شہر نعت فیصل آباد سے متعلق درویش منش شاعر پیر آصف بشیر چشتی کا نام فروغ نعت اور فروغِ عشقِ رسول ﷺ کے حوالے سے معتبر مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔فروغ نعت کے سلسلہ میں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔۔ پیر آصف بشیر چشتی 7/ نومبر 1943ء کو رسول پور تحصیل پھلور ضلع جالندھر ہندوستان میں دین محمّد کے گھر پیدا ہوۓ ۔والدین نے ان کا نام بشیر احمد رکھا ، آصف تخلص کرتے تھے ۔خانقاہی گھرانے سے تعلق تھا ۔اسی وجہ سے اپنے نام پیر آصف بشیر چشتی سے جانے جاتے تھے ۔ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔انٹر اور گریجویشن کے امتحانات گورنمنٹ اسلامیہ کالج فیصل آباد سے پاس کیے ۔انہوں نے قریبا 15 برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔۔کچھ عرصہ جامعہ چشتیہ ہائی سکول میں مدرس رہے پھر اپنا ایک پرائیویٹ سکول قائم کر کے تادم مرگ اس سے منسلک رہے۔۔آپ ایک نیک سیرت، حلیم طبع ،خودداری اور خدمت انسانی کے جذبہ سے سرشار رہنے والے انسان تھے۔آپ ایک با شریعت اور اہل طریقت انسان تھے۔آپ کی زندگی میں ایک ارتقا نظر آتا ہے جو مجاز سے حقیقت کی طرف ہے ۔جب مرشد کی ارادت میں داخل ہوئے تو غزل کو چھوڑ دیا اور نعت گوئی کو اپنی پہچان بنا لیا اور “شاعر نعت” کے نام سے پہچانے جانے لگے ۔انہوں نے صوفیا کی محبت اور مرشد کی ارادت کے باعث شریعت ، طریقت، حقیقت اور معرفت کو اپنائے ہوئے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رسائی حاصل کی ہے۔
یہ خدا کا خاص تجھ پرہے کرم آصف بشیرؔ
شاہِ دیں ﷺکا نعت گو ہونا بڑا اعزاز ہے
حدِ قوسین سے ہالہ ٔ قوسین تک نعت ہی نعت ہو
ماہِ اقرا کے جلووں سے ایوانِ قلب و جگر کھول دے
پیر آصف بشیر چشتی ؒ کی کوششوں سے فیصل آباد شہرِ نعت کہلایا جب انہوں نے ۱۹۹۰ میں ’’ شہرِ نعت ‘‘ کے نام سے ۳۱۳ شعرائے کرام کے نعتیہ کلام پر مشتمل انتخاب شائع کیا جس میں فیصل آباد ڈویژن کے تمام نعت گو شعرائے کرام کو شامل کیا گیا۔ پھر ۱۹۹۰ کی دہائی ہی میں مجلس معین ادب قائم کی اور ماہانہ نعتیہ مشاعروں کا سلسلہ شروع کیا۔جس میں ملک بھر کے جید اور ثقہ نعت گو شعرائے کرام نے شرکت فرمائی۔ اسی مجلس کے تحت انہوں نے’’ ماہنامہ شہرنعت ‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔اپنا نعتیہ مجموعہ کلام ’’ خلدِ نعت ‘‘ کے نام سے شائع کیا جسے ملک بھر میں پذیرائی ملی۔ بشیر احمد مسعود، میاں منیر احمد منیر، محمد سرور قمر قادری اور دیگر کو شعرائے نعت بنایا۔چشتیہ دربار اسلامیہ پارک چباں
“نعت کدہ” بن گیا۔17جنوری 2012ء کو انتقال فرماگئےتھے
۔پروفیسر ریاض احمد قادری کا پیر آصف بشیر چشتی کو منظوم خراج عقیدت:
رہنمائے حقیقت و عرفان پیر آصف بشیر چشتی تھے
سلسلہ چشتیہ کی آن و بان پیر آصف بشیر چشتی تھے
فیصل آباد شہر کے ارباب فکر و فن میں پیر آصف بشیر چشتی کا مقام بہت نمایاں ہے ۔ان کی بنیادی پہچان نعت ہے تاہم انہوں نے قوالی ، منقبت اور غزل( اردو ، پنجابی )کے میدان میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں اور محنت و صلاحیت کی بنا پر انہوں نے شاعری میں اپنا مقام و مرتبہ بنایا ہے ۔ان کی پانچ کتب تین شاعری اور دو نثری زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔۔ان کی نعتیہ شاعری نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت اور عقیدت و احترام سے عبارت ہے۔شرعی حدود میں رہ کر نعت لکھتے رہے ۔۔جذبے کو عقل پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ نعت کہنے کے لیے قرآن و حدیث سے بھی براہ راست احتساب کرتے رہے۔ان کے بہت سے نعتیہ اشعار قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی ترجمانی کرتے ہیں جن سے ان کا مذہبی استدلال اور دین اسلام کی تفہیم کا زاویہ سامنے آتا ہے ،۔اسلامی نظریہ حیات، اسلامی نظریات اصول و قوانین کو بھی نعت کا حصہ بناتے ہیں ۔یوں نعت نبی محتشم رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدحت سرائی کے علاوہ دین اسلام کی تفہیم اور تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔انہوں نے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمایاں خدوخال کو بیشتر نعتوں میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اس چیز نے ان کو بیشتر نعت گو شعراء سے ممتاز کر دیا ہے ۔
پیر آصف بشیر چشتی نے نعت کہتے ہوئے نعت گوئی کے آداب بھی مقرر کیے ہیں کہ نعت گوئی کے منصب سے عہدہ براء ہونے کے لیے کن اصول و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے اور نعت کہتے ہوئے کون سی ذمہ داریاں نعت گو پر عائد ہوتی ہیں ۔۔
کیونکہ اگر شرعی تقاضوں سے مکمل آگاہی نہ ہوگی تو شاعر کے بھٹکنے کا احتمال رہے گا ۔۔نعت کے میدان میں احتیاط ہر شے پر لازم ہے ۔جس کی آصف بشیر چشتی نے اہمیت واضح کی ہے۔۔کیونکہ اگر نعت گو مدحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمن میں حد سے متجاوز ہوگا تو الہیت کی حدود میں داخل ہونے کا ڈر ہے اور اگر کمی کرے گا تو بے ادبی کا مرتکب ہوگا ۔دونوں کے اس فرق کو سمجھنا نعت گو کا اولین فرض ہے ۔آصف بشیر چشتی نے اس پہلو پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
انہوں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے متنوع پہلوؤں اور اسلام کی نمایاں جہات و خصوصیات کو نعت کا حصہ بنایا ہے۔۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے عرب کی معاشرتی زندگی کی جاندار تصویر کشی کی ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی غرض و غایت ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلی حسب و نسب نہایت محبت عقیدت و احترام سے بیان کیا ہے۔۔
حسن صورت اور حسن سیرت دونوں کے بیان میں احتیاط پسندی اور شعری مہارت کا خوبصورت ثبوت دیا ہے۔۔انہوں نے نعت کے مروجہ اسالیب اور موضوعات کی پاسداری کی ہے ۔۔اسمائے نبی ، نور نبی کا ذکر ، واقعہ معراج کا ذکر ، معجزات کا ذکر ، ولادت کا ذکر ایسے موضوعات ہیں جو ابتدا سے ہی نعت کا حصہ ہیں ۔اردو میں نور ناموں ، معراج ناموں، معجزات ناموں اور مولود ناموں کی روایت اردو زبان کے آغاز سے ہی موجود ہے۔۔
پیر آصف بشیر چشتی نے بھی اس تسلسل کو متفرق نعتیہ اشعار کی صورت میں آگے بڑھایا ہے۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت و اخوت ، مساوات انسانی، عظمت انسانی ، عدل و انصاف ،حق و صداقت، عفوو درگزری کے جو اسباق انسانیت کو ذہن نشین کرائے ،آصف بشیر چشتی نے ان کو اپنے نعتیہ کلام میں نہایت خوبصورتی سے نظم کیا ہے۔نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے متعلقہ جملہ آثار و اشخاص مثلا اہل بیت اطہار ، اصحاب رسول، مدینۃ النبی ، روزۃ الرسول کا جس محبت و عقیدت کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے ان کے عشق رسول کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وجہ تخلیق کائنات اور مثالی خلق عظیم کے حامل تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کامل ہونے ،سراپا رحمت ہونے ، خاتم النبیین کے اوصاف کو انہوں نے نعت میں عشق و محبت سے بیان کیا ہے۔۔جس سے ان کے نعتیہ کلام میں تنوع پیدا ہو گیا ہے۔۔
نعت گوئی کے ضمن میں آصف بشیر چشتی نے فنی سطح پر بھی مہارت شعری و ہنری کا ثبوت دیا ہے۔ان کے کلام سے ان کی قادر الکلامی ظاہر ہوتی ہے ۔عروض پر ان کی دسترس اور زبان و بیان پر عبور ہونے پر ان کے کلام کے مطالعے سے قاری متاثر ہوتا ہے۔علم وبیان کی خوبیوں اور صنایع بدایع کے استعمال نے ان کے کلام کی شعری لطافتوں اور خوبیوں میں اضافہ کیا ہے ۔ ۔تشبیہ و استعارہ مجاز مرسل اور کنایہ کے استعمال میں احتیاط پسندی کا ثبوت دیا ہے ۔ایسی تشبیہات و استعارات کو نہیں برتا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سے فروتر ہیں۔۔
آصف بشیر چشتی نے بناوٹ اور تصنع سے اپنے اشعار کو بچایا ہے ۔
مجموعی طور پر ان کا نعتیہ کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے والہانہ وابستگی اور عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ پیر آصف بشیر چشتی کی نثری تحریریں بھی جمالیاتی رنگ کی حامل ہیں۔۔۔۔ فیصل آباد کو “شہر نعت” بنانے کا اہم کردار بھی انہوں نے ادا کیا ہے۔۔
ڈاکٹر شبیر احمد قادری کا کہنا ہے کہ “پیر آصف بشیر چشتی وہ محبوب ہستی ہیں جو ہمیں ایک لمحہ بھی نہیں بھولتے۔ان کی فروغِ نعت کی خدمات نہایت شاندار ہیں۔ ان کی مجلس معین ادب، ’’ شہرِ نعت‘‘ اور “ماہنامہ شہرِ نعت” کے ذریعے اس شہر کا نام پوری دنیا میں شہرِ نعت مشہور ہو گیا۔ان کے صاحب زادے اور ان کے جانشین صاحبزادہ تنویر آصف چشتی ان کے مشن کو آگے لے کے بڑھے ہیں”۔
مادّی تصورِ حیات کے غلبے کے اس دور میں فروغِ عشقِ رسول ﷺ وقت کی اَہم ضرورت ہے۔ ہر اُمتی کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ذہنی، فکری، عملی، قلبی، حُبّی اور روحانی تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ حقیقت نفس الامری یہ ہے کہ جب اِنسان کسی دینی شخصیت کی تعلیمات کو ذہنی اور فکری طور پر قبول کر لیتا ہے اور وہ اس کے رگ و پے میں لہو بن کر گردش کرنے لگتی ہیں تو اِس سے اُس کے اَفکار و نظریات میں نکھار، بہار، جمال، رعنائی، توانائی اور تقویت پیدا ہوتی ہے۔ اَفکار و نظریات میں اِن اَوصاف کی نمو پذیری سے جو توانائی اور تقویت پیدا ہوتی ہے، اُس کے بطن سے ہی عقیدے کی تولید و تشکیل اور تجسیم ہوتی ہے۔ جب ہم کسی دینی ہستی کی ذات، صفات، اَعمال، اُسوہ، سیرت، سنت اور طرزِ عمل کو اپناتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر اِطاعت کا عندیہ اور داعیہ پیدا ہوتا ہے جو فریضہ اِطاعت کی تکمیل میں ممدومعاون ہوتا ہے۔
جب ہم کسی ذات اور ہستی سے شدید محبت کرتے ہیں تو اُس ہستی سے قلبی و روحانی تعلق کا استوار ہونا ایک فطری اَمر ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات سے ہمارے گہرے تعلق کی کلیّت کا تقاضا ہے کہ ہمارے اَفکار و نظریات بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے اَقوال، اَعمال، اَحوال، اَخلاق اور اُسوہ حسنہ کی کامل متابعت کے آئینہ دار ہوں اور زندگی کی ہر سانس، ہر شعبے اور ہر میدان میں آپ ﷺ کی پیروی ہمارا شعارِ زندگی بن جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اَمر بھی اَز بس ضروری ہے کہ ہمارے قلبی، عشقی، روحانی اور حُبّی جذبات اور کیفیات کا ناتا بھی آپ ﷺ کی ذات و صفات سے کلی طور پر منسلک ہو۔ یہی وہ طریقہ ہے جو آپ ﷺ سے ہمارے عشقِ حقیقی کے تعلق کی استواری و آب یاری کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے پیر آصف بشیر چشتی نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت کو عام کیا اور فروغ نعت میں زندگی کا ایک ایک سانس وقف کی رکھا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کا نام آج بھیاسی عقیدت و احترام اور محبت سے یاد کیا جاتا ہے ۔پیر آصف بشیر چشتی ایک سچے عاشق رسول اور پیکر عجز و انکسار تھے۔وہ اپنے ہر ملنے والے سے نہایت عاجزی کے ساتھ ملتے تو محبت کا عطرفشاں جھونکا قلب و روح کومعطر کیا جاتا۔۔۔
ڈاکٹر محمد اقبال ناز نے پیر آصف بشیر چشتی کو یوں منظوم نذرانہ پیش کیا ۔
پیروں میں پیرِ کامل ، آصف بشیر چشتیؒ
تھے عارفوں میں شامل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
پورے خلوصِ دل سے ، لوگوں کے کام آتے
شفّاف دل کے حامل ، آصف بشیر چشتیؒ
___________
چالیس دن مسلسل ، آیات پاک پڑھ کر
بن جاتے ان کے عامل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
روحانیت کی خاطر ، حجرے کی خلوتوں میں
کرتے ادا نوافل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
نوری علوم و فن کی ، ہر بات جانتے تھے
بالغ نظر و عاقل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
آسیب و جن زدہ کے ، تعویز اور دم سے
کرتے تھے حل مسائل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
پڑھ کر قوی عزیمت ، جنّات کے اثر کو
کر دیتے فوری زائل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
باریک بیں عروضی ، سب جانتے تھے کیا ہیں
مستفعلُن مفاعل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
ہر قسم و ہر طرح کے ، اشعار کہہ وہ لیتے
شاعر تھے وَر سٹائل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
نعتوں کے شعروں میں تو ، اکثر بیان کرتے
سرکار ﷺ کے فضائل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
دربارِ چشتیہ پر ، سالانہ و ماہانہ
کرواتے تھے محافل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
محفل میں آنے والے ، سارے ہی شاعروں سے
ملتے تھے وِد سمائل ، آصف بشیر چشتیؒ
__________
دل موہ لینے والے ، اندازِ گفتگو سے
کر لیتے سب کو قائل ، آصف بشیر چشتیؒ
___________
مہمان شاعروں کی ، خدمت گزاریوں سے
رہتے کبھی نہ غافل ، آصف بشیر چشتیؒ
_____________
بے وزن شعر سن کر ، با وزن کر وہ دیتے
اصلاح کارِ کامل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
سَن دو ہزار دس میں ، عمرہ بھی کر کے آئے
سب چھوڑ کر مشاغل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
سَن دو ہزار بارہ ، کی سترہ جنوری کو
ﷲَ سے گئے مل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
خواہش کے ہی مطابق ، دفنا دیے گئے ہیں
والد کے بالمقابل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________
گدّی نشین اپنا ، تنویر کو بنا گئے
بیٹوں کو کر کے قائل ، آصف بشیر چشتیؒ
_________