بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
پیلے پھندے یا ٹریپ
کئی قسم کے کیڑوں کی اجناس مثلاَ ( تیلی، سفید سنڈی، بھنورے اور پتنگے وغیرہ) پیلے رنگ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اگر ان پیلے پھندوں کو فصل کے بیچ لگایا جائے تو ایسے تمام کیڑے ان پیلے پھندوں کی طرف راغب ہوں گے اور ان پیلے پھندوں پر لگائی گئی گلیو سے چپک جائیں گے اور مر جائیں گے۔ یہ پیلے پھندے اڑنے والے کیڑوں کی آبادیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہم کسی بھی کھیت میں ان کو لگا کر وہاں پر کیڑوں کی آبادیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور کوئی خطرات نظر آئیں تو ان کو حل کیا جا سکتا ہےَ
اگر ہم ان پیلے پھندوں سے مکمل فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو چند اصولوں کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایسی فصلیں جو لمبی ہوتی ہیں جیسا کہ کھیرے، ٹماٹر، اور مرچوں کی فصلیں، وہاں پیلے پھندوں کو پودوں کے سر سے اوپر لگانا ہوگا اور جیسے جیسے پودیں بڑھے ہوتے جائیں گے ان پیلے پھندوں کو بھی مسلسل اوپر کرتے جانا پڑے گا۔ اگر ایسی فصلیں ہوں کہ جن کی لمبائی ذیادہ نہیں ہوتیں، ان میں تقریباَ 30 cm اوپرکھڑا رکھنا پڑے گا۔ پھر یہ کہ ان پیلے پھندوں کو ایسی جگہوں پر لگانا چاہیے جہاں وبا پھیلنے کا خدژہ ذیادہ ہو مثلاَ۔ دروازوں پر، کناروں پر یا ایسی جگہوں پر کہ جہاں ہوا کی آمد ورفت ہو وغیرہ۔ جب ان پیلے پھندوں پر خاطر خواہ تعداد جمع ہو جائے تو ان کو تبدیل کر دینا چاہیے۔
کیڑوں کو مانیٹر کرنے کی غرض سے فی ایکڑ تقریباَ 60پیلے پھندے لگانے چاہییں۔ اور کنٹرول کرنے کی غرض سے ان کی تعداد ایک پٹی فی دو مربع میٹر ہونی چاہیے۔ ان پیلے پھندوں کو اگر بہت شروع میں ہی بروے کار لایا جائے تو وہاں کسی بھی وبا کو پھیلنے سے بچایا جا سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں غیر ضروری کیمیکل سپرے سے بھی بچا جا سکتا ہے جس سے فصل کا نقصان بھی بچایا جا سکتا ہے اور سپرے پر اٹھنے والے اخراجات کو بھی کم تر کیا جا سکتا ہے۔ ان پٹیوں پر چپکنے والے کیڑوں کااگر ہم سالانہ حساب لگائیں تو اس سے آئیندہ سالوں کے لیے ہمیں ایک ڈاٹا مل جاتا ہے اور ہم وباؤ ں کا بہت پہلے سے تدارک کر سکتے ہیں۔
شکریا
عدنان زہری
ہراآرگینک مومنٹ پاکستان