیں:
’’ حضرت پیر نصیر الدین نصیر فقط ایک علمی و روحانی خاندان کا فرد ہونے کی بنا پر ہی مقبول و ممتاز نہیں ہوئے بل کہ آپ نے جہاں اس علمی میراث میں پختگی حاصل کی وہاں اپنی حیات مستعار کو بھی وقف کر دیا ،وہاں علم و کرداد کی تابانیوں سے اپنے آپ کو وراثت علوم مہر میںبھی ثابت کیا۔‘‘
(۲)
پیر نصیر الدین نصیر کو اللہ تعالی نے گونوں گوں خوبیوں سے نوازا تھا۔
ولادت:
سیدپیر نصیر الدین نصیر ۱۴ نومبر ۱۹۴۹ء کو سر زمین گولڑہ شریف ،راولپنڈی ،پاکستان میں پیدا ہوئے۔ سیدپیر نصیر الدین نصیر کے خاندان کے مردوں کے اکثر نام بزرگان چشتیہ کے نام پر رکھے گئے ہیں اور اس میں لفظ غلام کی پابندی ہوتی ہے۔ محبوب الرسول قادری نے ان کے ساتھ ایک انٹرویو کیا جس میں ان کے پورے اسم گرامی کے استفسار پر خود کہتے ہیں:
’’اجداد نے تو غلام نصیر الدین رکھا تھا ،بہر حال نصیر الدین بھی چلتا ہے ،نصیر تخلص کرتا ہوں اور گیلانی سادات میں سے ہوں تو یوں سید پیر نصیر الدین نصیرگیلانی کہلاتا ہوں ۔‘‘
(۳)
مریدین و متوسلین میں سیدپیر نصیر الدین نصیر ’’نصیر ملت‘‘ اور ’’پیر سائیں ‘‘ کے القابت سے پکارے جاتے تھے۔ سید نصیر الدین نصیر نے قرآن پاک کی تعلیم (تجوید و قرآت) کا آغاز کہنہ مشق استاد فن علوم تجوید قرآت کے ماہر محبوب علی لکھنوی سے کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوش آوازی کی نعمت سے سرفراز فرما رکھا تھا۔یہ اسی محنت کا ثمرہ تھا کہ آپ کم و بیش آٹھ لہجوں میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔سید نصیر الدین نصیر کو قرآن اور صاحبِ قرآن سے والہانہ عقیدت تھی۔ جب آپ قر آن پاک کی تلاوت فرماتے تو سامعین پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور تمام سامعین ان کی تلاوت اور تلاوت کے مختلف لہجوں کی داد دیتے ۔
حصول علم کے لیے لوگ زندگیاں صرف کرتے ہیں مگر حق کوئی کوئی ادا کرتا ہے سید نصیر الدین نصیر کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا تھا جنھوں نے محض کتابوں کی اوراق گردانی نہیں کی بل کہ کتابوں کو پڑھنے کا حق ادا کر دیا۔ دوسرے لفظوں میں ان کتب کو کھنگال کر ان کی روح تک رسائی حاصل کی۔یہی وجہ ہے ۔ کہ آپ کو صرف نحو ،فلسفہ و منطق،اصول فقہ و حدیث کے تمام قوانین و ضوابط پر دسترس حاصل تھی۔سید نصیر الدین نصیرنے انگریزی تعلیم کے حصول کے لیے کسی سکول و کالج یا یونیورسٹی کا سفر نہیں کیا بل کہ ان کو دینی علوم و فنون پر اس قدر دسترس تھی کہ اگر کسی سے علمی مباحثہ کرتے تو مخاطب پر فنون ہی سے سبقت حاصل کر لیا کرتے تھے۔انھوں نے مروجہ علوم و فنون سے اپنی علمی تشنگی کو بجھایا ۔گھر میں تمام آسائشیں ہونے کے باوجود ان کے دادا جان حضرت بابو جی سرکار نے ان کو محنت و مشقت اور تعلیم و تربیت کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیا۔
شادی و اولاد:
۱۹۷۵ء میں سید نصیر الدین نصیر کی شادی اپنے چچا سید شاہ عبدالحق گیلانی کی بیٹی سے ہوئی سید نصیر الدین نصیرکے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہے۔
صاحب طرز ادیب:
سید نصیر الدین نصیر بہترین ادیب تھے ان کا شعرو ادب سے شغف اور زبان دانی کا کمال ادبا اور شعرا سے لے کر عوام الناس تک مسلمہ ہے ۔سید نصیر الدین نصیر کی تصانیف خالصتاً دینی ،مذہبی اصلاحی اور تحقیقی نوعیت کی حامل ہیں۔آپ نے شعرو سخن اور تحریر و تقریر سے ہزاروں لوگوں کو اپنا دیوانہ بنایا ۔آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا تو قلم برداشتہ لکھتے ہی گئے۔آپ کا انداز بیاں نثر اور نظم دونوں میں منفرد ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آپ کا منفرد انداز بیاں آپ کے خیالات و احساسات اور آپ کے سچے جذبوں کے جمال کا ترجمان ہے ۔سید نصیر الدین نصیرکے جذبات و خیالات کا حسن ،صداقت و سچائی کی حقیقت ،حق گوئی و بے باکی میں مضمر ہے جس کا اظہار سید نصیر الدین نصیر نے بلا خوف و خطر اپنی نثری تحریروں اور تقریروں میں بھی کیا۔ آپ کی تصانیف ’’نام و نسب ‘‘ اور ’’رنگ نظام‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔’’رنگ نظام ‘‘ میں آپ رقم طراز ہیں:
’’ انکسار میرے سرشت اور عجز میری فطرت ہے لیکن وقت اور ماحول نے مجھے بے رحمانہ سلوک کا ہدف بنائے رکھا۔ میں غلط تاویلات کو صحیح نہیںکہہ سکتا بل کہ غلط کو برملا اور بے تکلف غلط ہی کہوں گا۔‘‘
(۴)
سید نصیر الدین نصیر بحیثیت مصلح:
ایک بڑی خانقاہ کے زیب سجادہ اور وقت کے اہم محقق ہونے کی حیثیت سے سید نصیر الدین نصیر کو بہ یک وقت کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں اس لیے مبدا فیض نے انھیں ان گنت خوبیوں سے نوازا تھا۔آپ علوم ظاہری میں یکتائے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ علوم باطنی کے بھی ماہر تھے بل کہ ایک مصلح رہبر اور راہنما بھی تھے۔آپ نے تمام خانقاہی نظام اور خانوادوں کی اصلاح کے پہلوؤں کی نشان دہی کی ۔آپ فرماتے ہیں:
’’آپ جانتے ہیں کہ میرا تعلق ایک خانقاہ سے ہے اور خانقاہی نظام کی زندگی کچھ لگے بندھے معمولات میں گزرتی ہے لیکن میرا حال اس سے قدرے مختلف ہے ۔‘‘
(۵)
آپ نے تمام اعتقادی و فکری اور نزاعی مسائل کی اصلاح کی کوشش کی ۔عوام الناس سے لے کر خواص تک غرض کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے لیے اصلاح کے اصول وضع کیے جو بھی آپ کی نسبت و قربت میں آ جاتا تھا وہ سونا بن جاتا تھا۔
شاعری کا شغف:
سید نصیر الدین نصیر بچپن ہی سے شعرو ادب کے ساتھ شغف رکھتے تھے اور بچپن میں ہی شعرو وسخن کے ساتھ آپ کی وابستگی قبلہ بابو جی سرکار کی مرہون منت تھی۔آپ کو چھوٹی عمر میں ہی سینکڑوں اشعار یاد تھے ۔آپ اپنی شعر گوئی کے بارے میں کہتے ہیں:
’’ اردو زبان سے میرے قلبی ربط اور موانست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دس گیارہ برس کی عمر میں مجھے شعرائے اردو کے سینکڑو ں اشعار زبانی یاد تھے جنھیں میں دوران گفتگو مخاطب کے ذوق و استعداد کو دیکھتے ہوئے بر محل استعمال کیا کرتا تھا۔‘‘
(۶)
فارسی زبان و ادب کے امین:
سید نصیر الدین نصیر فارسی زبان و ادب کے حوالے سے مٹتی ہوئی تہذیب کو زندہ رکھنے والے نابغہ روز گار شخص تھے۔آج فارسی آٹھ سو برس تک سرکاری و تمدنی زبان رہنے کے بعد بر صغیر سے مٹ رہی ہے اور ہمیں ترکی،روسی زبانوں کی طرح ایک غیر ملکی زبان محسوس ہو رہی ہے۔کون جانتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی تصانیف ،قرآن مجید کے تراجم ،تفاسیر،کتب التوریخ ،تصوف اور اخلاقیات کی شاعری اسی زبان میں تھی۔آج سے پچاس برس قبل قریباً تمام کے تمام پڑھے لکھے مسلمانوں کو فارسی پر مکمل عبور حاصل تھا لیکن موجودہ دور میں سید نصیر الدین نصیرسعدی،حافظ،عرفی کی زبان میں گفتگو کرنے والی نابغہ روز گار شخصیت تھے۔ انھوں نے شعرو ادب میں نئے اسالیب متعارف کروائے ۔وہ اہل دل تھے ،اہل وجد تھے،وہ صاحبِ جنوں تھے،ان میں خسرو کی تڑپ تھی،ان کا دل تجلی گاہ حسن تھا،وہ ایک عاشق تھے،وہ ایک محقق تھے،ایک مورخ اور ایک عالم تھے۔ ان کی زندگی جستجو اور علمی موشگافیوں سے عبارت تھی۔ان کی کئی تصانیف نے شہرت ،مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔
انھیں فارسی زبان و ادب سے خصوصی لگاؤ تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر اپنے ہاں اہل ذوق کو اکٹھا کر کے سعدی ، حافظ،بیدل،فیضی اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے۔آپ چوں کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ کی اولاد میں سے تھے اس لیے آپ نے علمی و تحقیقی ذوق ورثے میں پایا تھا۔ان کی فارسی شناسی کے حوالے سے مولانا کوثر نیازی مرحوم نے پیر صاحب پگاڑا سے تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا:’’ پہلے قافلے کے بچھڑے ہوئے ایک فرد ہیں۔‘‘
فارسی میں آپ نے’’ آغوش حیرت ‘‘کے نام سے رباعیات لکھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی رباعیات متقدین میں اساتذہ کے فکر کی ہیں۔ ان میں فارسی رباعیات پر حکومت ایران نے انھیں P H D کی ڈگری دینے کی پیشکش کی ۔آج کے گزرے دور میں ایسی رباعیاں لکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔
اے جلوہ روئے تو دوائے دل ِ من
خاک در تست مدعائے دلِ من
عمرے بکریستم برائے دلِ من
یک یار تبسم برائے دلِ من
علامہ عرشی نے ان کی شاعری کی بے حد تعریف کی ہے ۔آپ کے مداحوں میں جوش ملیح آبادی جیسے نابغہ روز گار شامل تھے۔جوش کے تتبع میںلگی بدنی لکھی۔آپ جب فارسی کے اشعار سناتے تو سماں بندھ جاتا۔درجنوں فارسی کے اشعار آپ کو زبانی یاد تھے۔جن کو موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرتے تھے۔مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی پر آپ ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔آپ نے مرزا عبدالقادر بیدل پر ۴۰۰ سو صفحات کی ایک تحریر لکھی ہے جو ابھی تک زیر ترتیب تھی۔خانہ فرہنگ ایران میں مرزا عبدالقادر بیدل پر لیکچر بھی دیتے تھے۔آپ کو مرزا عبدالقادر بید ل خلائق معانی ہیں۔آپ کو فارسی شعرا میں حضرت شیخ سعدی، مولانا رومی،حافظ،غالب،بیدل،باب طاہر عریاں ،مولانا غنیمت کنجاہی ،حضرت ابو سعید ،ابو الخیر سے بہت پیار تھا۔
اکثر شاعروں کے درجنوں اشعار یاد تھے۔اکبر الہ آبادی سے خاص انس تھا ان کا دیوان اکثر پڑھا کرتے تھے بل کہ سفر میں بھی ساتھ رکھتے تھے۔نوح ناروی کے اشعار بھی اکثر پڑھا کرتے تھے۔آپ کے دادا حضرت غلام محی الدین عرف بابو جی سرکار آپ کی شاعری کو بہت پسند فرماتے تھے۔اردو کے شعرا میں فیض احمد فیض سے متاثر تھے ،جوش ملیح آبادی کے ساتھ اکثر وقت گزارا۔اردو شاعری میں ’’پیمان ِ شب‘‘ اور دستِ نظر‘‘ کے ناموں سے دو دیوان چھوڑے۔اس کے علاوہ اردو ماہیا بھی خوبصورت طریقے سے لکھا ۔آپ بہت حاضر دماغ شخصیت کے م،الک تھے۔اکثر حاضر جوابی میں لوگوں کو مات کر دیتے تھے۔ بات سے بات نکالنے کا فن آتا تھا ۔آپ کی مجلس کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا تھا۔مجلس میں بیٹھتے تو زینت ِ محل رہتے ہمہ پہلو گفتگو فرماتے تھے۔آپ کے پاس ایک وسیع کتب خانہ موجود تھاجس میں ہزاروں کتابیں مختلف فقوں کی موجود ہیں۔مطالعہ آپ کا بہترین مشغلہ تھا۔ آپ کے پاس ہمیشہ رش لگا رہتا تھا۔ ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔فرماتے ہیں:
بساط بزم اُلٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خاموش ، سبو چُپ ، اداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے
نہ با یزید ،نہ شبلی، نہ اب جنید کوئی
نہ اب وہ سوز ،نہ آئیں نہ حاد سو خانے
پنجابی اور سرائیکی زبان میں خوبصورت شاعری کرتے تھے ۔آپ نے پنجابی ماہیے بھی کہے تھے۔ ایک چوبرگے کا آخری حصہ ملاحظہ کریں:
کرئیے شکوہ نصیر خزاں دا کیہ ساڈے باغ تو آپ بہار لٹیا
آپ ایک خوش بیان واعظ بھی تھے۔لاکھوں کے مجمع کو گھنٹوں خطاب کیا اور حیرت ہے کہ گھنٹوں خطاب کے بعد بھی لوگ اکتاہٹ محسوس نہ کرتے بل کہ انتہائی لگن سے آپ کا خطاب سنتے۔فی البدیہہ بات کرنا آپ کی خاص خوبی تھی۔شاعری آپ پر الہام کی طرح اترتی تھی۔آپ کی شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نعتیہ مشاعر ہ میں آخری شاعر آپ ہی ہوتے تھے۔ آپ کثیر مراسم شعرا سے تھے۔ہر ایک کی شاعری پر نظر تھی جن میں احمد ندیم قاسمی بطور خاص ہیں۔
سید نصیر الدین نصیرکی نعتیہ شاعری:
سید نصیر الدین نصیراپنے دور کے بڑے نعت گو شاعر ہیں۔ان کی نعتیہ شاعری روایتی طریقہ سے ہٹ کر سیرت ِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔مولانا احمد رضا خان ؒ کے مطابق نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنا ہے اس وجہ سے محدود شاعر اس صنف میں طبع آزمائی کرتے ہیں لیکن نعتیہ شاعری کے موضوعات لا محدود ہیں۔سید نصیر الدین نصیر خود فرماتے ہیں:
’’نعت کا موضوع بظاہر محدود دکھائی دیتا ہے مگر اس کا موضوع چوں کہ عظیم ہستی ہے جس میں تمام انفس و آفاق کی وسعتیں سمٹ آئی ہیں اس لیے یہ صنف شعر بھی حد درجہ لامحدود اور وسیع ہے۔‘‘ (۷)
سید نصیر الدین نصیر نے ایک ایک نعتیہ شعر کو بڑی وارفتگی پیار و محبت اور چاہت و الفت رسول ﷺ کے جذبات کے پیشِ نظر رکھ کر نعت کی لڑی میں پرویا ہے۔آج کے دور کے نعت گو شعرا اپنی پلکوں پر عقیدت کے ستارے سجائے دربار رسالت مآب ﷺ میں اپنی فکری تشخیص اور روحانی تعلق کے حوالے سے مدحت و نعت کے گلہائے رنگا رنگ نذر کرنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔سید نصیر الدین نصیراپنے عہد کے بے حد اہم نعت گو شاعر تھے۔انھوں نے پاکستان کے جن شہروں میں نعتیہ مشاعروں میں شرکت کی وہاں انھیں خصوصی عزت و تکریم سے نوازا جاتا۔اس کی وجہ ان کا ایک بڑی روحانی درگاہ سے تعلق ہی نہیں تھا بل کہ یہ حقیقت بھی تھی کہ آپ کا کلام پختگی اور معیارکے لحاظ سے اس اعلیٰ پائے کا ہوتا ۔
محبوب خدا ﷺ کی اتباع کی محویت کا رنگا رنگ عکس ان کے کلام میں پوری رعنائی و شادابی کے ساتھ نمایاں ہے۔وہ جس وارفتگی و بے ساختگی سے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی سعات حاصل کرتے ہیں۔اسی سرشاری و بے تابی سے آل ِ رسول ﷺ ،اہل بیت ،صحابہ کرام ؓاور اتبائے عظام ؒ کے حضور عقائد و جذبات کے گلہائے رنگ رنگ بھی نچھاور کرتے ہیں۔ ان کی نعتیں محسن انسانیت ﷺ سے والہانہ محبت ،عقیدت اور شیفتگی کی مظہر ہیں۔
لَو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
کشتیاں اپنی کنارے سے لگائے ہوئے ہیں
کیا وہ ڈوبے جو محمدؐ کے تیرائے ہوئے ہیں
قبر کی نیند سے اٹھنا کوئی آسان نہ تھا
ہم تو محشر میں انھیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
بوسہ ٔ در سے انھیں روک نہ تُواے دربان
خود نہیں آئے یہ مہمان بلائے ہوئے ہیں
حاضر و ناظر و نور بشر و غیب کو چھوڑ
شکر کر وہ تیرے عیبوں کو چھپائے ہوئے ہیں
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار ﷺ آئے ہوئے ہیں
ان کی نعتیہ شاعری رسماً نہیں بل کہ ان کو امام الانبیاء ﷺ سے والہانہ محبت تھی۔ سرفراز رقمطراز ہیں:
’’عشق رسول ﷺ سید نصیر الدین نصیرکو گھٹی میں ملا تھا جس کے فیض سے نعت رسول ﷺکے میدان میں بھی خود کو بہت جلد منوا لیا۔ان کی نعت میں کیف و سرور ،حکیمانہ و فقیرانہ خیالات ،عشق مصطفی ﷺاور افکار کو تصوف بنیادی حیثیت حاصل ہے۔‘‘
(۸)
سید نصیر الدین نصیر کے دل مضطرب میں رسول کریم ﷺ کا عشق بے پناہ تھا۔ ڈاکٹر ظہور احمداظہرسید نصیر الدین نصیر کی نعت گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’سید نصیر الدین نصیرگیلانی عشق رسول ﷺ میں ثابت قدم رہتے تھے۔حق گوئی و بے باکی میں اخلاص میں ،وفا میں اور مستقل مزاجی بلالی فطرت سے نوازے گئے تھے۔‘‘
(۹)
سید نصیر الدین نصیرخوش گلو بھی تھے اور اپنی کہی ہوئی نعت جب خود پڑھتے تو سامعین کو محظوظ و مسحور کر دیتے ۔کلام ترنم کے ساتھ پڑھا جائے یا تحت الفظ اپنا کلام پیش کرنے میں ان کو خاص ملکہ تھا۔انھوں نے اردو ،پنجابی،عربی اور فارسی زبان میں نعتیہ شاعری لکھی۔
فن عروض :
ایک اچھا شاعر فن عروض کا بھی ماہر ہوتا ہے کیوں کہ عروضی باریکیوںکا خیال رکھے بغیر شعر بے وزن ہو جاتا ہے لہذا ایک عمدہ شاعر کی پہچان ہی یہی ہے کہ اس کے ہاں عروضی قوانین اور رموزکا کماحقہ خیال رکھا جائے۔ سید نصیر الدین نصیرکی شاعری جہاں فکری فنی لحاظ سے قابل قدر ہے وہاں عروضی نقطہ نظر سے بھی قابل تحسین ہے کیوں کہ سید نصیر الدین نصیرکی فارسی یا اردو شاعری کا کوئی مصرعہ وزن سے خارج نہیں ہوتا ۔’’پیمان شب ‘‘کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی رقمطراز ہیں:
’’پیمان شب کی ایک اور خصوصیات یہ ہے کہ اس مجموعے کی بیشتر غزلوں کی زمینیں سید نصیر الدین نصیرکی اپنی ہیں اور بعض کی ردیفیں تو ان کی ذینی اُپج کا ایک دل چسپ ثبوت ہے ‘‘
(۱۰)
ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی لکھتے ہیں:
’’شعر ان کی گفتگو کا نمایاں تر حصہ تھا عروضی درو بست ،ردیف و قافیہ کی بندش ،شعر کی ساخت اور اسلوب ان کے ہاں اس قدر پختہ ہے کہ ان کا شمارمعاصرین میں ہی نہیں شعرا کی عمومی صف میں بھی ممتاز ہے۔‘‘
(۱۱)
علمی آثار:
سید نصیر الدین نصیرکی منظوم و منشور تصانیف کی تعداد قریباً چھبیس ہے ،منظوم تصانیف نواور منشور (نثرو مقالات)کی تعداد سترہ ہے۔سید نصیر الدین نصیرعلمی و دینی جریدہ ’’طلوع مہر‘‘کے ایڈیٹر بھی تھے۔سید نصیر الدین نصیر کی تصانیف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔۱۔ شعری تصانیف۔ ۲۔ نثری تصانیف
شعری تصانیف:
۱۔آغوش حیرت:
سید نصیر الدین نصیرکا پہلا شعری مجموعہ فارسی رباعیات پر مشتمل ہے جو ۱۹۸۲ء میں مہریہ نصیریہ ،پبلشرز گولڑہ شریف سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا عنوان مرزا عبدالقادر بیدل کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔
خیالش بر نمی تا بد شعور، ای بے خودی جو شے
نمی گنجدبہ دیدن جلوہ اس اے حیرت آغو شے
اس کتاب میں حمدو نعت و منقبت،عشق معرفت اور فلسفہ کے موضوعات پر رباعیات ملتی ہیں۔
۲۔پیمان ِ شب:
یہ سید نصیر الدین نصیر کی اردو غزلیات کا پہلا مجموعہ ہے جو پہلی بار ۱۹۸۳ء میں اور دوسری بار ۲۰۰۰ء میں مہریہ نصیریہ پبلشرزنے شائع کیا۔
۳۔دین ہمہ اوست:
یہ سید نصیر الدین نصیرکا نعتیہ مجموعہ ہے اس کی چار بار اشاعت ہوئی ہے۔یہ ۱۹۸۳ء میں پہلی بار اور آخری ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کا انتساب حضرت مہر علی شاہ ؒ کے نام ہے اس کا عنوان علامہ اقبال ؒ کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باد نہ رسیدی تمام بو لہبی است
۴۔فیض ِ نسبت:
یہ کتاب مناقب کا مجموعہ ہے اس کا انتساب ’’بہ اخبار عالم انسانیت‘‘ کے نام معنون ہے۔اس کتاب میں نبی آخر زمان ﷺ کے والد گرامی سے لے کر عصر حاضر کے اولیا تک اٹھائیس شخصیات کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔یہ تصنیف پہلی بار ۱۹۸۳ء ،دوسری بار۲۰۰۰ء اور تیسری بار ۲۰۰۴ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔
۵۔رنگ نظام:
یہ کتاب سید نصیر الدین نصیرکی اردو رباعیات کا مجموعہ ہے ،ساری رباعیات قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے منظوم تراجم ہیں۔ایک صفحہ قرآنی آیت یا حدیث عربی متن اور اس کا منظوم ترجمہ ہے۔یہ تصنیف سید نصیر الدین نصیر کا فنی شاہکار ہے یہ کتاب پہلی بار ۱۹۹۸ء اور دوسری بار ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی۔
۶۔عرش ناز:
یہ مجموعہ پہلی بار ۲۰۰۰ء میں اور دوسری بار ۲۰۰۱ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں فارسی اردو اور سرائیکی زبانوں میں متفرق کلام شامل ہے ۔اس میں منظومات کی تعداد ۸۲ ہے جس میں ۳۹ فارسی غزلیں،۱۲ پنجابی غزلیہ چوبرگے ،۱۲ خمریات شامل ہیں۔
۷۔دستِ نظر:
دست نظر سید نصیر الدین نصیرکی اردو غزلیات کا دوسرا مجموعہ ہے ۔۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۷ء تک اس مجموعے کی اشاعت چار بار ہوئی ۔
۸۔تضمینات برحضرت فاضل بریلوی:
اس کتاب میں مولانا شاہ احمد بریلوی کے کلام پر کہی گئی تضامین شامل ہے۔یہ مجموعہ اپریل ۲۰۰۵ء میں اشاعت پذیر ہوا،اس مجموعہ کی خوبی یہ ہے کہ احباب کی ضرورت کے پیش نظر ہر صفحے پر حواشی کے ذریعے مشکل الفاظ کے معانی بھی دیئے گئے ہیں۔
۹۔الرباعیات المدحیہ فی حضرہ القادریہ:
یہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی مدح میں فارسی رباعیات کا مجموعہ ہے اس کی پہلی اشاعت ۲۰۰۷ء میں ہوئی اور اس میںکل ۲۱۱ رباعیات شامل ہیں۔
۱۰۔امام ابو حنیفہ کا طرز استدلال:
یہ کتاب ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی اس میں امام ابو حنیفہ کے علمی و فقہی مقام و مرتبہ علوم اسلامہ اور فقہ کے بارے میں طویل بحث ہے۔
۱۱۔نام و نسب:
’’نام و نسب ‘‘سید نصیر الدین نصیرکا علمی و تحقیقی شاہکار ہے اس کتاب کا انتساب حضرت فاطمہ الزہرا ؓ اور ان کی ذریت کے نام ہے۔ اس کتاب کی اشاعت ۲۰۱۱ء تک چار بار ہو چکی ہے اس میں مرکزی موضوع سیادت شیخ عبدالقادر جیلانی کا اثبات اور تحقیقی ثبوت ہے اس کے علاوہ اس میں نکاح سیدہ کی شرعی حیثیت اور شیعہ اور خوارج کے عقائد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
۱۲۔راہ رسم ِ منزل ہا:
ٰ یہ کتاب ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آئی۔اس کتاب میں تصوف اور عصری مسائل کے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔اس کا دیباچہ’’کلمہ آغاز‘‘ کے عنوان سے سید نصیر الدین نصیرنے خود لکھا ہے اس کا عنوان حافظ شیرازی کے درج ذیل شعر سے لیا گیا ہے :
بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبودز راہ و رسم منزل ہا
۱۳۔ اعانت و استقامت کی شرعی حیثیت:
اس کتاب میں اثبات توحید اور رد شرک کے لیے دلائل قاطعہ کو بیان کیا گیا ہے اس کی اشاعت تیسری بار ۲۰۰۹ء میں ہوئی۔
۱۴۔لطمۃ الغیب علیٰ اِرالۃ الریب:
یہ کتاب ۲۰۰۳ء میں دوسری بار شائع ہوئی ۔اس کتاب میں مذہبی مسائل اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے معترضین کے مدلل جواب دیئے گئے ہیں۔
۱۵۔الجواھد التوحید فی تعلیمات الغوثیہ:
یہ تصنیف شیخ عبدالقادر جیلانی کے شخصی خصائل کرامات اور آپ کے افکار و تعلیماتکے موضوعات پر مشتمل ہے۔
۱۶۔لفظ اللہ کی تحقیق:
اس مقالے میں سید نصیر الدین نصیرنے لفظ اللہ کے لغوی اور اصطلاحی مفاہیم پر تحقیقی کی ہے اور لفظ اللہ کے استعمال میں فرق واضح کیا ہے۔
۱۷۔اسلام میں شاعری کی حیثیت:
اس مقالے میں سید نصیر الدین نصیرنے شاعری کے اس حقیقی تصور کو اجاگر کیا ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے ۔بلا شبہ یہ ایک منفرد تحقیق کا حامل ہے۔
۱۸۔قرآن کے آداب تلاوت:
اس مقالے میں دلچسپی لینے والوں کے لیے یہ مقالہ ایک نایاب تحفہ ہے،اس مقالے میں سید نصیر الدین نصیرنے قرآن مجید کی شان تحریر کرتے ہوئے حقیقی آداب تلاوت کو موضوع خاص کیا ہے ،محبان قرآن مجید کے لیے یہ ارمغان علمی ہے۔
۱۹۔کیا ابلیس عالم تھا:
صوفیا کا ایک گروہ ابلیس کے حوالے سے کچھ خاص نظریات رکھتا ہے یہ گروہ ابلیس کے علم کے بارے میں بھی بہت کچھ کہتا ہے ۔سید نصیر الدین نصیرکے مقالے میں اس حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور اہل حق کی راہنمائی کی گئی ہے۔
۲۰۔موازنہ علم وکرامت:
اس مقالے میں انھوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ حقیقی عظمت کا معیار محض کرامات نہیں بل کہ علم نافع ہے اس کی مثال میں ان لوگوں کو رد کیا گیا ہے جو محض کرامات بیان کرتے ہیں اور علمی شواہدمیں دلچسپی نہیں لیتے۔
۲۱۔آئینہ شریعت میں پیری مریدی:
اس مقالے میںسید نصیر الدین نصیرنے بیعت کی ضرورت و اہمیت ،پیرومرید کا تعلق اور بالخصوص پیر کے لیے ان ضروری صفات کو بیان کیا گیا ہے جو کسی بھی صاحب طریقت شخصیت کا خاصہ ہونی چاہیں۔
۲۲۔حضرت پیران پیر کی شخصیت ،سیرت اور تعلیمات:
جیسا کہ عنوان سے واضح ہے کہ اس مقالے میں انھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی کے اخلاق و عادات کو بیان کیا ہے ۔ان کی سیرت و تعلیمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسلام کے اساسی نظریات پر بھی نظر ڈالی ہے،
۲۳۔فتویٰ نویسی کے آداب:
فی زمانہ عموماً ہر شخص دوسرے کو اپنے فتویٰ سے نوازتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ فتویٰ دینے کے اہل ہے بھی کہ نہیں ۔سید نصیر الدین نصیرنے اس مقالے میں فتویٰ دینے کے اہل علما کی خوصوصیات بتاتے ہوئے فتویٰ دینے کے عمومی قوائد و ضوابط تحریر کیے ہین ۔یہ کتاب علما کے لیے سوغات سے کم نہیں ہے۔
۲۴۔طریقہ الفلاح فی مسئلہ الکفو النکاح:
یہ ایک فقہی رسالہ ہے جس میں نکاح کے مسائل پر بحث کرتے ہوئے سیدہ اور غیر سید کے نکاح کو شرعی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔
۲۵۔پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں:
اس مقالے میں ۸/ اکتوبر۲۰۰۵ء کو پاکستان میں آنے والے ہولناک زلزلے کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کی شوکت پارینہ اور عہد حاضر میں ان کے زوال کے اسباب کا جائزہ لیا ہے تا کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے درست سمت کا تعین کیا جا سکے۔
سید نصیر الدین نصیرؔ کی غزلیات کا موضوعاتی جائزہ:
سید نصیر الدین نصیر بنیادی طور پر حمد ونعت کے شاعر ہیں ۔ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری رباعی ،مخمس، مسدس، قطعہ، مثنوی، ترجیع بند اور ماہیا کی ہیئتوں میں موجود ہے لیکن ان کا بیشتر حمدیہ کلام غزل کی ہیئت میں ہی ہے۔ان کی غزلیات کے دونوں مجموعوں (پیمان شب ،دست نظر) میں حمدیہ و نعتیہ شاعری کی جھلک جا بجا دکھائی دیتی ہے انھیں آقا علیہ السلام اورآل و اصحاب سے عشق تھا ۔عشق رسول ﷺ ان کی رگ رگ رچا بسا تھا۔وہ حضرت حسان بن ثابت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر دن،ہر ساعت حضور اقدس ﷺ کی مدح سرائی میں ڈوبے رہے ۔سید نصیر الدین نصیرکی نعت ان کے جوش ِ تمنا کی مظہر ہے اور یہ جوش پورے جمال کے ساتھ ان کی غزلیات میں نمایا ںہے۔
تمام مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ دوام اور بقا صرف ذاتِ حق کو ہے اور ازل ،ابد موجود و عدم ذاتَ حق کے ساتھ مختص ہیں۔ عرب و عجم اور زمین و آسمان پر اسی کی حکومت ہے ،وہی قادر مطلق ہے اس کی عکاسی ’’دست نظر‘‘ کی پہلی حمدیہ غزل میں کی گئی ہے۔
یہ ماضی،حال،مستقبل فقط کہنے کو ہیں میرے
ازل تیرا ابد تیا یہ موجود و عدم تیرا
الہٰ العالمین تو ہے بشر تیرے ،ملک تیرے
زمیں تیری ،فلک تیرا ،عرب تیرا عجم تیرا
مسلمانوں کا یہ بھی اعتقاد ِ مصمم ہے کہ وجہ تخلیق کائنات آقائے دوعالم حضرت محمد ﷺکی ذات با برکات ہی سے بپا ہے ۔اس کا مظاہرہ غزلیات سید نصیر الدین نصیرکے ان اشعار میں عیاں ہے۔
مہر انور میں ہے تمھاری ضیا
حسن ماہِ تمام تم سے ہے
تم ہو بنیاد دونوں عالم کی
دو جہاں کا قیام تم سے ہے
سید نصیر الدین نصیرکی غزلیات میں آقائے دو جہان ﷺ کی صفات و کمال اور حسن لازوال کے تذکرے سنائی دیتے ہیں۔
اللہ اللہ مجاز حقیقت نما
وہ بشر ہے کہ تصویر ہے ذات کی
آقائے دو جہاں ﷺ کے گیسو مبارک اور رُخ تاباں کا تذکرہ ملاحظہ ہو:
جلوہ ٔ رُخ ہے پر تورحمت
سایہ گیسو ظلِ الہٰی
عطائے ذات حق سے آپ ﷺ کے علیم و خبیرہونے کی خصوصیت کا رنگ سید نصیر الدین نصیرکی غزلیات میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
انھیں میرے اچھے بُرے کی خبر ہے
وہ سب کچھ خدا کی قسم جانتے ہیں
حضور نبی اکرم ﷺ کے جاہ وجلال،عظمت و رفعت اور تصرفات دائمی کا بیان ’’دست نظر‘‘ کے ان اشعار سے نمایاں ہے۔
زیبا ہے سروری تمھیں خوبان ِدہر کی
زیر نگیں تمھارے زمین و زمن رہے
یوم قیامت ،شفاعت محمدی ﷺ پر ایمان و القان ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے ۔سید نصیر الدین نصیربھی اس عقیدے کے مکمل داعی نظر آتے ہیں ۔ان کے اشعار میں آپ ﷺ کے شافع محشر ہونے آپ ﷺ کی بارگاہ میں گریہ و زاری ،ندامت و شرمندگی سے اعترافِ گناہ اور بخشش و شفاعت کی طلب و آبرو جیسے نوضوعات ملتے ہیں۔
در پہ حاضر ہے تیرے آج نصیر عاصی
تیرا مجرم،تیرا شرمندہ ٔ احساں جاناں
سید نصیر الدین نصیر کا معروف روحانی علمی خانوادے کے ساتھ نسبی تعلق ہونے کے علاوہ ان کا ایک اور تعارف ان کا شاعرانہ تشخص ہے۔ وہ اردو اور فارسی کے بہترین شاعر ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی شاعری فارسی اور اردو کلاسیکی روایت کے ساتھ بڑی مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے لیکن کلاسیکی روایت کے ساتھ ساتھ جدت و انفرادیت اور نئے نئے موضوعات بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔پیمان شب اور دست نظر ان کی اردو غزلیات کے دو مجموعے ہیں ۔ان کے کلام میں حافظ شیرازی مسعدی شیرازی اور بیدل کا رنگ نمایاں ہے علاوہ ازیں اردو کے عظیم شعرا جیسے میر،سودا،داغ اور اقبال کے اثرات بھی ان کے کلام پائے جاتے ہیں۔بعض ازیں پنجابی صوفی شعرا جیسے وارث شاہؒ،بلھے شاہؒ،اور پیر مہر علی شاہؒ کے اثرات بھی اپنی چھب دکھاتے ہیں۔
عشق و محبت کے لازوال موضوعات سید نصیر الدین نصیرکی غزلیات کا حصہ ہیں اور ان میں جذبات اور واردات ِ قلبی نمایاں اوصاف ہیں جو ایک عاشق صادق اور ٖوفی مزاج کا جوہر ہوتے ہیں۔ عارفانہ سرمستی وہ کلاسیکی روایت ہے جس کا آغاز ولی دکنی سے ہوا۔میر تقی میر،میر درد،،مرزا غالب اوراصغر گونڈوی تک آتے ہوئے اس میں مزید روحانی ترفع پیدا ہوا اور اقبال ؒ نے اس کو بام عروج تک پہنچایا لیکن جدید شعرا کے کلام میں تصوف و عرفان کی کلاسیکی روایت کمزور نظر آتی ہے جب کہ سید نصیر الدین نصیراس کلاسیکی روایت کو کہیں نظر انداز نہیں کرتے ۔انھوں نے اسے اپنے خون جگر سے سینچ کر اس میں فقیرانہ عجز اور درویشانہ بے نیازی کے ساتھ خصوصی انفرادیت پیدا کر دی ہے۔
سید نصیر الدین نصیرنے اقبالؒ کی پیروی کرتے ہوئے غزل میں حمدیہ و نعتیہ اشعار رقم کیے ہیں بل کہ بعض پوری پوری غزلیں حمدیہ و نعتیہ ہیں۔ان کی غزل میں حمدیہ رنگ اور تصوف کا کامل روایت اقبال ؒ کی پیروی میں ہے۔اس کی ایک اہم وجہ ان کی تربیت بھی ہے ۔اقبالؒ کی طرح ان کی تربیت اور ابتدائی تعلیم کا آغاز مسجد و مکتب سے ہوا۔سید نصیر الدین نصیرکی غزل میں تربیت ،پاکیزہ خیالی،تزکیہ باطن اور سماجی موضوعات کثرت سے موجود ہیں۔ زاہد و ناصح ،شیخ و پارسا ،جام و سبو،مے خانہ و میکدہ اور شراب معرفت کے پینے کے تذکرے بھی ان کی غزل میں نمایاں ہیں۔حسن و عشق کی وارداتیں ،عشق میں صداقت و سچائی اور کبھی کبھی عاشق کے دھیمے ، تیکھے شکوے بھی ان کی غزل کا حصہ ہیں غرض کہ ان موضوعات کا رنگا رنگ جہان آباد ہے۔
ان کی غزلیات کے دونوں مجموعوں ( پیمان شب،دست نظر) میں حمدیہ و نعتیہ شاعری کی جھلک جا بجا دکھائی دیتی ہے انھیںعشق مصطفی ﷺان کی رگ رگ اور ہر سانس میں رچا بسا تھا۔وہ حضرت حسان بن ثابت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر دن ،ہر ساعت حضور ﷺ کی مدح سرائی میں ڈوبے رہتے۔
٭٭٭٭٭
حوالہ جات
۱۔ سجاد احمد سیال،’’ عہد ساز شخصیت‘‘ مشمولہ ،طلوع مہر،گولڑہ شریف،اسلام آباد،۱۴۳۲ھ ،ص ۷۱
۲۔ نعیم الدین چشتی،حضرت پیر نصیرالدین نصیر۔۔ایک نابغہ روزگار شخصیت،مشمولہ ،طلوع مہر،گولڑہ شریف،اسلام آباد، ۱۴۳۰ھ ،ص۱۱۲
۳۔ محبوب الرسول قادری،انٹرویونصیر الدین نصیر،مشمولہ ،طلوع مہر،گولڑہ شریف،اسلام آباد،۱۴۳۰ھ ،ص۹۳
۴۔ نصیر الدین نصیر’’رنگ نظام ‘‘مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۱۹۹۸ئ،ص ۱
۵۔ نصیر الدین نصیر’’راہ رسم منزل ہا ‘‘مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۱۹۹۵ئ،ص ۱
۶۔ نصیر الدین نصیر’’حرف گفتنی ‘ ‘مشمولہ پیمان شب،مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۱۹۹۸ئ،ص ۱۵
۷۔ نصیر الدین نصیر’’دیں ہمہ اوست ‘‘مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۲۰۰۹ئ،ص ۱۶
۸۔ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر،وہ فطرت میںبلالی تھے‘‘مشمولہ ،طلوع مہر،گولڑہ شریف،اسلام آباد،۱۴۳۲ھ ،ص ۶۷
۹۔ ایضاً،ص ۶۷
۱۰۔ احمد ندیم قاسمی’’پیمان شب کا ایک تاثر‘‘مشمولہ پیمان شب،مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۱۹۹۸ئ،ص ۲۸
۱۱۔ ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی،’’نصیر الدین نصیر۔۔ایک ہمہ گیر شخصیت‘‘مشمولہ نذر نصیر گیلانی،مہریہ نصیریہ پبلشرز،اسلام آباد،۱۹۹۸ئ،ص۲۵۸