نمونہ شناسی Pattern Recognition
انسانوں میں وہی چیز رواج پا سکتی ہے جس کی شناسی کسی نا کسی طرح ممکن ہوسکے ورنہ جن کی نمونہ شناسی ناممکن ہو وہ اکثر مافوق الفطرت چیزوں میں گنِی جاتی ہیں۔ نمونہ شناسی سے عام فہمی Common Sense اور رواج کا سفر طے کیا جاتا ہے تاکہ عام لوگ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ پتھر کے زمانے کے انسان کے استعمال کردہ اوزار اور عقلی جستجو موجود دور کے انسان کیلیے انتہائی بنیادی سمجھی جاسکتی ہیں اقلیدس جن حسابی مسائل کیلیے پریشان ہوتا تھا وہ آج کل کے بچے کلاسوں میں سیکھتے ہیں۔ کارل سیگن کا کہنا ہے کہ آئین سٹائین کے بیان کردہ فارمولے میٹرک کے شاگرداتنی حساب پڑھ لیتے ہیں کہ انہیں آسانی سے سمجھ سکیں۔ آسان نمونوں سے مشکل نمونوں پر قابو پانے کے ساتھ جستجو کا سفر جاری رکھا جس نے انسان کو ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیچیدہ نظام متعارف کرایا۔ایک ماہر پیشہ وَر کیلیے اسکے پیشہ کے تمام نمونے قابلِ ادراک ہوتے ہیں جبکہ وہ نمونے جسکا ادراک نہ ہووہ پریشانی کا سبب بنتی ہے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے نمونوں سے ملکر معاشرہ بنتا ہے، معاشرتی نمونوں سے قومی نمونے،دنیاؤی نمونے اور کائناتی نمونے بنتے ہیں۔ انسان نے کائنات کو سمجھنے کیلیے کئی نمونے زیربحث لائے جس میں روحانی، الہامی اور قبائلی متعارف ہوئے لیکن تخلیقی نمونہ Intelligent Design سب میں قدرے مشترک ہے ان کے مقابلے میں ارتقائی آہستہ آہستہ نمونے بیان کرکے قابلِ فہم بنا رہے ہیں یہ تبدیلی کلی اور جزوی نمونوں میں بیان ہورہی ہے۔ایسے نمونے جن کا استعمال انسانی سطح پر ناممکن ہواور چاہے اس کیلیے جتنی بھی کوشش کی جائے نا قابلِ استعمال ہوکر ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ انسان اندرونی اور بیرونی پابندیوں کا مجسمہ ہے۔ تمام تحریکوں کی طرح اسلام بھی اپنے اندر مختلف نمونے رکھتا ہے یہ نمونے پانچ ستونوں پر کھڑے کیے ہیں ان نمونوں میں تبدیلی بدعت کہلاتی ہے اور بدعت گمراہی ہے چونکہ تحریکوں کو اندرونی اور بیرونی مسائل درپیش ہوتے ہیں جو اصلیت کو متاثر کرتی ہے کئی تبدیلیاں اگلی تحریک کا پیش خیمہ بھی ہوتی ہیں
انسانی آنکھ دیکھنے کے ساتھ دماغ میں پائے جانے والے نمونوں کے ساتھ موازنہ کرتی ہے جیسے شکلوں کی پہچان کرنا، لکھے ہوئے حروف کی جگہ انکے نمونے (الفاظ) استعمال کرتا ہے، شمار کرنے کیلیے درجہ بدرجہ گنتی، گنتی کے پہاڑے، زبانوں کے قوائد۔ایسے ہی دوسری حِسیں استعمال ہوتی ہیں جیسے بولنے والے کی آواز کی پہچان، خوشبو یا بدبو کی پہچان، کھانے پینے کی چیزوں کا رواج علاقائی ہوتا ہے وہی پسند کرتا ہے اگر دوسرے علاقے کی مشہور خوراک پیش کی جائے تو پسند نہیں آتی، ایسے ہی سردی گرمی کے موسموں کی پہچان، تہذیبی نمونے، پیشہ وارانہ نمونے، تحقیقی نمونے، انسانی درجہ بندی کے نمونے، مالیاتی نمونے، زرعی دور کے نمونے سے آئی ٹی دور کے نمونے،خوراک کو محفوظ بنانا، صبح سے رات میں زندگی کے کاموں کی تقسیم، ایسے ہی ہفتوں میں تقسیم، چاند سے مہینوں کی تقسیم، سردی گرمی سے فصلوں کی کاشت کرنااور سال کی تقسیم، مردوں عورتوں میں تقسیم، عمراور جسمانی نمونے، پیسوں کے نمونے سے تقسیم، تعلیمی نمونے، علمی و تیکنیکی نمونے،اخلاقی نمونے، نفسیاتی نمونے وغیرہ شامل ہیں۔موجودہ نمونوں پر کھڑا ہوکر اگلے بہترین نمونے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے
انسانی دماغ ہر چیز میں نمونوں کی تلاش شعوری سطح پر کرتا رہتا ہے جبکہ کمپیوٹر کوڈ پر عمل کرتا ہے۔ کچھ میں اچھے نمونے زیرِ بحث آتے ہیں اورکچھ نمونوں کا دماغی نمونوں سے میل نہ کھانے پر بالکل مختلف نتائج برآمد ہوتے ہیں اس پر بھی انسان مافوق الفطرت کے حوالے کردیتا ہے۔جیسے مدہم روشنی میں غور سے دیکھنے سے کئی شکلیں بناتا ہے اور پھر اسے محسوس بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری حسیات بھی اشتراک کر لیتی ہیں تحت الشعور میں بسنے والی کہانیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔کئی نمونے جسے انسان نہیں سمجھ سکتا اس میدان کے عالم تلاش جاری رکھتے ہیں۔پیچیدہ نمونوں کیلیے مفروضے زیرِ بحث آتے ہیں آہستہ آہستہ مطلوبہ یا مضبوط نمونہ /سانچہ حاصل کرکے مافوق الفطرت سے جان چھوڑا لیتا ہے تو اسکا رواج ممکن ہوسکتا ہے جیسے فطرت، وقت، سماجیات،قدر و اختیار کی تلاش، سائنس، توانائی کا ادراک،طبی اور طبعی ترقی، نفسیاتی ترقی، خلائی سفر وغیرہ شامل ہیں
انسان اور جانوروں میں یہی فرق ہے کہ نمونوں کی پہچان اور اسکا موازنہ کرنے کی سوچ رکھتا ہے اگر یہ نمونے زرا سے بھی تبدیل ہوتے ہیں تواسے نہ سمجھ آنے پر خدا کی طرف بھیج دیا جاتا ہے پیچیدہ سے پیچیدہ نمونوں کی تلاش تک انسانی سفر جاری رہے گا…………..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“