گھر بیٹھے بیٹھے برس ہا برس گزر گئے۔ کتابیں پڑھتے‘ باورچی خانے میں کام کرتے‘ سویٹر بنتے ‘کشیدہ کاری کرتے جوانی ڈھل گئی ؎
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی
رشتے آئے‘ نامنظور ہوتے گئے۔ لڑکی کی‘ جو کسی زمانے میں واقعی لڑکی تھی‘ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ذات برادری سے رشتہ نہ آیا۔ ابا کا اٹل فیصلہ تھا‘ دوسری ذات میں شادی کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ انتظار کرتے کرتے ابا کو اجل نے آ لیا۔ مسائل پیچیدہ ہو گئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ لڑکی کو غیر شادی شدہ بڑھیا کہا جانے لگا۔
یہ ہماری معاشرتی زندگی سے ایک عام مثال ہے۔ اسے عصبیت کہتے ہیں۔ عصبیت ایک بیماری ہے۔ جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ یہ اس بیماری کا نرم ترین حملہ ہے۔
اس سے زیادہ سخت حملہ یہ ہے کہ ذات برادری کی بنیاد پر فرائض منصبی ادا کرتے وقت بددیانتی کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ اس معاشرے میں عام ہے۔ ایک دوست نے عرصہ ہوا‘ تجویز پیش کی تھی کہ ناموں سے سابقے اور لاحقے ہٹا دیے جائیں‘ لیکن ظاہر ہے تجویز قابلِ عمل نہ تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ باجوہ صاحب یا اعوان صاحب یا مغل صاحب یا شاہ صاحب انٹرویو لینے بیٹھتے ہیں تو جو امیدوار باجوہ یا اعوان یا مغل یا سید ہوتا ہے‘ ہمدردی کا مستحق ہو جاتا ہے۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ اسے برائی سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ذات کی بنیاد پر اقربا پروری کو صلہ رحمی کا نام دے کر گناہ کو بدتر کر دیا جاتا ہے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے بتایا کہ جب وہ ایک صوبائی دارالحکومت میں چیف منسٹر آفس میں کام کر رہے تھے تو ایک سیاست دان نے‘ جو عالی شان منصب پر تھے انہیں ہدایت کی کہ کوئی سائل ان کی ذات کا ہو تو اس کی درخواست پر انہیں بتائے بغیر ان کی طرف سے سفارشی ریمارک لکھ دیا کرے۔ یہ عصبیت جو اس نظام کو گھُن کی طرح کھا رہی ہے‘ اب بلند ترین سطح پر واشگاف انداز میں جلوہ افروز ہے۔ دُہائیاں دی جا چکی ہیں‘ تنقید کی جا رہی ہے‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نشان دہی کی جا رہی ہے۔ بار بار کی جا رہی ہے مگر ملک کی بلند ترین سطح پر فیصلے ذات برادری کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔
لیکن اس عصبیت کی سخت ترین شکل اور ہے۔ ذات برادری‘ قومیت اور عقیدے کی بنیاد پر مجرم کی پشت پناہی کرنا اور غلط کو صحیح قرار دینا اس بیماری کا جان لیوا حملہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ بیماری اس وقت لعنت کی صورت اختیار کر جاتی ہے جب قومیت اور عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کردیا جائے‘ بسوں سے اتار اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور یونیورسٹیوں‘ کالجوں‘ سکولوں‘ دفتروں‘ کمپنیوں اور کھیتوں‘ کارخانوں میں کام کرنے والوں کو اس بنیاد پر زندہ رہنے کے حق سے محروم کردیا جائے کہ وہ فلاں قومیت سے ہیں یا فلاں زبان بولتے ہیں۔
بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کے اساتذہ سے خطاب کرنے کا موقع تھا۔ نوجوان استاد اس لیے برافروختہ ہوا کہ مقرر نے ایک سردار پر تنقید کی تھی۔ تنقید کیا کی تھی‘ امرِ واقعہ بیان کیا تھا۔ سردار نے پاکستان کے ایک بڑے پررونق شہر میں پریس کانفرنس کی۔ کسی نے سوال پوچھا کہ آپ کے ہاں ظلم ہو رہا ہے کہ بے گناہی کا ثبوت جلتے انگاروں پر چل کر دینا پڑتا ہے۔ سردار نے معصومیت سے جواب دیا کہ ہاں! یہ ہماری روایت ہے! سردار کی بات تو دوسری ہے‘ اس نے سرداری کی حفاظت کرنی ہے اور رائلٹی کی بھی‘ لیکن اس معاشرے کا کیا بنے گا جس کے پڑھے لکھے نوجوان صرف اس لیے برافروختہ ہو جائیں کہ ان کی روایت پر اور ان کے سرداروں پر تنقید کی جا رہی ہے۔ خودکشی کا یہ راستہ زندگی کی طرف لے جانے سے قاصر ہے۔ اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود علاقے جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ سردار ذاتی زندگیوں میں بھی مداخلت کرتا ہے۔ کون کس پیشے میں جائے گا‘ کون کہاں آباد ہوگا‘ کون کہاں شادی کرے گا‘ سب کچھ سردار کے اختیار میں ہے۔ سرکاری ملازموں کو پورا ماہ کام کرنے کے باوجود تنخواہ لینے کے لیے سردار کی پرچی درکار ہے۔ تنصیبات سردار کے رحم و کرم پر ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے میڈیا نے خبر دی کہ بلوچستان اسمبلی کے اندر ایک سردار کو ذاتی محافظ لے جانے کی اجازت نہ دینے پر معاملہ طول پکڑ گیا اور جھگڑے کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک سردار سینکڑوں محافظوں کے جلو میں ورود کرتا تھا۔ یہ حفاظت نہیں‘ مائنڈ سیٹ ہے!
یہ طرزِ فکر ترقی کے راستے مسدود کرتا ہے۔ اگر یہ طرزِ فکر امریکہ میں جڑ پکڑ جاتا تو آج وہ کرۂ ارض کا حکمران نہ ہوتا۔ بے شمار قومیتیں وہاں بستی ہیں۔ اطالوی‘ آئرش‘ جرمن‘ فرانسیسی‘ انگریز اور اب چینی‘ بھارتی‘ پاکستانی اور عرب آباد ہیں۔ لیکن قومی معاملات میں کسی عصبیت کا حتی الامکان وجود نہیں۔
امریکی پولیس کی مثال لے لیجیے‘ اس کے اعلیٰ مناصب پر کالے بھی ہیں‘ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بھی ہیں‘ چینی اور جاپانی بھی ہیں اور جنوبی ایشیا کے ہندو اور مسلمان بھی ہیں۔ اس نوجوان ڈاکٹر کا اضطراب یاد آ رہا ہے جس نے کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک ہسپتال کے لیے ملازمت کا انٹرویو دیا۔ وہ ناامید تھا۔ تیس اسامیاں تھیں اور آٹھ سو امیدوار تھے۔ اکثریت سفید فام امیدواروں کی تھی۔ یہ جنوبی ایشیا سے تھا اور رنگ اس کا سانولا تھا۔ لیکن وہ منتخب ہوا اس لیے کہ ملکی معاملات میں فیصلے کرتے وقت ان لوگوں نے عصبیت کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
قیدیوں کا جیلر کی محبت میں گرفتار ہو جانا نفسیاتی عارضہ ہے۔ اسے سٹاک ہوم سنڈروم کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ عارضہ‘ یہ سنڈروم کئی سطحوں پر کام کر رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا جائزہ لے لیجیے۔ کیا ورکر اور کیا رہنما‘ سب ایک خاندان کی محبت میں مبتلا ہیں‘ سب صاحبزادے کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ دفاع کر رہے ہیں۔ یہی صورتِ حال پنجاب کے شاہی خاندانوں میں گجرات سے لے کر رائے ونڈ تک طاری ہے۔ پشاور اور ڈیرہ ا سماعیل خان تک اس مرض کے جراثیم گئے ہیں۔
تاہم خطرناک صورت اس مرض کی یہ ہے کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس ذات برادری اور قومیت کے حصار میں محبوس ہو جائے۔ یہاں یہ وضاحت کرنا لازم ہے کہ ہم جب قبائلی سردار کی بات کرتے ہیں تو یہ تجویز نہیں کر رہے کہ قبائلی شناخت ترک کردی جائے۔ آپ بگتی‘ مری‘ رئیسانی جو بھی ہیں‘ شوق سے رہیے۔ اپنے نام کے ساتھ لکھنا چاہتے ہیں تو ضرور لکھیے لیکن دوسرے قبائل‘ دوسری ذاتوں‘ دوسری برادریوں اور دوسری شناختوں کو میرٹ پر جانچئے ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
آپ کے مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والا امیدوار زیادہ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے تو اسے نامنظور کر کے آپ اپنا نقصان کریں گے۔ دوسری زبان بولنے والا آپ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اپنی جوانی تج دیتا ہے‘ خونِ جگر سے کشتِ تعلیم کی آبیاری کرتا ہے‘ آپ کی نسلوں کو سنوارتا ہے مگر آپ اسے صرف اس لیے گولی مار دیتے ہیں کہ اس کی ظاہری شناخت آپ سے الگ ہے‘ آج آپ یہ کھیل کھیل کر اپنے جذبات کو تسکین بہم پہنچا لیں گے لیکن اپنے علاقے کو‘ اپنے صوبے کو پس ماندگی کے اس نشیب میں دھکیل دیں گے جس سے نکلنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔
ذات‘ برادری‘ قومیت‘ زبان‘ سب شناخت کے لیے ہیں۔ تعارف کے لیے ہیں۔ فخر و غرور کے لیے نہیں! اگر ایک خاص قومیت سے تعلق رکھنا کمال ہے تو یہ کمال حاصل کرنے میں آپ نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ یہ تو پیدائش کا حادثہ تھا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“