(Last Updated On: )
فطرت میں رنگین چیزوں جیسا کچھ نہیں ھے۔ فطرت میں صرف فوٹانز ہیں۔ جن کی توانائی انکی فریکوئنسی کے متناسب ہوتی ھے۔ توانائی کا یہ فوٹان جب انسانی آنکھ کے ریٹینا سے پردہ بصارت کی طرف بڑھتا ھے تو اس کا واسطہ دو طرح کے خلیات سے پڑتا ھے(cones) اور (rods )
قریبا 120 میلن حساس ترین خلیوں سے آنکھ کا پیچھلا حصہ رٹینا Retina بنا ہوا ہوتا ہے ۔ ان میں تقریبا 6 سے 7 ملین خلیے جن کو کون Cones کہا جاتا ہے انکا کام صرف مختلف رنگوں کی پہچان ہے اور اردگرد دوسری چیزیں دیکھنا ۔ باقی کے + 110 ملین خلیوں کو راڈز Rods کہا جاتا ہے ۔ ان کا کام اندھیرے میں دیکھنا ، کالے رنگ اور سفید رنگ میں تمیز کرنا ہے
کونز تین طرح کی ہوتی ہیں۔ سرخ، نیلی اور سبز، یہ روشنی( white light) کے لئے کم حساس ہوتی ہیں جبکہ روڈز دھندلکے یا کم روشنی میں بصارت کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اگر فوٹان کی فریکوئنسی آنکھ میں موجود کونز کی ٹرگر فریکوئنسی کے برابر ہو تو انسانی آنکھ اسے جذب کرکے ایک برقی پیغام کی شکل میں دماغ تک پہنچاتی ھے جو اسے ایک مخصوص رنگ کی صورت میں محسوس کرتا ھے۔
اگر اتفاق سے آنکھ میں سرخ اور سبز سپیکٹرم ( روشنی جب ریفلیکٹ کرتی ھے رنگوں کا سپیکٹرم بناتی ھے) کے فوٹانز بیک وقت داخل ہوں تو ہمارا دماغ انہیں الگ الگ شناخت کرنے کے بجائے ایک نئے رنگ کی صورت محسوس کرتا ھے۔ جسے ہم زرد رنگ کہتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں بنیادی رنگ مل کر جب نیا رنگ بناتے ہیں تو اٹامک لیول پر وہ الگ الگ ہی رہتے ہیں یعنی انسانی آنکھ کی ریزولیوشن اتنی نہیں ہوتی کہ انہیں الگ الگ پہچان سکے۔
جب ایک پیلے رنگ کےکیلے سے روشنی آنکھ میں موجود کونز سے ٹکراتی ہے، تو یہ انہیں مختلف ڈگریوں تک تحریک دیتی ہے۔ نتیجے میں آنے والے سگنل کو آپٹک اعصاب کے ساتھ دماغ کے اس حصے جسکو ہم ویژول کورٹیکس Visual cortex تک پہنچایا جاتا ہے، جو معلومات پر کارروائی کرتا ہے اور ایک اس رنگ سے واپس آتا ہے جو کہ کیلے کا رنگ ہے یعنی پیلا۔
مزید بہتر اس عمل کو سمجھنا ہے تو یہ سمجھیے کہ خالص پیلے رنگ کی روشنی جب اس جسم سے ٹکرا کر ہماری آنکھوں میں داخل ہوگی تو وہ سرخ کون کو تھوڑا سا، سبز کون کو بھی تھوڑا سا، اور نیلے رنگ کے کون کو تقریباً کچھ بھی نہیں ایکسائیٹ کرے گی۔ ہمارے دماغوں نے “سرخ اور سبز ایک جیسے اور کوئی نیلا نہیں” کے سگنل تناسب کو “زرد پن” کے تجریدی احساس کے طور پر اسطرح منسلک کردیتا ہے۔
زرد یا پیلا رنگ اسکا مطلب ہمارے طاقتور دماغ کی پیدوار ہے، جسکو انسان اور کچھ پرائیمیٹ ہی دیکھ سکتے ہیں۔
کونز کا کام رنگوں کو ڈیٹیکٹ کرنا ہے جس کے لیے بہت سے فوٹانز کی ضرورت ہوتی ہے – راڈز کا کام روشنی کے تمام فوٹانز ڈیٹیکٹ کرنا ہے اور یہ بہت کم فوٹانز بھی ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں لیکن یہ ان کے رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتے – اسی وجہ سے کم روشنی میں رنگوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے
گویا رنگوں کا تصور انسانی ذہن کی پیداوار ھے۔ اٹامک لیول پر رنگوں جیسا کچھ نہیں ھے۔
تحریر و تحقیق: حمیر یوسف