ڈیوڈ بیناٹر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ’دنیا میں ایک مایوس ترین فلسفی ہیں‘
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن کے ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیناٹر اپنی کتاب ’ Better Never To Have Been‘ میں لکھتے ہیں کہ پیدا ہونا انتہائی شدید اور خوفناک بدقسمتی ہے۔
اسی لیے 51 سالہ بیناٹر کا کہنا ہے کہ سب سے اچھا کام جو انسان کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پیدائش کے عمل کو روک کر اس کرہِ ارض سے انسانیت کا مکمل خاتمہ کر دے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کی کئی بہتر وجوہات ہیں۔ نئے لوگوں کو اس لیے اس دنیا میں نہیں لانا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ برے تجربات ہیں جس سے انھیں گزرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے بہت سی توجیحات ہیں لیکن ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے ہونے میں بہت سی تکالیف اور درد ہیں، اس لیے نئے انسانوں کو اس دنیا میں لانا غلط ہے۔
ہاں، یہ سچ ہے کہ اچھی چیزیں بھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے سارے درد کے سامنے ان اچھی چیزوں کی کوئی وقعت ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ زندگی میں ہونے والی بری چیزیں کتنی بری ہیں۔
یہاں بہت سے نفسیاتی شواہد موجود ہیں کہ لوگ اپنے معیار زندگی کو بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقت کے برعکس زیادہ بہتر ہے۔
ایک اور غلطی مستقبل کے بارے میں سوچنا اور اس بات کا احساس ہی نہ ہونا کہ زندگی کے آخری لمحات میں انھیں ممکنہ طور پر کتنی تکلیف ہوگی۔
سوچیں کہ لوگ کیسے مرتے ہیں، کینسر کے بارے میں سوچیں، چھوت کی بیماریوں کے بارے میں اور کمزوری کے بارے میں زندگی کے آخر میں بہت زیادہ تکالیف ہیں بہت زیادہ۔ اور اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں۔
لیکن اگر آپ صحیح ہیں اور زندگی حقیقت میں اتنی ہی بری ہے تو لوگ کبھی بھی خود کو مار سکتے ہیں، درست؟
جی ہاں، لیکن خودکشی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو آپ کو نہیں بھرنا پڑے گی اگر آپ پیدا ہی نہ ہوتے۔
اگر آپ پیدا نہیں ہوئے، آپ کا وجود ہی نہ ہوتا، تو آپ ان زندگی میں تمام بری چیزوں سے بنا کوئی قیمت ادا کیے ہی چھٹکارہ پا لیتے۔
خودکشی شاید بیماری سے کم ہو، لیکن پھر بھی بیماری تو ہے، جو کہ بری ہے۔
لوگ اصل میں مرنا نہیں چاہتے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر اپنے وجود کے ساتھ ہی چلتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کے وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو رہے اور یہ ایک مثبت تجربہ نہیں ہے۔
خودکشی کی ایک اور قیمت وہ درد اور تکلیف ہے جو آپ اپنے پیچھے دوسروں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
لیکن انسان نسل کو آگے بڑھانے کے لیے بنا ہے، نسل آگے بڑھانا ایک قدرتی عمل ہے۔ تو کیا پھر زچگی مخالف فلسفہ قدرت کے خلاف ہے؟
ہر قدرتی چیز اچھی نہیں۔ مثال کے طور پر بیماریوں میں مبتلا ہونا مکمل طور پر قدرتی ہے، اور اس کے قدرتی ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ادویات کے ذریعے علاج یا آپریشن وغیرہ کروانے سے نہیں روکا جاتا۔
غصہ بھی انسانوں اور جانوروں میں ایک قدرتی جذبات کی شکل ہے اور بظاہر یہ ہمارے لیے صحیح نہیں۔
قدرتی ہونا اور اخلاقی طور پر چاہنا یا مشورہ دینا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
تو آپ کے لیے اسقاط حمل اخلاقی طور پر صحیح ہے؟
جی بالکل، زچگی کی مخالفت کہتی ہے کہ اس دنیا میں نئے لوگوں کو لانا غلط ہے اور اسقاط حمل اس کو حاصل کرنے کا ایک راستہ ہے۔
صرف انسان ہی نہیں جنھیں یہ سب سہنا پڑتا ہے، کئی جانور دردناک زندگیاں گزارتے ہیں۔ تو ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کیا ہم انھیں ان کے وجود کے درد سے چھٹکارہ دلانے کے لیے مار ڈالیں؟
بیخ کنی کرنے اور موت کے وقت مرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔
مٹا دینا قتل کر دینا ہے، اور میں انسانوں یا جانوروں کو قتل کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ کچھ ایسے واقعات، مناظر ہو سکتے ہیں جب میں اس کا تصور کروں۔
لیکن عام طور پر میں لوگوں یا جانوروں کو قتل کرنے کا حامی نہیں ہوں، لیکن میں نابُودگی کے حق میں ہوں اور فنا کرنے کا ایک راستہ نئے انسانوں کو جنم نہ دینا ہے۔
جانوروں کو دیکھا جائے تو ان میں بہت سے جانور آزاد رہتے ہیں اور ان کی افزائش انسان نہیں کرتے۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کی افزائش ہم کرتے ہیں، جیسے کہ فارمی جانور، جنھیں صرف مارنے اور کھانے کے لیے بڑا کیا جاتا ہے۔
ایسے جانوروں جنھیں ہم نہ بیان کیے جانے والی تکلیف میں ڈالتے ہیں کی افزائش کو میں روکوں گا۔ ہم اپنا پیٹ انھیں مارے بغیر بھی اچھی طرح بھر سکتے ہیں۔
دنیا میں بچے نہ لا کر خود کو فنا کرنے سے اچھا نہیں کہ ہم دنیا ہی کو بہتر کر دیں تاکہ زندگی زیادہ سخت نہ ہو؟
دیکھیں، میرا ماننا ہے کہ ہم ہمیشہ ہی دنیا کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں اور جو وجود رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی بہتری کے لیے کچھ بھی کریں۔
لیکن یہ سوچنا ایک امید ہی ہے کہ ہم دنیا کو تمام تکالیف ختم کرکے بہتر بنا دیں گے اور بچے ہوں گے جو زندہ رہنے کا درد محسوس نہیں کریں گے۔
لیکن اگر ہم ایسا کر بھی لیتے ہیں تو یہ مستقبل بعید میں ہوگا۔ لاتعداد نسلوں کے بعد، لوگوں کی نسلیں جو اس دنیا میں لانے کے شدید درد سے گزریں گی۔
مستقبل کے نام پر اتنی نسلوں کو قربان کرنا میرے لیے بہت ہی خوفناک ہے۔
اگر زندگی اتنی بری ہے، تو آپ کے خیال میں لوگ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟
میں نہیں جانتا۔ بہت سے تو سوچتے ہی نہیں کہ بچے ہونے کا کیا مطلب ہے، بس وہ پیدا کرتے ہیں۔ اندازے کے مطابق دنیا میں موجود بچوں میں سے نصف تو وہ ہیں جن کی خواہش نہیں تھی۔
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس بارے میں سوچتے ہیں اور وہ بچے پیدا کرنے کی جو وجوہات بیان کرتے ہیں ان کی بنیاد ذاتی خواہش پر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے جین آگے برھانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ بچے پیدا کرنا اور انھیں بڑا کرنا کیسا ہوگا ۔۔۔ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کی بہبود کے لیے بچے پیدا کرتے ہیں، جن کے بچے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں، یا تو وہ اپنے والدین کی پوتے پوتیوں کی خواہش پوری کرتے ہیں۔
لیکن میرے خیال میں زیادہ تر واقعات میں لوگ خود بچے پیدا کرنے کے بارے میں سوال ہی نہیں کرتے۔
اور اس پر کوئی سوال بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ انتہائی عام بات ہے اور عادت بن چکی ہے۔ اور یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ بچے ہونا ضروری ہیں۔ بہت کم لوگ ہی دنیا میں کسی انسان کو لانے سے جڑے اخلاقی مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔
چلیں مثال کے طور پر تصور کریں کہ ایک بچہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا ہے اور اس کی زندگی مکمل،اچھی اور خوشی سے سرشار ہوگی، کیا اس بچے کو اچھی زندگی سے محروم کر دینا غیر اخلاقی نہیں ہوگا؟
دیکھیں، بچے کبھی کبھار خوش ہو سکتا ہے، میں اس پر بحث نہیں کرتا۔ لیکن جب اس بچے کو اس دنیا میں لایا جاتا ہے تو صرف وہی لمحات خوشی پر مبنی نہیں ہوتے۔
وہی بچہ بوڑھا بھی ہوگا، تکلیف سے بھی گزرے گا، بیمار ہوگا، مستقبل میں مر جائے گا۔ ہمیں اس کی مکمل زندگی کے بارے میں سوچنا چاہیے، نہ کہ صرف ان خوشگوار لمحات کے بارے میں۔
اور صرف سوچیں بچے اکثر ناخوش ہوتے ہیں، آپ کو اس وقت کے بارے میں سوچنا ہوگا جو وہ نہ امیدی اور مایوسی میں رو رو کر گزارتے ہیں۔
لیکن اگر ہم صحیح معنوں میں خوش بچے کے بارے میں بات کریں تو وہ ’ترجیحات میں ڈھل جانے‘ والے کیس میں آتا ہے۔
ذرا سوچیں مثال کے طور پر لوگوں کا ایک گروہ جنھیں دیگر افراد غلام بنا لیتے ہیں۔ وہ غلام لوگ اپنی اس حالت سے خوش ہو سکتے ہیں، اور شاید انھیں غلامی سے کوئی اعتراض نہ ہو کیونکہ انھیں ایسا سوچنے والا ہی بنایا جاتا ہے۔
اگر وہ لوگ خوش ہیں پھر بھی میں اس کی مخالفت کروں گا۔
غلامی
آپ کے دلائل کے مطابق بچوں کی تکالیف کے ذمہ دار والدین ہیں کیونکہ انھیں اس دنیا میں لانے کا فیصلہ ان کا تھا۔ یا وہ اپنے بچوں کے بچوں کے بچوں اور ان کے پوتے پوتیوں کی تکالیف کے بھی ذمہ دار ہیں؟
ایک طرح سے ہاں، بالواسطہ۔ ان کی ساری ذمہ داری نہیں ہوگی۔ ان کی صرف ان کے اپنے بچوں کی وجہ سے ان سے جوڑا جائے گا۔
لیکن جب کوئی بچے پیدا کرنے کا سوچتا ہے، تو انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ممکنہ طور پر پیدائش کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔
آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا پیدائش کے عمل کو روک کر انسانوں کو ختم کرنے کا خیال کبھی سمجھا جائے گا؟
نہیں میں نہیں سمجھتا، کم از کم بڑے پیمانے پر تو نہیں۔ میرے خیال میں چند افراد ہی ہوں گے جو پیدائش کے عمل کو روکنے کا فیصلہ کریں گے، درحقیقت میں ایسے چند لوگوں کو جانتا ہوں۔
لیکن میرا ماننا ہے کہ زچگی کی مخالفت چھوٹے پیمانے پر کامیاب ہو گی۔
چھوٹے پیمانے پر ہی سہی یہ اہم ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس دنیا میں نہ لا کر تکلیف سے بچایا جائے گا۔
میں سیدھا سادھا نہیں ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ میں ہر کسی کو اپنے خیال سے قائل کر لوں گا۔
لیکن میں پختہ یقین سے کہتا ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ لوگ خود سے سوال کریں اور حقیقت میں سوچیں کہ بچے پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے۔
بنیادی عقیدہ میرے لیے بالکل ہی واضح ہے، جبکہ میں نہیں جانتا کہ یہ اوروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔
آپ کو زندہ ہونے پر افسوس ہے؟
میں ذاتی سوالات کے جواب دینا پسند نہیں کرتا۔ میں تصورات اور خیالات کے بارے میں بات کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
Interviewed by BBC
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...