پَطرس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی، جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹر ویو بورڈ تین ارکین پر مشتمل تھا پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔ گھر سے خوب تیار ہوکر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرغوب کرنے کی کوشش کریں گے۔ بخاری صاحب نے ایسے سوال کئے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجالائے انہوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا، "آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کرکے آئے ہیں؟" لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
"آپ شاعر ہیں؟"
"جی نہیں۔"
"دیکھنے میں تو آپ مجنوں لاہور نظر آتے ہیں۔"پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، "بہ خدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوں گور کھپوری سے ملتی ہے۔" پھر میری جانب متوجہ ہوئے، "آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟"
"جی نہیں۔"
"ضرور ملئے وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔"
پھر پوچھا، "یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں۔ جانتے ہو، کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟"
"جی ہاں۔ جو شخص ہر وقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔"
"کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے جو کتاب کی بجائے قاری کو کھاجاتا ہے۔"
پروفیسر ڈکنسن نے بخاری سے دریافت کیا، ان کے بی۔اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟"
انہوں نے میرا ایک سرٹیفیکٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا، "۳۳۹۔ فرسٹ ڈویژن۔"
"تو پھر کیاخیال ہے؟" پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔
بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، "داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انہوں نے کردیا۔"
پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا، "کونسا کام بخاری صاحب؟"
سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا، "یہی بی ۔اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا!"
دوسرے دن کلاس روم میں گئے۔ بخاری صاحب کا ان دنوں عالم شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی۔ دراز قد گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرا نی دکھائی دیتے تھے۔ ریشمی گاؤن(Gown) پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لئے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی (مشہور ہندوستانی اداکار) ان کا عزیز ترین شادگرد تھا۔ اکثر ایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے، "کیا بات ہے ساہنی آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو۔ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف د و وجہیں ہوتی ہیں۔ یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کررہا ہے یا اس کا بٹواہ خالی ہے۔"
لیکچر کسی کتاب یا نوٹس (Notes) کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگیزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روائتی انداز بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سے نہیں نکلتا تھا۔ "ڈرامہ" پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ "ہیلمٹ" پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تاثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ "کنگ لیئر" پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفان میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرارہا ہے۔ شیکسپئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھی۔ انہیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔
حافظہ غضب کا پایا تھا۔ اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انہوں نے نہیں ہم نے پڑی ہے۔
ایک بارفرانسیی فلسفی "برگساں" کی "Laughter" (مزاح) کی وضاحت فرماتے وقت انہوں نے طنزومزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں فرمایا، "انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔"
میں نے کہا "جناب بندر بھی ہنستا ہے۔"
ہنس کر فرمایا، "کیونکہ وہ انسان کا جد امجد ہے۔"
بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا، "ہنسنے کے لئے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیع اوقات ہے۔ اگر ایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گرپڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی۔ کیونکہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا ہے کہ عقل بڑی یا بھینس…… ہمدردی یا ترحم کا جذبہ ہنسی کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص سائیکل چلاتے وقت گرپڑے تو آپ اس پر ہنسیں گے لیکن اگر اسے سخت چوٹ آئی ہوتو آپ کبھی نہیں ہنس سکیں گے۔ اگر ایک ریلوے گارڈ گاڑی چلنے سے پہلے ہر مسافر کو سخت سست کہے، کھڑ کی میں سے باہر جھانکنے والے ہر بچے کو سرزنش کرے، ہر بوڑھے کو فہمائش کرے کہ اسے ڈبے میں فوراً داخل ہوجانا چاہیے، اور خود چلتی گاڑی میں سوار ہوتے وقت گرپڑے تو تمام مسافر قہقہے لگا کر اس کی بے بسی کا مذاق اڑائیں گے کیونکہ ان میں سے کسی کو اس کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوگی۔"
ایک ہی چیز المیہ اور طربیہ ہوسکتی ہے سوال ہمدردی کاہے۔ فرض کیجئے بھرے میلے میں کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میری بیوی کھوگئی ہے، کچھ لوگ اس پر ضرور ہنسیں گے۔ یہ بات دوسروں کے نقط نگاہ سے طربیہ اور خود اس شخص کے نقطہ نظر سے المیہ ہے….. مزاح بالکل اسی طرح تیار کیا جاسکتا ہے جیسے صابن یا خوشبودار تیل۔ فارمولا یہ ہے کہ دونوں چیزوں میں نامطابقت پیدا کردیجئے۔ مثال کے طور پر یہ کہنے کی بجائے ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں، یہ کہئے ہم طرفدار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں، مزاح پیدا ہوجائے گا۔"
بخاری صاحب مزاحیہ تقریر کرنے کے فن میں اما کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ سر عبدالقادر کا دور زریں تھا۔ ہر ادبی مجلس میں کرسی صدارت اور سرعبدالقادر لازم و ملزوم تھے۔ یونیورسٹی ہال میں ایک ادبی مباحثہ ہورہا تھا۔ موضوع زیر بحث تھا "صنف نازک ہی مطالعہ کا صحیح موضوع ہے"۔ جب پروفیسر دیوان چند شرما، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، تقاریر کرچکے تو سرعبدالقادر نے بخاری صاحب کو اسٹیج پر تشریف لانے کو کہا۔ سامعین ہمہ تن گوش ہوگئے کہ انہیں پوری توقع تھی اب ہنسی مذاق کے فوارے چھوٹیں گے۔ بخاری صاحب جھومتے جھامتے اسٹیج پر آئے۔ صاحب صدر کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ میں سامعین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتا ۔ بسا اوقات مجھے صنف نازک پر رشک آنے لگتا ہے۔ صاف ظاہر ہے طلباء یہ نکتہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ صنف نازک ہی مطالعہ کا اصلی موضوع ہے….. صاحب صدر! صنف نازک کے مطالعہ کے بغیر سائنس کا مطالعہ ناممکن ہے۔ کیا آپ "مقناطیسیت" کا مطالعہ صنفِ نازک کے بغیر مکمل سمجھیں گے، جب کہ آپ جانتے ہیں کہ عورت سے زیادہ پرکشش ہستی خداوند تعالیٰ نے پیدا نہیں کی۔ کیا آپ "حرارت" کا مطالعہ کرتے ہوئے عورت کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟ جب آپ جانتے ہیں کہ محفلوں کی گرمی عورت کی موجودگی کی مرہون منت ہے۔ کیا آپ "برقیات" کا مطالعہ کرتے وقت عورت کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ حوا کی بیٹیاں بادل کے بغیر بجلیاں گراسکتی ہیں….. صاحب صدر! صنف نازک آرٹ کے مطالعہ کے لئے ناگزیر ہے۔ اگر لیونارڈو، رافیل اور مائیکل اینجلز نے عورت کے خط و خال کو قریب سے نہ دیکھا ہوتا تو کیا وہ ان لافانی تصاویر اور مجسموں کی تخلیق کرسکتے جن کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا۔ کیا کالی داس، شکنتلا، شیکسپیئر، روز النڈ اور دانتے، بیتریس کا تصور بھی ذہن میں لاسکتے اگر انہوں نے صنف نازک کے مطالعے میں شب و روز نہ گزارے ہوتے ….. صاحب صدر! صنف نازک نے موسیقاروں سے ٹھمریوں اور دادروں، شاعروں سے مثنویوں اور غزلوں اور قاصوں سے کتھک اور کتھاکلی کی تخلیق کرائی۔ اگر آج فنون لطیفہ ختم ہورہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مطالعہ کے اصلی موضوع سے بھٹک گئے ہیں۔ ہم ان چیزوں کا مطالعہ کررہے ہیں جن سے بجلی کے پنکھے سستی دیسی فلمیں اور اکیثر چنبل تو معرض وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن "میگھ دوت ""تائیس" اور "منی پور رقص" کی توقع کرنا بے کار ہے۔"
مرحوم تقریر نہیں سحر کیا کرتے تھے۔ ان کی ساحری کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ ۱۹۳۲ میں انہوں نے اپنے ایک عزیز شاگرد پروفیسر آرایل مہتہ کے اصرار پر ڈی اے وی کالج لاہور میں گالز وردی کے ناول "اے مین آف پراپرٹی" پر لیکچر دیا۔ پروفیسر مہتہ ان دنوں ڈی اے وی کالج میں ملازم تھے۔ مارچ کا مہینہ تھا مطلع ابرآلود تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑی رہی تھی۔ لاہور کے کالجوں کے سینکڑوں طلباء طالبات لکچر سننے کے لئے ڈی اے وی کالج کے سائنس تھیٹر میں اکھٹے ہوئے۔ بخاری صاحب نے لیکچر کی تمہید اس فقرے سے کی "خواتین و حضرات! ڈی اے وی کالج میں یہ میرا پہلا اور آخری لیکچر ہے۔ وجہ یہ کہ اس کالج کے طلبا کا انگریزی کا تلفظ اتنا عجیب واقع ہوا ہے کہ جب وہ مجھے انگریزی میں بولتے ہوئے سنیں گے، تو یہ سمجھیں گے میں انگریزی کی بجائے فرانسیسی یا جرمن میں تقریر کررہا ہوں۔" مرحوم کو انگریزی فکشن (ناول) پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ جب وہ گالز وردی کے ناول کی وضاحت کر رہے تھے تو معلوم ہوتا تھا خود مصنف اپنی تخلیق کا تجزیہ کررہا ہے۔ طلباء ان کے لیکچر کے "نوٹس" لے رہے تھے۔ بخاری صاحب کی فصاحت اور بلاغت کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک خوب صورت فقرے کے بعد دوسرا وضع کرتے تھے اور طلباء تذبذب میں پڑجاتے کہ کون سا فقرہ نوٹ کریں اور کون سا نظر اندازکردیں۔ یکلخت باہر بارش تیز ہوگئی۔ بجلی ایک دم جو زور سے کڑکی تو کمرے کی تمام بتیاں گل ہوگئیں۔ بخاری صاحب نے تقریر منقطع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ گھپ اندھیرے میں اپنے اسی شگفتہ انداز میں تقریر کرتے رہے اور طلبا اندھیرے میں ان کے فقرے نوٹ کرنے کی کوشش میں محو رہے۔ کہیں سے شوروغل، چیخ و پکار کی آواز نہیں آئی۔ کمرے میں مکمل سناٹا تھا۔ کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد بتیاں پھر روشن ہوئیں۔ بخاری صاحب نے ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا اور تقریر جاری رکھی۔ اس تقریر کے سننے کے بعد اکثر طلباء کا یہ ردعمل تھا کہ جو باتیں ان کے اپنے پروفیسر دو سال میں نہیں بتاسکے وہ بخاری صاحب نے ایک گھنٹے کے دوران میں بتادیں۔ اسی تقریر سے متعلق مجھے ان کا ایک فقرہ یاد ہے۔ فرمایا، "مشہور انگریز نقاد "ڈاکٹر بیکر" نے انگریزی ناول پر آٹھ جلدیں لکھی ہیں۔ جن کا مجموعی وزن کوئی چار سیر ہوگا۔ ایک اور انگریز نقاد "جے بی پریسٹلے" نے ناول پر ایک کتابچہ لکھا، جس کا وزن چار تولے ہوگا۔ میری رائے میں اگر بیکر کی تمام جلدیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور پریسٹلے کا کتابچہ دوسرے میں تو یقیناً پریسٹلے کا پلڑا بھاری رہے گا۔"
سناتن دھرم کالج میں ایک ادبی مباحثہ ہوا۔ بخاری صاحب وہاں صاحب صدر کی حیثیت سے موجود تھے۔ موضوع زیر بحث۔ "عورت تمہارا دوسرا نام کمزوری ہے۔" لاہور کے بہترین مقرر اس مباحثے میں حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے اکثر یورپ کی سیر کرچکے تھے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں یورپین عورتوں کو خاص طور پر آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نے ہندوستان کی تاریخ سے مثالیں دے کر ثابت کیا کہ عورت نے ہرگام پرمرد کو دھوکا دیا ہے۔ سکھ مہارانی "جنداں" کا ذکر کیا گیا، حوّا کمزوری کی طرف بار بار اشارے کئے گئے۔ بحث کے اختتام پر بخاری صاحب نے فرمایا، "میں نے مخالفین کے دلائل بڑے غور سے سنے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کے دلائل صحیح اور نتائج غلط ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے کہ عورت مرد کو ہمیشہ گمراہ کرتی رہی ہے تو میرے خیال میں یہ مرد کی کمزوری اور عورت کی شہ زوری ہے….. حالانکہ میں نے بھی یورپ کی سیر کی ہے لیکن عورتوں سے متعلق میرا تجربہ اتنا وسیع نہیں جتنا میرے چند دوستوں کا، جنہوں نے یورپین عورتوں کی کمزوری کا بیان چٹخارے لے لے کر کیا….. کہا گیا کہ یورپ میں عورت شکاری اور مرد شکار ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہمیں ہر شیر اور عقاب کو کمزور سمجھنا چاہیے۔ دراصل بات یہ ہے خدا پنچ انگشت یکسان نہ کرد۔ نہ ہر عورت کا نچ کی چوڑی ہے اور نہ ہر مرد فولاد کا پنجہ"۔
بخاری صاحب اپنے طلباء میں تنقیدی شعور پیدا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ رٹے رٹائے فقروں سے انہیں بہت نفرت تھی اور اگر کسی طالب علم نے کسی مشہور نقاد کے قول کا حوالہ دیا ادھر جھٹ انہوں نے بھپتی کسی، "منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے، اجی حضرت یہ فرمان تو" اے۔سی بریڈ لے" کا ہے۔ خاکسار بریڈ لے کی نہیں آپ کی رائےدریافت کرنا چاہتا ہے" جب ہمارا پہلا سہ ماہی امتحان ہوا تو میں نے اپنے پرچے میں متعدد مشہور نقادوں کے فقرے نقل کردیئے۔ بخاری صاحب نے مجھے "صفر" نمبر عطا کرتے ہوئے پرچے کے تائیٹل پیج پر لکھا، "آپ کا سارا پرچہ وادین میں ہونا چاہیے۔ آپ نے جگہ جگہ "ایف۔ ایل لوکس" اور پروفیسر "کلرکوچ" کے اقوال نقل کردیئے ہیں۔ یہ دنوں کیمبرج میں میرے استاد تھے۔ یقیناً میں اس قابل نہیں کہ اپنے استادوں کا ممتحن بن سکوں۔ مجھے تو آپ کا امتحان لینا ہے۔"
کلاس روم میں کبھی کبھی جان بوجھ کر الٹی بات کہہ دیتے۔ ساری کلاس پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتی۔ وہ ہر ایک معترض کو ایسا دندان شکن جواب دیتے کہ بے چارہ بغلیں جھانکنے لگتا۔ سارا پیریڈ بحث مباحثہ میں گزر جاتا۔ سب کو قائل کرنے کے بعد فرماتے "یہ بات میں نے صرف اشتعال دلانے کے لئے کہی تھی ورنہ اس میں کون کافر شک کرسکتا ہے کہ شیکسپئر بہت بڑا فن کار ہے۔ "سیمینار" کے پیریڈ میں جہاں طلباء کی تعداد تھوڑی ہوتی تھی، وہ ہر ایک طالب علم پر جرح کیا کرتے تھے۔ ایسی کڑی جرح کہ طلبہ کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتیں۔ خون خشک ہوجاتا۔ ایک دفعہ مجھ سے پوچھا، "آپ نے اپنے جواب مضمون میں لکھا ہے کہ "ٹینی سن" کے کلام میں موسیقیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ موسیقیت سے آپ کی کیا مراد ہے؟"
"موسیقیت سے میرا مطلب یہ ہے کہ ٹینی سن کا کلام پڑھتے وقت ایک دلکش لے یا تال کا احساس ہوتا ہے۔"
"لے یا تال کیا چیز ہے؟"
"آواز کا اتار چڑھاؤ"
"ٹینی سن کے کسی مصرعے کا حوالہ دے کر بتائیے۔"
میں نے گھبراہٹ کے عالم میں یونہی ایک مصرع پڑھ دیا۔ فرمانے لگے، "یہ تو اتنا کرخت ہے کہ اس کے مقابلے میں کوّے کی آواز زیادہ سریلی معلوم ہوگی۔ کہیں یہ بات تو نہیں کہ آپ موسیقی اور شوروغل کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔"
"سیمینار" میں اکثر ہندوستانیوں کی عادات پر دل چسپ تبصرہ کیا کرتے تھے، "ہم ہندوستانی بھی تین لوگ سے نیارے ہیں۔ انگلینڈ میں اگر کسی کے گھر موت واقع ہوجائے تو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہاں کسی کا دوردراز کا رشتہ دار الله کو پیار ہوجائے تو ساری رات دھاڑیں مار مار کر ہمسایوں کے علاوہ گلی محلہ والوں کی نیند حرام کردیتا ہے۔"
"شور و غل کا ہماری زندگی میں کتنا دخل ہے، انگلینڈ اور فرانس میں سڑک پر چلتے ہوئے لوگ اتنی دھیمی آواز میں باتیں کرتے ہیں گویا کاناپھوسی کررہے ہوں۔ ہم ہندوستانی"مدہم کی بجائے پنجم" میں باتیں کرنے کے عادی ہیں، بخدا ہم بولتے نہیں علاتے ہیں۔"
"ہم ہندوستانی جب تقریر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے گھر والوں سے لڑکرآئے ہیں اور سامعین پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ماتمی قرارداد بھی ہم اس انداز میں پیش کرتے ہیں جیسے ہمسایہ ملک سے اعلانِ جنگ کررہے ہوں۔"
مبالغہ آمیزی ہماری طبیعت کا شعار بن چکی ہے۔ یہاں ہر کانفرنس 'آل انڈیا، یا ''بین الاقوامی' ہوتی ہے۔ چاہے شرکت کرنے والوں کی تعداد ایک درجن کیوں نہ ہو……چند دن ہوئے میں نے موچی دروازے کے اندر ایک دکان دیکھی جس میں ایک ٹوٹا ہوا ہارمونیم اور خستہ حال طبلہ پڑا تھا۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا "انٹرنیشنل اکیڈیمی و میوزک اینڈ ڈانسنگ۔"
"ہندوستانی موسیقی میں سوز ہے جوش نہیں۔ کیمبرج میں ایک بار میں نے اپنے استاد کلرکوع کو پکے گانوں کے چھ سات ریکارڈ سنوائے، اس کے بعد ان کی ہندوستانی موسیقی کے بارے میں رائے دریافت کی۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے،"بورکرنے کے لئے ایک ہی ریکارڈ کافی تھا، آپ نے چھ سات سنوانے کا خوا مخواہ تکلف کیا۔"
بخاری صاحب سے آخری ملاقات جون ۱۹۴۷ء میں ہوئی، تب وہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر کے عہدہ سے سبکدوش ہوکر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوچکے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے فرمانے لگے، "آپ ڈی اے وی کالج میں یونہی وقت ضائع کررہے ہیں۔ غیر ادبی ماحول میں رہنا ذہنی خودکشی کے مترادف ہے۔ میں جلد ہی آپ کو گورنمنٹ کالج میں لانے کی کوشش کروں گا۔ "ان دنوں تحریک پاکستان اپنے شباب پر تھی۔ کسی پروفیسر نے کہا اگر پاکستان بن گیا تو ہم کپور کو ہندوستان میں نہیں جانے دیں گے۔ البتہ انہیں مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا۔ "بخاری صاحب نے چونک کر فرمایا، "حضرت پہلے ہم اور آپ تو مشرف بہ اسلام ہولیں، اس غریب کی باری تو بعد میں آئے گی۔ آخر ہم اور آپ میں کون سی مسلمانی رہ گئی ہے۔"
آل انڈیا ریڈیو کاتذکرہ چھڑا کہنے لگے" ایک بار میرے متعلق پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ میں دوست پرور ہوں۔ آل انڈیا ریڈیو میں میں نے اپنے دوست اور شاگرد اکھٹے کر رکھے ہیں۔ میں نے اخبارات میں ایک بیان دیا جس میں کہا یہ الزام سو فیصد درست ہے اب اس کا کیا کیا جائے کہ بدقسمتی سے میرے تمام شاگرد اور احباب قابل ترین اشخاص واقع ہوئے ہیں اور قابل دوست یا شاگرد، جاہل دشمن سے ہمیشہ اچھا ہوتاہے۔"
بخاری صاحب ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر میں ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ ان کا مقبرہ دیار غیر میں بنا۔ ہندوستان اور پاکستان سے اتنی دور کہ ان کے شاگرد اور عقیدت مند اس پر آنسو بہانے یا شمع جلانے کی سعادت بھی حاصل نہیں کر سکتے۔لیکن فہم و فراست کی شمعیں جو وہ خود جلاگئے۔ ان کی روشنی ابدی ہے۔ ان کی دین صرف "مضامین پطرس" نہیں، ان کی اصلی دین ان کے وہ مایہ ناز شاگرد ہیں، جنہوں نے ادب اور فن میں نئی راہیں نکالیں اور جنہیں اپنے "پیرومرشد" پر جسد خاکی کے آخر سانس تک فخر رہے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...