انسانی تعاون کے بڑے نیٹ ورک کیسے بنتے ہیں؟ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑوں کی بہتات کے باوجود دنیا ایک گلوبل ولیج کیسے بن گئی؟ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ پیسہ۔
آپ دکان پر جا کر ایک قمیض خریدتے ہیں۔ اس کے لئے پیچھے ہزاروں لوگوں کی محنت شامل تھی۔ آپ شاید ان میں کسی کو بھی نہیں جانتے۔ یہ سب آپس میں ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے۔ کپاس اگانے والا زمیندار، اس پر کام کرنے والا مزارع، کھاد بنانے والا کارخانہ، کیڑے مار دوا تیار کرنے والا، چھڑکنے والا، کپاس سے دھاکہ بنانے والے، دھاگے سے کپڑا بنانے والا کارخانہ، فیشن ڈیزائنر، کپڑے سے قمیض سینے والے، ان فیکٹریوں کے مزدور، ان کی مشینیں بنانے والے، اس سب کو ٹرانسپورٹ کرنے والے ٹرک ڈرائیور، بجلی بنانے کے ڈیم کے انجینیر، تیل نکالنے والے، دوکان تک مال پہنچانے والے، دوکان کا سیلزمین، ان میں سے چند ہیں۔ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہوں جن کو آپ سخت ناپسند کرتے ہوں اور یہ ایک دوسرے کے دشمن ہوں۔ لیکن پیسہ ان کو ایک زنجیر میں جوڑ دیتا ہے۔ تعاون ممکن کر دیتا ہے اور آپ تک قمیض پہنچا دیتا ہے۔ ہر ایک کا آپس میں تعاون پیسے نے ممکن کیا۔ لیکن پیسہ، کرنسی، مال و دولت۔ یہ کیا ہے؟ ہم اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اس کو کوئی اصل شے سمجھتے ہیں۔ یہ صرف ایک تصور ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے بحرالکاہل کے جزیرے ییپ میں چلتے ہیں۔
یہاں پر سونا یا چاندی نہیں لیکن صدیوں پہلے ییپ پر رہنے والے مہم جو اس جزیرے سے سینکڑوں میل دور پر پہنچے تو انہوں نے چونے کے پتھر دریافت کئے۔ ان پتھروں کو بڑی ڈسک کی شکل میں کاٹا گیا اور اپنی چھوٹی کشتیوں میں لاد کر ییپ میں لایا گیا۔
ان پتھروں کو پہلی مرتبہ اٹھا کر یہاں پر لائے جانے کے اصل محرک کا تو علم نہیں لیکن کسی وقت ییپ کے معاشرے نے اس چیز کا احساس کر لیا جو ہر معاشرہ کر لیتا ہے۔ ان کو کوئی ایسی شے درکار تھی جس پر معاشرے میں ہر کوئی اتفاق کر لے کہ اس کے ذریعے لین دین کیا جا سکتا ہے۔ ییپ کے باشندوں نے اس کے لئے یہ پتھر استعمال کئے۔
پتھر بڑی خرید و فروخت کے لئے استعمال ہوتے۔ زمین خریدنے، وراثت منتقل کرنے جیسے کاموں میں۔اگر میرے پاس یہ پتھر ہے اور مشکل حالات میں پھنس گیا ہوں۔ فصل خراب ہو گئی ہے یا کسی چیز کی قلت کا سامنا ہے تو پتھر دوسرے کو دے کر اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہوں۔
اس کرنسی کی ایک اور خاصیت ہے۔ یہ بہت وزنی ہے۔ بڑا پیس ایک گاڑی سے بھی زیادہ وزنی ہے تو پھر اس کو ہلایا کیسے جاتا تھا؟ اس کا بہت آسان حل تھا۔ ان کو ہلایا ہی نہیں جاتا تھا۔ اگر ایک شخص نے اپنا پتھر دوسرے کے حوالے کرنا ہے تو وہ بس اس کا اعلان کر دیتا۔ سب کو پتا لگ جاتا۔ پتھر وہیں کا وہیں رہتا۔ مالک بدل جاتا۔
یہاں تک کہ کرنسی کے طور پر استعمال کئے جانے کے لئے اس کو جزیرے پر ہونے کے ضرورت بھی نہیں تھی۔
ایک بار بڑا پتھر کشتی میں لاد کر لایا جا رہا تھا۔ جزیرے کے قریب پہنچے تو طوفان نے آ لیا۔ اس دوران میں یہ پتھر کشتی سے گر کر سمندر کی تہہ میں دفن ہو گیا۔ عملہ واپس پہنچ گیا اور سب کو بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ سب نے فیصلہ کیا کہ یہ پتھر بھی کرنسی کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ سمندر کی تہہ میں ہے تو کیا ہوا۔ اس واقعے کو سو سال سے زیادہ ہو گئے۔ اس پتھر کو دیکھنے والا بھی کوئی زندہ نہیں لیکن آج بھی یہ پتھر کسی کی ملکیت ہے اور اس کی ملکیت کے حق کے عوض خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
کیا اس جزیرے کا سسٹم عجیب ہے؟ نہیں۔ لین دین کا دنیا بھر میں نظام اس سے مختلف تو نہیں۔ آپ نے آن لائن جا کر بجلی کا بل ادا کیا تو کیا ہوا؟ دنیا میں کیا تبدیلی آئی؟ بینک اکاوٗنٹ کے چند اعداد تبدیل ہوئے۔ کچھ آپ کے اکاونٹ کے اور کچھ پاور کمپنی کے اکاوٗنٹ کے۔ گویا سمندر کی تہہ کا پتھر کسی اور کا ہو گیا۔ سب نے اس کو مان لیا اور کاروبارِ زندگی چلنا ممکن رہا۔
چاندی کے سکوں سے بینکوں میں پڑے سونے تک، کاغذ کے نوٹوں سے بینک کے کمپیوٹر میں محفوظ اعداد تک، جزیرے کے پتھروں سے بلاک چین تک۔ روپیے پیسے، مال و دولت اور کرنسی کا نظام یہی ہے۔ جس حقیقت پر سب اتفاق کر لیں، وہ ایک طاقتور حقیقت ہے۔ پیسے کے سراب کے بغیر نہ تجارت ہوتی، نہ تعاون، نہ ترقی اور نہ ہی یہ سب تمدن۔
ییپ کے یہ پتھر آج بھی کرنسی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ ساتھ لگی تصویر ان کے ایک "سنٹرل بینک" کی۔