(Last Updated On: )
پی ڈی ایم کے حالیہ سربراہی اجلاس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے پی ڈی ایم کو چھوڑ دینےکے بعد پی ڈی ایم کی حیثیت اب ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد سے زیادہ کی نہیں رہی جس کا واحد مقصد نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات اور ان کی نااہلی کے خاتمے کے لئے کسی ڈیل کی تلاش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سلیکٹڈ حکومت کی ضمانت بنے ہوئے ہیں۔ جب بھی حکومت کسی دباؤ میں آتی ہے یا اس حکومت کے چل چلاؤ کے آثار نظر آتے ہیں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی سیاست پر خودکش حملہ کرکے حکومت کا راستہ صاف کر دیتے ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں سینٹ الیکشن کے بعد جب حکومت مکمل طور گھیرے میں آ چکی تھی اور قومی اسمبلی سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے سینٹ کی سیٹ جیت کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا کردی تھی تو اس موقع پر جب ایک کاری ضرب موجودہ حکومت کو گھر بھیج سکتی تھی، نون لیگ اور مولانا نہ تو پیپلزپارٹی کی عدم اعتماد کی تجویز سے متفق ہوئے اور نہ ہی لانگ مارچ کی بیل منڈھے چڑھنے دی بلکہ لانگ مارچ کے بالکل قریب پہنچ کر اسے استعفوں سے مشروط کر کے اپوزیشن کی تمام تر کامیابیوں پر پانی پھیر دیا۔حالیہ دنوں میں بھی جب حکمران جماعت اپنے اندرونی خلفشار اور ناکامیوں کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے اور حکومت مخالف فضا بنتی نظر آ رہی تھی اور عدم اعتماد کے ذریعے اس حکومت کو گھر بھیجنے کا ڈول ڈالا جا رہا تھا تو نون لیگ اور مولانا نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پہلے کی طرح مبہم سے اقدامات کا اعلان کرکے عدم اعتماد کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے اور ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ جب تک نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمے اور نااہلی ختم نہیں ہوتے اور ان کو ڈیل نہیں دی جاتی، نواز شریف ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں اس لئے نااہل سلیکٹڈ حکومت کے لئے فی الحال راوی چین ہی چین لکھے گا۔
پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس عدم اعتماد کی تحریک پر پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اعتماد میں لینے اور اس پر کوئی فیصلہ کرنے کے لئے ہی بلایا گیا تھا لیکن پورے اجلاس میں اس پر کوئی بات ہوئی نہ پریس بریفنگ میں اس کے بارے کچھ بتایا گیا۔ وزیراعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد کی حالیہ چہ میگوئیوں کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ مریم نواز اور نون لیگ کے کچھ رہنماؤں نے اپنےبیانات سے ہی کیا تھا۔ دو ہفتے قبل جب شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی تو اس ملاقات کی پریس بریفنگ میں بتایا گیا کہ تحریک عدم اعتماد پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے اور اب پچیس جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں دوسری پارٹیوں سے مشاورت کے بعد عدم اعتماد کے متعلق فیصلے کا اعلان کیا جائے گا لیکن حیرت انگیز طور پر پچیس جنوری کے سربراہی اجلاس میں عدم اعتماد کے بارے کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے اس سارے معاملے کو ہی گول کر دیا گیا۔ مولانا نے پریس بریفنگ میں عدم اعتماد کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس میں بینک اکاونٹ چھپانے پر عمران خان اور تحریک انصاف کو کالعدم قرار دے۔ پتہ نہیں مولانا واقعی اتنے معصوم ہیں یا ان کو حقیقت میں اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ جو الیکشن کمیشن ساڑھے تین سال میں ایک سیدھے سادے نااہلی کے کیس میں فیصل واوڈا کو نااہل قرارنہیں دے سکا وہ ان کے کہنے پر پوری تحریک انصاف کو کالعدم قرار دے گا۔ بہرحال پی ڈی ایم کے تحریک عدم اعتماد کے بارے لئےجانے والے یو ٹرن کے پیچھے جو بھی کہانی ہو یہ دوسرا موقع ہے جب نون لیگ اور مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی پیٹھ میں چھراگھونپ کر گھبرائی ہوئی حکومت کو ایک بار پھر نئی لائف لائن دے دی ہے۔
میاں صاحب قسمت کے دھنی رہے ہیں کہ ان کو ہمیشہ مقتدرہ کی چھتری میسر رہی ہے جس کی وجہ سے وہ سیاسی کامیابیاں حاصل کرتے رہے اور دو دفعہ سزایافتہ ہونے کے باوجود انہیں جیل سے نکال کر باہر بھی بھیج دیا گیا لیکن اب عارضی طور پر ہی سہی لیکن فی الحال یہ چھتری انہیں میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے میاں صاحب اور مریم نواز بظاہر تو انقلابی بنے نظر آتے ہیں لیکن پسِ پردہ آج بھی طاقتور حلقوں کے ساتھ میاں صاحب رابطے میں ہیں اور اپنے اور اپنی بیٹی کے لئے کسی مناسب ڈیل کی تلاش میں ہیں۔ دراصل یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے نون لیگ ٹھنڈی ٹھار اپوزیشن کرنے پر مجبور ہے اور موجودہ حکومت کے ساڑھےتین سالہ دور اقتدار کے دوران پنجاب اور وفاق میں کبھی بھی سنجیدگی سے اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کر پائی۔ وہ شہباز شریف جو پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں حکومت کے خلاف ہر روز جلوس نکلوایا کرتے تھے، سرکاری دفاتر پر حملے کروایا کرتے تھے اور خود مینار پاکستان پر ٹینٹ لگا کر پکھیاں جھلا کرتے تھے آج ان سے زیادہ ملائم اپوزیشن لیڈر کوئی ہے ہی نہیں۔
نون لیگ اور نواز شریف کا ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے کہ ان کو کسی بھی بات کی سمجھ بہت دیر سے آتی ہے جس کے باعث وہ درست وقت پر درست فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس وقت بھی ڈیل کے انتظار میں سلیکٹڈ حکومت کو نون لیگ جو ڈھیل دے رہی ہے اس سے اپوزیشن اور عوام کا جو نقصان ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے لیکن نون لیگ بھی شائد اس کا فائدہ نہ اٹھا سکےکیونکہ نیم جان حکومت کو اگر مزید وقت مل گیا اور حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ حکومت اگلے آرمی چیف کی تقرری سمیت بہت سے ایسے فیصلے کر چکی ہو گی جس سے اگلے انتخابات میں اسے بہت مدد مل سکتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا بل تو حکومت پہلے ہی منظور کروا چکی ہے۔ اگر اپوزیشن اگلے انتخابات سے پہلے ان ہاؤس تبدیلی لا کر اس بل کو ریورس نہیں کرتی اور اگلے انتخابات اگر ان اصلاحات کے تحت ہی کروائے جاتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگلے انتخابات بھی دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کی طرح ہی متنازعہ نہیں ہوں گے؟ اسی لئے پیپلزپارٹی کا استدلال ہے کہ عدم اعتماد کے ذریعے ان ہاؤس تبدیلی لا کر پہلے تمام جماعتوں کے مشورے سے متفقہ طور پر انتخابی اصلاحات کی جائیں اس کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے لیکن یہ بات ابھی نہ نواز شریف کو سمجھ آ رہی ہے نہ مولانا فضل الرحمن کو۔
پیپلزپارٹی نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے انہی ہتھکنڈوں سے مایوس ہو کر اپنی علیحدہ اور واضح لائن لے چکی ہے۔ پیپلزپارٹی مہنگائی اور کسانوں کو درپیش مسائل پر بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے مہنگائی کے خلاف ملک کے کونے کونے میں احتجاج کیا ہے جس میں عوام کی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کو درپیش مسائل پر آواز اٹھانے کے لئے پیپلزپارٹی نے ٹریکٹر ٹرالی مارچ اور کسان مارچ جیسے احتجاجی پروگرام منعقد کئے ہیں جس میں ملک کے طُول و عرض سے کسانوں نے بہت بڑی تعداد شامل ہو کر پیپلزپارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اب پیپلزپارٹی اپنےستائس فروری کو ہونے والے لانگ مارچ کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایم نے تئیس مارچ کو اپنےمارچ اور دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے جس کی تاریخ پر پی ڈی ایم کے اندر بھی تخفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ انہی دنوں میں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے ہیں جبکہ ایک ہفتے بعد رمضان المبارک کا بھی آغاز ہوجائے گا، اس سے پی ڈی ایم کی اپنے اس مہنگائی کے خلاف مارچ اور دھرنے کے بارے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
نون لیگ کے طرزِ سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن نون لیگ بہرحال ایک بڑی جماعت ہے جس کا قومی سیاست میں ایک بڑا کردار ہے اس لئے نون لیگ کو ذاتی مفادات کی سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہو گا تاکہ ووٹ کو عزت دی جا سکے اور عوام کے حقِ حاکمیت کی بحالی کے لئے جمہوری قوتیں مل کر اس مشترکہ مقصد کے لئے کام کر سکیں۔ اگر نون لیگ بدستور کسی اشارے کی منتظر رہی تو سلیکٹرز اور سلیکٹڈ مل کر ملک کو ایسا نقصان پہنچا دیں گے جس کا مداوا شائد اتنا آسان نہ ہو۔ پی ڈی ایم کی ایک بڑی جماعت ہونے کے ناطے زیادہ ذمہ داری بھی نون لیگ کی ہی بنتی ہے کہ درست وقت پر درست فیصلہ کر لیا جائے تو ہی اس کا فائدہ ہوتا ہے بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ڈی ایم کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہئیے کہ بڑے فیصلوں کے لئے وقت تیزی سے گزر رہا ہے کیونکہ بڑے اور طاقتور کھلاڑی اپنے پرانے اور آزمودہ مہروں کے ذریعے کراچی سےنیا کھیل شروع کر چکے ہیں۔
Twitter: @GorayaAftab
Dated: 27-01-2022