(Last Updated On: )
آج ، یعنی 7 دسمبر کا دن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ تباہ کن دنوں میں شمار کیا جاتا ۔
7 دسمبر 1941 کے روز جاپان نے امریکہ پر حملہ کردیا جس کے بعد امریکہ نے جاپان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور اسطرح امریکہ باضابطہ طور پر جنگِ عظیم دوئم میں شامل ہوگیا ۔
امریکہ کے جزیرہِ ہوائی Hawaii میں لنگر انداز امریکی بحریہ کے بیڑہِ الکاہل US Pacific Fleet پر کیا جانے والا یہ حملہ امریکی تاریخ کے خوفناک ترین حملوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
پسِ منظر :
پہلی جنگِ عظیم میں جاپان ، امریکہ کا اتحادی تھا جس نے جرمنی اور آسٹرو ہنگری کے خلاف جنگ میں اتحادیوں کی مدد کی ۔
دوسری جنگ عظیم تک جاپان اور امریکہ قریبی دوست تھے ۔
اس دور میں جاپان صنعتی اور عسکری میدان میں بیحد تیزی سے ترقی کررہا تھا ۔۔۔ لیکن جاپان کے پاس قدرتی وسائل کی کمی تھی اور جاپان کو 80٪ تیل امریکہ فراہم کرتا تھا۔
1926 میں “ہیرو ہیٹو” جاپان کے 124ویں شہنشاہ بنے۔۔۔
1930 کی دہائی میں جب یورپ نازی (جرمنی) اور فسطائی (اٹلی) جیسی نیشنلسٹ تحاریک سے گزر رہا تھا ٹھیک اسی وقت جاپان میں بھی نیشنلسٹ نظریات و تحریک جڑ پکڑتے جارہے تھے اور اس تحریک کی بانی جاپان کی سیاسی پارٹی Taisei Yokusankai تھی جس کا لیڈر بدنامِ زمانہ متشدد “جنرل ہڈیکی ٹوجو” Hideki Tojo تھا۔۔۔ جو کہ آگے چل کر 1941 میں جاپان کا وزیر اعظم بنا۔
جب کوئی ملک ملٹری اور جرنیلوں کے زیر اثر آجاتا ہے تو اس کی تباہی کے پروانے پر اسی دن دستخط ہوجاتے ہیں۔
ٹوجو کے نظریہ یہ تھا کہ جاپان کو مزید زمین اور وسائل کی ضرورت ہے جن کو طاقت کے زور پر حاصل کرنا جاپان کا حق ہے۔
چنانچہ،
جاپان نے 1937 میں چین پر حملہ کردیا۔۔
1941 میں جاپان نے ویتنام ، لاؤس اور کمبوڈیا پر حملہ کردیا۔
جاپان کی طرف سے اس کھلی جارحیت ، بلا اشتعال فوج کشی اور خوفناک نوعیت کے جنگی جرائم کے عوض امریکہ نے 1 اگست 1941 کو امریکہ نے جاپان کو تیل کی سپلائی۔ بند کر دی اور جاپان کے اوور سیز اثاثے منجمد کردیے۔
امریکہ کے اس اقدام سے جاپان میں امریکہ کے خلاف سخت نفرت و عداوت بھڑک اٹھی ۔۔۔ تیل کے بغیر جاپان نہ تو اپنی صنعتیں چلا سکتا تھا نہ ٹرانسپورٹ اور نہ ہی جنگی مہمات جاری رکھ سکتا تھا ۔
اب جاپان کو ضرورت تھی تیل کی۔۔۔۔
اور تیل کے حصول کے لیے جاپان نے “ایسٹ انڈیز” (ملائشیا ، انڈونیشیا ) اور فلپائن پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ فلپائن امریکہ کے زیر انتظام تھا اور ایسٹ انڈیز ہالینڈ کے زیر انتظام تھا۔
اگر جاپان ان پر حملہ کرتا تو پہلے سے ہی امریکہ کے ساتھ چلتے شدید تناؤ کے پیش نظر امریکہ کا جوابی کارروائی کرنا ناگزیر تھا ۔
چنانچہ۔۔۔۔ جاپان نے بحری سربراہ “ایڈمرل اسوروکو یاما موٹو” Isoroku Yamamoto نے ایک منصوبہ تشکیل دیا جس کے تحت “اگر جاپان بحرالکاہل میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑے پر ایک تباہ کن حملہ کرتے ہوئے اسے غرقاب کردے تو امریکہ کئی مہینے تک جاپان کے خلاف جوابی کارروائی کے قابل نہیں رہے گا ۔۔۔ اور جب امریکہ جاپان کے خلاف جنگ کی پوزیشن میں آئے گا تب تک جاپان اپنی سلطنت کو اتنا وسیع اور با وسائل کرچکا ہوگا کہ امریکہ مذاکرات کی میز پر آنے پے مجبور ہوجائے گا۔”
حملے کا مقام بحر الکاہل کا جزیرہ ہوائی طے پایا جہاں امریکی بحری بیڑا لنگر انداز تھا۔
چنانچہ اس حملے کے لیے جاپانی ہوا بازوں اور بحری اہلکاروں کی پیچیدہ اور طویل تربیت کا آغاز ہوگیا۔
اس حملے کی منصوبہ بندی ، تیاریوں اور تربیت کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تاکہ امریکہ کو اس حملے کی بھنک نہ لگ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریقین کی جنگی طاقت :
اس حملے میں ہر دو ممالک کی عسکری طاقت کچھ یوں تھی۔
جاپان 🇯🇵 :
6 طیارہ بردار جہاز (ایئرکرافٹ کیرئیرز)
2 بیٹل شپس۔
2 ہیوی کروزرز
1 لائیٹ کروزر۔
9 ڈسٹرائیرز۔
8 ٹینکرز۔
28 عدد آبدوزیں
414 جنگی طیارے ۔
۔
امریکہ 🇺🇲 :
8 بیٹل شپس۔
30 ڈسٹرائیرز۔
8 کروزرز۔
4 آبدوزیں ۔
47 دیگر جنگی کشتیاں۔
390 جنگی طیارے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
حملہ :
26 نومبر 1941 کو 6 ایئرکرافٹ کیرئیرز سے لیس جاپانی جنگی بیڑہ ہوائی کی طرف روانہ ہوا۔
۔
7 دسمبر کی صبح ، جزیرہ ہوائی پر لنگر انداز امریکی بحری بیڑے پر تعینات اہلکار چھٹی کا دن منا رہے تھے۔۔۔اسی دوران جزیرے پر نصب ایک ریڈار کے کنٹرول روم میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگی طیاروں کے جزیرہ کی طرف بڑھنے کا کاشن موصول ہوا۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ٹھیک اسی روز امریکی فضائیہ کے جنگی طیاروں کی بھی جزیرہ ہوائی پر آمد متوقع تھی ۔ چنانچہ ریڈار پر تعینات اہلکاروں نے انہیں امریکی طیارے سمجھ کر نظر انداز کردیا ۔
لیکن سچ تو یہ تھا کہ امریکی فضائیہ کے متوقع طیارے ابھی ہزاروں میل دور تھے۔
حملے کی پہلی لہر میں 183 طیارے شامل تھے جن میں بمبار طیارے ، جنگی طیارے اور تارپیڈو بردار طیارے شامل تھے۔۔۔۔اس حملے کی کمان “کیپٹن میٹسوؤ فوچیڈا” Mitsuo Fochida کررہے تھے ۔۔۔ صبح 7:30 کا وقت تھا جب فوچیدا نے Tora, Tora , Tora (حملہ، حملہ ، حملہ ) کے الفاظ بول کر حملے کا سگنل دیا ۔۔۔۔
اس وقت تک طیارے ہوائی کی فضا میں پہنچ چکے تھے اور ہوائی میں تعینات امریکی اہلکار فضا میں دیکھتے ہوئے اس حیرت میں مبتلا تھے کہ “یہ سینکڑوں طیارے اچانک کیسے اور کہاں سے آگئے ” ان کی یہ حیرت ، خوف و تشویش میں بدل گئی جب پہلی لہر میں شامل طیاروں نے امریکی بحری جہازوں پر بم گرانے اور تارپیڈو داغنے کا آغاز کیا۔۔۔۔ پورا جزیرہ کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور پھر خطرے کے سائرنز سے گونج اٹھا ۔
یہ حملہ مکمل طور پر غیر متوقع تھا ، اس لیے امریکی بحری جہازوں اور جزیرے پر نصب سبھی طیارہ شکن گنیں بھی ایمونیشن سے خالی تھیں۔
جتنی دیر میں ان پر ایمونیشن لوڈ کرکے انہیں فائرنگ کے لیے تیار کیا جاتا کئی امریکی جہاز جاپانی بمباری اور تارپیڈو باری کا نشانہ بن کر بھڑکتی آگ کی لپٹوں اور انسانی چیخوں میں گم ہوچکے تھے۔
یہ حملہ تین گروپوں کی صورت میں تین مقامات پر کیا گیا۔
حملے کی اس پہلی لہر میں کم از کم 1500 امریکی اہلکارمارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے ۔ ساتھ ہی کئی امریکی بیڑے کے کئی جہاز اس حملے کا شکار بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔
حملے کی دوسری لہر کا آغاز صبح 8:50 پر ہوا۔
اس حملے میں 171 جاپانی طیارے شامل تھے۔
ان کا ہدف امریکی بیڑے کے ساتھ ساتھ جزیرہ ہوائی میں موجود امریکی فضائیہ کے اڈے ، ائیر سٹرپس اور امریکی فوج کے بنکرز تھے ۔
اس وقت جزیرہ ہوائی پر امریکی فضائیہ کے 390 طیارے موجود تھے لیکن پھر وہی مسئلہ کہ امریکی کو کسی حملے کا وہم و گمان بھی نہ تھا اس لیے ان طیاروں میں فیول اور ایمونیشن بھی نہ بھرا گیا تھا اور نہ ہی امریکی ہواباز اس حملے کے لیے مستعد تھے ۔
چنانچہ جاپانیوں نے ہوائی اڈوں پر کھڑے امریکی طیاروں کو نہایت آسانی کے ساتھ بمباری سے اڑا ڈالا۔۔۔ انہوں نے امریکی فوج کی بیرکس پر بھی بم گرائے ۔ اس حملے میں 159 امریکی طیارے تباہ ہوگئے ۔
تب تک بچے ہوئے امریکی بحری جہازوں اور جزیرے پر موجود طیارہ شکن گنوں میں ایمونیشن لوڈ کیا جا چکا تھا چنانچہ اب جاپانی طیاروں پر جوابی حملہ کیا جاسکتا تھا۔
ادھر بحرالکاہل میں تعینات امریکی آبدوزیں بھی جنگ میں شامل ہوچکی تھیں ۔
مجموعی طور پر پرل ہاربر پے حملہ ڈیڑھ گھنٹے کے قریب وقت جاری رہا۔
اور پھر جاپانی طیارے واپس اپنے ائیرکرافٹ کیرئیرز کی طرف لوٹ گئے ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں جاپانی بیڑا واپس جاپان کی طرف محوِ سفر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقصانات :
جاپان 🇯🇵
29 طیارے تباہ۔
64 اہلکار مقتول۔
74 طیارے ڈیمج۔
1 ہواباز گرفتار۔
4 آبدوزیں تباہ۔
1 آبدوز گرفتار ۔
۔
امریکہ 🇺🇲
2500 اہلکار مقتول۔
1143 اہلکار زخمی۔
63 سویلینز مقتول۔
35 سویلنز زخمی۔
4 بیٹل شپس غرقاب۔
4 بیٹل شپس ڈیمج۔
188 طیارے تباہ ۔
159 طیارے ڈیمج۔
3 دیگر جنگی جہاز تباہ۔
9 دیگر جنگی جہاز ڈیمج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعلانِ جنگ :
8 دسمبر 1941 کو امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔
۔۔۔۔۔
کیا یہ حملہ کامیاب رہا ؟
نہیں۔۔۔ یہ حملہ اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام رہا ۔
حملے کے روز ہوائی میں تعینات امریکی بحریہ کے تینوں ائیرکرافٹ کیرئیرز بحری اڈوں پر موجود نہ تھے بلکہ سمندر میں تھے اور تینوں ہی حملے سے بچ نکلے۔
اس حملے میں تباہ اور ڈیمج کیے گئے اکثریت امریکی بحری جہاز اور طیارے پرانے طرز کے تھے جو اب تک متروک ہونے کے قریب تھے ۔
جاپان کا خیال تھا کہ یہ حملہ کئی مہینوں کے لیے امریکہ کو جنگ سے باہر کردے گا۔۔۔۔ فی الحقیقت اگلے ہی دن امریکہ جاپان کے خلاف جنگ پے کمربستہ ہوچکا تھا ۔
اور اس جنگ کا نتیجہ 1945 میں جاپان کی شکست، جاپان پر ایٹمی حملوں اور جاپان کے سرنڈر کی صورت میں نکلا۔