سلطان بہلول لودھی کا دادا ملک بہرام تلاش معاش میں ہندوستان آیا اور حاکم ملتان کی ملازمت میں منسلک ہوکر وہیں تووطن اختیار کرلیا۔ بہلول کے باپ ملک کالا کو خضر خاں نے دورالا ( نزد سرہند ) کا حاکم بنا دیا تھا۔ ملک کالا کی بیوی جو اس کے چچا کی بیٹی تھی اس کے وضع حمل کا زمانہ قریب تھا کہ مکان کی چھت گرنے سے دب کر مرگئی مگر قدرت خدا سے بچہ زندہ رہا جسے مردہ عورت کا پیٹ چاک کرکے نکال لیا گیا۔ اس بچہ کو پیار سے گھر والے بلو کہتے تھے یہی بلو اگے چل کر لودھی پٹھانوں کی حکومت کا بانی بنا اور سلطان بہلول کے نام سے مشہور ہوا۔ جب بہلول کا باپ ملک کالا ایک لڑائی میں مارا گیا تو بہلول اپنے چچا اسلام خاں کے ہاں سرہند چلا گیا۔ اسلام خاں نے اپنی بیٹی شمس خاتون کی شادی بہلول سے کردی اور اس کی قابلیت اور بہادری کو دیکھ کر اپنے بیٹوں کے بجائے اسے اپنا جانشین نامزد کردیا۔
سلطان محمد شاہ ( خاندان سید ) المتوفی ۸۴۹ھ / ۱۴۴۵ء نے پٹھانوں کو سرہند سے بیدخل کرنے کے لئے سکندر نحقہ اور جرت کہکڑ کو سرہند بھیجا۔ جرت کہکڑ نے بہلول کے چچا ملک فیروز کو قرآن پاک پر عہد کرنے کے باوجود فریب سے گرفتار کرلیا اور اسکے بہت سے ہمراہیوں کو قتل کرادیا۔ جب اس حادثہ کی خبر سرہند میں پٹھانوں کو پہنچی تو ملک فیروز کے فرزند شاہین خاں نے پٹھانوں کے اہل و عیال کو بہلول کے ہمراہ محفوظ مقام پر بھیج دیا اور خود پٹھانوں کی جمعیت کے ساتھ شاہی لشکر پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں شاہیں خاں اور بہت سے پٹحان مارے گئے اور شاہی لشکر کو شدید نقصان پہونچا۔ جب پٹھانوں کے کٹے ہوئے سر جرت کہکڑ کے سامنے لائے گئے تو وہ ایک ایک سر اُٹھا کر ملک فیروز سے نام دریافت کرتا جاتا تھا۔ جب ملک فیروز کے فرزند شاہین خاں کا سر سامنے آیا تو ملک فیروز نے کہا کے میں اسے نہیں جانتا کہ یہ کون ہے، یہ سن کر شاہی لشکر کے آدمیوں نے کہا کہ یہ شخص بڑا بہادر تھا۔ اس نے جنگ میں بڑی دلیری دکھائی اور ہمارے لشکر کے بہت سے آدمیوں کو قتل کیا۔ یہ سن کر ملک فیروز رونے لگا۔ جرت کہکڑ نے رونے کی سبب دریافت کیا تو ملک فیروز نے جواب دیا کہ یہ میرے بیٹے کا سر ہے، میں نے پہلے اس خیال سے نہیں بتایا کہ میدان جنگ میں اس سے اظہار بزدلی ہوا ہو جسے سنکر مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔ اب مجھے اطمینان ہو کہ یہ بہادر پٹھان تھا۔ جس نے پٹھانوں کے شایان شان بہادری کا مظاہرہ کیا۔
تاریخوں میں یہ بات مشہور ہے کہ بہلول سمانا میں ایک مجزوب درویش کی خدمت میں حاضر ہوا۔ درویش نے بہلول کی جانب مخاطب ہوکر کہا کہ کون ہے جو دہلی کی بادشاہت دوہزار ٹنکہ میں خریدنا چاہتا ہے۔ بہلول نے سولہ سو ٹنکہ جو اس کے پاس تھے درویش کے سامنے رکھ دیئے۔ مجزوب درویش نے بہلول کی نزر قبول کی اور بادشاہت کی مبارک باد دی۔ اس بات سے بہلول کے ساتھیوں نے اس کا مذاق اڑایا تو بہلول نے جواب دیا کہ اگر درویش کی بات سچی ہوئی تو سودا بہت ہی سستا رہا۔ اگر صحیح ثابت نہ ہوئی تو درویش کی خدمت بھی کار ثواب ہے۔
چنانچہ اس واقعہ کے بعد بہلول کے سر میں بادشاہت کا سودا سمایا جس نے پٹھانوں کی ایک جماعت فراہم کرکے اول سرہند پر قبضہ جمایا اور بعد میں حکمت عملی سے دہلی میں حمید خاں کو قید کرکے اور سلطان علاوالدین (خاندان سید) کو دہلی سے نکال کر ۸۵۵ھ / ۱۴۵۱ء میں تخت دہلی پر قبضہ کرلیا اور بلو سے سلطان بہلول لودھی بن گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں پٹھانوں کے اقبال کا ستارہ ہندوستان میں عروج پر تھا اور فتح و نصرت ان کی رکاب کو بوسہ دے رہی تھی۔ تخت نشین ہونے کے کچھ عرصہ بعد بہلول ملتان اور پنجاب کے انتظام کے لئے چلا گیا پیچھے سے محمود شرقی المتوفی ۸۶۱ھ / ۱۴۵۶ء نے میدان خالی پاکر لشکر عظیم کے ساتھ دہلی پر حملہ کردیا۔ دہلی میں پٹھانوں کی تعداد بہت کم تھی جو ایک بڑے تیاری لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ اس وجہ سے پٹھان معہ اہل و عیال قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے۔ بہلول کی ساس بی بی متو نے مردوں کی کمی پوری کرنے کو قلعہ میں موجود تمام عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر لڑنے کے لئے کھڑا کردیا۔ جو قلعہ کی دیوار پر سے دشمن پر تیر باری اور سنگ باری کرتیں۔ جب بہلول کو دیپال پور میں محمود شرقی کے دہلی پر حملہ کی اطلاع ملی تو اس نے وہی سے تیز رفتار قاصد اس پیغام کے ساتھ افغانستان بھیجے کہ اللھ تعالٰی نے دہلی کی بادشاہت پٹھانوں کو عطا فرمائی ہے مگر سلاطین ہند انہیں یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس وقت پٹھانوں کے اہل و عیال قلعہ دہلی میں محصور ہیں، مستورات کی شرم ہماری اور آپکی ایک ہے۔ شرم اور ناموس کا اقتضا یہ ہے کہ اپ اپنے قبیلوں کے ساتھ یہاں آئیں اور اپنے ناموس کی حفاظت کریں اور یہ بھی لکھا کہ جب یہاں آو گے تو اتنی دولت پاو گے کہ بھول کر بھی اپنے وطن کو یاد نہیں کرو گے۔ اس پیغام کے ملتے ہی پٹھانوں کے قبائل شروانی، شیرانی، لوحانی، پنی اور ناغڑ بہ سرعت تمام ہندوستان پہنچے چونکہ ناغڑ پٹھان لودھیوں سے قرابت قریبہ رکھتے تھے، یعنی ناغڑوں کے جد اعلٰی ناغڑ ابن دانی کی شادی عبد الرحٰمن خاں لودھی کی دختر سراج بانو سے ہوئی تھی۔ نیز احمد خاں ولد عبدل خاں بہلول کے امراء میں تھے۔ لہذا ایسے موقع پر قبیلہ ناغڑ کے پٹھانوں کا سلطان بہلول کی مدد کو پہنچنا لازمی امر تھا. چنانچہ یونس خاں ولد احمد خاں ناغڑ پٹھانوں کی جمیعت کے ساتھ ۸۵۶ھ / ۱۴۵۲ء میں ہندوستان پہنچے اور ان سب لڑائیوں میں شریک ہوئے جو سلطان بہلول اور شاہان شرقی کے درمیان ۸۵۷ھ / ۱۴۵۳ء سے ۸۷۸ھ / ۱۴۷۳ء تک ہوتی رہیں۔ حسین شاہ شرقی جو دیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ دہلی پر چڑھ آیا تھا، سلطان بہلول نے اس سے صلح کی درخواست کی اور ہر چند کوشش کہ کہ جنگ نہ ہو مگر حسین شاہ کے سر میں کثرت فوج کا نشہ سوار تھا۔ اس نے غرور تکبر سے صلح کا پیغام ٹھکرا دیا۔ آخر مجبور ہوکر سلطان بہلول جنگ کے لئے تیار ہوا اور اٹھارہ ہزار پٹھانوں کے مختصر لشکر کے ساتھ جو بلحاظ تعداد ایک اور چھ کا مقابلہ تھا جمنا کو عبور کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ جو سب گھوڑ سوار تھے حسین شاہ کے لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ اس اچانک حملہ سے حسین شاہ اور اس کا لشکر اس قدر پریشان ہوا کہ سوائے فرار چارہ نہیں دیکھا۔ اس بدحواسی کے عالم میں حسین شاہ اپنے حرم کو بھی ساتھ نہ لیجا سکا۔ جنھیں بعد میں سلطان بہلول نے اپنے سپاہیوں کی حفاظت میں عزت و آبرو کے ساتھ حسین شاہ کے پاس بھیجدیا۔ سلطان بہلول کے بعد اس کا فرزند نظام خاں، سلطان سکندر کے نام سے ۸۹۴ھ / ۱۴۸۸ء میں باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ سکندr ایک سنار کی لڑکی بہیما جس کا اسلامی نام زیبا خاتون رکھا کے بطن سے تھا۔ بہیما بہت حسین و جمیل تھی جس پر بہلول عاشق ہوگیا تھا۔ سلطان بہلول نے بہیما کے والدین کو رضامند کرکے اسے مسلمان بنا کے نکاح کرلیا جو زیبا خاتون کے نام سے بیگم بنگیٰ۔ سکندر کی تخت نشینی کے موقع پر بعض چوٹی کے پٹھان امراء میں اختلاف رائے ہوا. جن کو ایک سناری کے بیٹے کو بادشاہ بنانا ناگوار تھا. لیکن ایک تو سکندر کی ذاتی قابلیت، دوسرے سکندر کی والدہ بیگم زیبا خاتون کی کوشش نے سکندر کو کامیاب کیا۔ انتخاب کے سلسلے میں عیسٰی خاں جو بہلول کا چچازاد بھائی تھا اور خان خاناں قرملی میں سخت کلامی ہوئی مگر آخر میں سب ہی نے سکندر کو بادشاہ تسلیم کرلیا۔ سلطان سکندر نے تخت نشین ہونے کے بعد اپنے بھائی باریک شاہ کے پاس جو جونپور کا حاکم تھا، اپنے سکریٹری کے زریعے اتحاد اور اتفاق کا پیغام بھیجا۔ مگر باریک شاہ نے سکندر کو بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور جنگ کو اتحاد پر ترجیح دی۔ آخر مجبور ہوکر سکندر نے باریک شاہ کے خلاف فوج کشی کردی اور اسے شکست دے کر کالا پہاڑ کو جو باریک شاہ کی فوجوں کا روح رواں تھا گرفتار کرلیا۔ اس وجہ سے باریک شاہ اطاعت کرنے پر مجبور ہوا۔ جب کالا پہاڑ سکندر کے سامنے لایا گیا تو سکندر نے اس سے کہا کہ آپ تو میرے چچا ہیں اور باپ کی جگہ ہیں لہذا آپکا احترام مجھ پر لازم ہے، یہ کہکر اسے رہا کردیا اور بھائی باریک شاہ کے ساتھ بھی بہت عزت سے پیش آیا۔ اس شریفانہ حسن و سلوک سے دونوں مطیع ہوگئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ حلم کی تیغ، تیغ آہنی سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ تیغ آہنی تو صرف زخم لگاتی ہے، مگر حلم کی تیغ دل کی گہرائیوں تک اتر جاتی ہے۔ کسی نے کہا ہے: تیغ حلم از تیغ آہن تیز تر
بل رسد لشکر ظفر انگیز تر سلطان سکندر نے ۸۹۷ھ / ۱۴۹۱ء میں قلعہ بیانا فتح کیا اور ۹۰۰ھ / ۱۴۹۴ء میں پٹنہ اور بہار کے دیگر مقامات فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل کرلئے۔ بنارس کے قریب برسات اور موسم کی خرابی کی وجہ سے سلطانی لشکر کو گھوڑوں اور سامان کا بہت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ حسین شاہ شرقی نے شاہی لشکر کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ایک مرتبہ اور قسمت آزمائی کی اور سکندر کے لشکر پر جو خستہ ہورہا تھا حملہ کردیا۔ مگر پٹھان باوجود گھوڑوں اور سامان کی کمی اور خوراک کی قلت کے بڑی بہادری سے لڑے اور حسین شاہ کو شکست دیکر اسے فرار ہونے پر مجبور کردیا جو بنگال کی جانب چلا گیا اور اسی پرشاہان شرقی کا خاتمہ ہوگیا۔ ناغڑ پٹھانوں نے اپنے سردار قبیلہ یونس خان کی ماتحتی میں سلطان بہلول لودھی اور سلطان سکندر کے ہمرکاب ہو کر ان تمام لڑائیوں میں شریک رہے جو شاہان شرقی اور چند ہندو راجاوں سے ہوئیں۔ جن میں جنگ دہلی، جونپور، پٹنہ، اٹاوہ، شمس آباد، بیانا اور گوالیار قابل زکر ہیں ان تمام لڑائیوں میں ناغڑ پٹھانوں نے اپنی فطری شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھائے۔ سلطان سکندر نے مبارک خاں حاکم جونپور کی بددیانتی کا سختی سے محاسبہ کیا تو پٹھان امراء بادشاہ سے بدگمان ہوگئے۔ مگر سلطان سکندر جیسا انصاف پسند اور بیدار مغز بادشاہ پٹھانوں کے امراء کی بیجا باتوں کو کب گورا کرسکتا تھا۔ سلطان سکندر نے ناراض ہوکر ۹۱۰ھ / ۱۵۰۴ء میں پٹھان امراء کو اپنی اپنی جاگیروں پر چلے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ اسی سلسلے میں اسمعٰیل خاں ناغڑ جنھیں سکندر نے ” دلاور خاں ” کا خظاب دیا تھا اور جو سلطان سکندر کے سکریٹری بھی تھے اپنے والد نواب یونس خاں کی جگہ نرہڑ کی جاگیر کا فرمان اپنے نام حاصل کرکے نرہڑ آگئے۔
سلطان سکندر نے ۹۲۳ھ / ۱۵۱۷ء میں داعیٰ اجل کو لبیک کہا۔ سلطان سکندر جملہ صفات سے متصف تھا، عالم، منتظم، منصف اور پابند شریعت تھا۔ پولو کے کھیل کا بہت شوقین تھا حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی اگر اچھا میدان مل جاتا تو پولو سے دل بہلایا کرتا تھا۔ سکندر کا دور حکومت تاریخ ہند میں خاص مقام رکھتا ہے۔ کسی شاعر نے سکندر کی تعریف میں بہت صحیح کہا ہے:
سکندر شہہ ہفت کشور نماند
نماند کسے چوں سکندر نماند سکندر کے بعد اس کا فرزند ابراہیم ۹۲۳ھ / ۱۵۱۷ء میں باپ کی جگہ بادشاہ ہوا۔ اس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے بھائی جلال خاں کو فریب سے قتل کرادیا۔ اس ناعاقبت اندیش بادشاہ نے اپنے باپ دادا کا طریقہ جو نیک سلوک اور مساوات کا پٹھانوں کے ساتھ تھا چھوڑ کر اور پٹھانوں کو اپنا دست و بازو سمجھنے کے بجائے ان سے ادنیٰ ملازمین کے مثل سلوک کرنے لگا۔ اس نے اعظم ہمایوں جیسے بزرگ اور با اثر امیر کو قید خانہ میں ڈال کر قتل کرادیا۔ ابراہیم کے اس نازیبا سلوک سے دلبرداشتہ ہو کر پٹھان امراء سلطان ابراہیم کو چھوڑ کر چلے گئے اور کئی امراء جیسے دولت خاں لودھی، ابراہیم کا چچا زاد بھائی عالم خاں اور اسمعیل خاں بلوائیٰ مغل بادشاہ بابر سے ملے اور اسے ہندوستان پر لشکر کشی کرنے کی ترغیب دی جو مغلوں کے لشکر کے ساتھ ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ سلطان ابراہیم کی ناعاقبت اندیشی اور پٹھانوں کے اس نفاق کا وہی حشر ہوا جو قدرت کی جانب سے ہر نفاق کا مقرر ہے، یعنی اگر اتفاق اور اتحاد برقرار رہا تو آزادی ورنہ بربادی۔ رسول اللھ صلی اللھ وسلم کا ارشاد ہے ” الجماعتھ رحمتھ واتفرقھ عذاب ” اور حکیم ملت شاعر اسلام علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ: من تشبہ ستم ز فیاض حیات
اختلاف تشت مقراض حیات ۹۳۳ھ / ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے مشہور میدان میں بابر نے ابراہیم کو فیصلہ کن شکست دی، جس میں ابراہیم مارا گیا اور اسی کے ساتھ لودھی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ لودھی حکومت کا خاتمہ بابر کے ہاتھوں نہیں بلکہ خود پٹھانوں کے ہاتھوں ہوا۔ خان بہادر میجر محمد یسٰین خان ناغڑ صاحب کی کتاب ” قبیلہ ناغڑ ” سے اقتباس# پختون_یار_واورہ ..
د پټانانو په لاس کې د پټان حکومت پای
ملک بهرام ، د سلطان بهلول لودي نيکه ، د روزګار په لټه کې هند ته راغلل او د ملتان د واکمن په خدمت کې حاضر شو. د بهلول پلار ملک کلا د خدر خان لخوا د سوراله (سرهيند ته نږدې) واکمن شو. د ملک کلا میرمن ، چې د هغه د تره د لور لور وه ، د زیږون په وخت کې وه کله چې د کور چت سقوط وکړ او هغه په مرګ ووژل شوه ، مګر د خدای په فضل سره ماشوم ژوندی پاتې شو او د مړې شوې ښځې معدې ټوټه شوه. دغه ماشوم د کورنۍ لخوا په ډیر شوق سره بلو نومیږي.دا بلو د لودي پټنس حکومت بنسټ ایښودونکی شو او د سلطان بهلول په نامه مشهور شو. کله چې د بهلول پلار ملک کلا په جګړه کې ووژل شو ، بهلول د خپل تره اسلام خان سره سرېند ته لاړ. اسلام خان له خپلې لور شمس خټون سره بهلول سره واده وکړ او د هغې وړتیا او زړورتیا یې ولیدله او د زامنو پرځای یې د هغه ځای ناستې په توګه وټاکله.
سلطان محمد شاه (د سید کورنۍ) په AH ه / / AH ه in کې وفات شوې ، سکندر نههکا او جرات کاکړ د سرهند څخه د پټانانو د ایستلو لپاره سریند ته واستول. جرات کاهکار په تقلبي ډول د بهلول تره تره ملک فیروز د قرآن کریم سره د ژمنې سربیره ونیول او د هغه ډیری ملګري یې ووژل. کله چې د دې پیښې خبر په سرهنډ کې پټانانو ته ورسید ، شاهین خان د ملک فیروز زوی ، د بهلول سره په ګډه د پټانانو کورنۍ خوندي ځای ته واستاوه او پخپله شاهي اردو یې د پټانانو یوې ډلې سره برید وکړ. په دې جګړه کې شاه خان او ډیری پټانان ووژل شول او شاهي لښکر ته یې درانه زیانونه واړول. کله چې د پټانانو ټوټې شوي سرونه د جاکات کاهکړ پر وړاندې راوړل شول ، نو هغه به یو له بله خپل سر راپورته کړ او د ملک فیروز څخه به یې د هغه د نوم غوښتنه وکړه. کله چې د ملک فیروز زوی شاهین خان مخې ته راغی ، ملک فیروز وویل چې نه پوهیږي هغه څوک دی. د دې خبرې په اوریدو سره د شاهي لښکر سړو وویل چې دا سړی ډیر زړور و. هغه په جګړه کې لوی زړورتیا وښوده او زموږ د اردو ډیری سړي یې ووژل. د دې خبرې په اوریدو سره ملک فیروز په ژړا پیل وکړ. کله چې جرات کاکړ د ژړا لامل وپوښت ، نو ملک فیروز ځواب ورکړ چې دا زما د زوی سر دی. ما په لومړي سر کې دا فکر نه کاوه چې دا د جګړې په ډګر کې د بزدلي څرګندونه وه چې باید ما شرمنده کړي. اوس زه مطمین یم چې هغه یو زړور پټان دی. کوم چې د پټوانو ویاړلي زړورتیا وښوده.
دا په تاریخ کې ښه پیژندل شوي چې بهلول په سمانا کې د مبارک درویشانو په خدمت کې برخه اخیستې. بهلول ته په خطاب کې ، درویش وویل ، څوک چې غواړي د ډیلي پاچا دوه زره روپۍ واخلي؟ بهلول teenteen سوه ټانکونه چې هغه د درویشانو مخې ته کېښودل. مجذوب درويش د بهلول نظر ومنلو او پاچاهي ته يې مبارکي ورکړه. کله چې د بهلول ملګرو د هغه ټوکه وکړه ، بهلول ځواب ورکړ چې که د درویش خبرې رښتیا وې ، نو معاملې به یې خورا ارزانه شوې وی. که دا سم نه وي ثابت شوی ، نو د درویشانو خدمت هم اجر دی.
نو د دې پیښې وروسته د بهلول په سر کې یو تړون رامینځته شو چې لومړی یې د پتنانو ډله جوړه کړه او لومړی یې د سریند تر غاړې ونیول او وروسته یې په ستراتیژیک ډول حمید خان په ډهلي کې زنداني کړ او سلطان علاوالدین (سید کورنۍ) له ډهلي څخه وشړله. هغه په 5 هه / 3 کې د ډهلي تخت ونیو او له بلو څخه سلطان بهلول لودي شو. دا هغه وخت و کله چې د پټان د اقبال ستوری په هند کې د لوړېدو په حال کې و او بریا او بریا د هغه د زین چومان وه. تخت ته له ورتګ وروسته سمدلاسه بهلول د ملتان او پنجاب مدیریت ته لاړ. په ډهلي کې د پټانانو شمیر دومره لږ و چې نشي کولی د لوی چمتو شوي اردو سره سیالي وکړي. د دې له امله ، پټانان او د دوی کورنۍ په کلا کې پناه واخیسته. د بهلول خواښې ، بي بي مټو ، د نارینه وو د نشتوالي لپاره جوړه شوې چې په کلا کې ټولې ښځې د جنګ لپاره د نارینه جامو په جامو کې جوړه کړې. چا د کلا له دېوال څخه په دښمن ډزې وکړې او ډبرې یې وویشتلې. کله چې بهلول په ډهلي پور کې د محمود شرقي د برید خبر شو ، هغه افغانستان ته یو ګړندۍ پیغام واستاوه چې الله تعالی یې د دهلې پاچاهانو ته ورکړی دی ، خو د هندوستان سلطان غواړي دوی له دې ځایه وباسي. . دا مهال د پټانانو کورنۍ د ډیلي په قلعه کې بندې دي ، د مقبرې شرم زموږ او ستا یو دی. شرم او عزت اړین دی چې تاسو دلته د خپلو قومونو سره راشئ او خپل عزت وساتئ او دا یې هم لیکلي چې کله چې تاسو دلته راشئ نو تاسو به دومره شتمني ترلاسه کړئ چې خپل وطن به هیر نکړئ حتی که تاسو هیر کړئ. هرکله چې دا پیغام ترلاسه شو ، نو د شیرواني ، شیراني ، لوهاني ، پانی او ناګار قبلو قبیلې ژر تر ژره ټول هندوستان ته ورسیدل ځکه چې نګر پټانان د لودیانو سره نږدې اړیکې درلودې ، یعنی سراج بانو د عبدالرحمن خان لودي لور. له څخه وه همدارنګه د احمد خان زوی د احمد خان زوی د بهلول له واکمنو څخه و. نو ځکه ، په ورته وخت کې ، د نغر قبیلې پټانان باید د سلطان بهلول مرستې ته راشي. لدې امله ، یونس خان د احمد خان زوی په 2 هه / 5 کې د نغر پشتنو یوې ډلې سره هندوستان ته ورسید او په ټولو جګړو کې یې برخه واخیسته چې د 3 هه / 5 څخه تر 6 هه / 5 پورې د سلطان بهلول او شاه شرقي تر منځ شوې وې. حسین شاه شرقي ، چې د یو نیم لک لښکر سره ډهلي ته راغلی و ، سلطان بهلول د هغه څخه د سولې غوښتنه وکړه او د جنګ د مخنیوي لپاره هر ډول هڅې وشوې ، خو حسین شاه د لوی لښکر لخوا په نشې اخته شو. هغه په کلکه د سولې پیغام رد کړ. په نهایت کې سلطان بهلول د جګړې لپاره چمتووالی ته مجبور شو او د اتلس زره پښتنو کوچني لښکر سره د جمنا په لور وخوځېد ، چې لومړۍ شمیره یې یوه او شپږمه وه ، او د هغه له لښکر سره ټول د حسین شاه په لښکر ولګېد. حسین شاه او د هغه لښکر د دې ناڅاپي برید څخه دومره وارخطا شول چې دوی پکې د خلاصون هیڅ لاره ونه لیدله. د نا امیدۍ پدې نړۍ کې ، حسین شاه حتی نشو کولی خپل حرم له ځانه سره یوسي. کوم چې وروسته سلطان بهلول د خپلو عسکرو تر حفاظت لاندې حسین شاه ته په عزت او وقار سره ولیږه. د سلطان بهلول وروسته ، د هغه زوی نظام خان په AH ه / / in کې د سلطان سکندر په نوم پاچا شو. الیګزانډر د بهیما په نوم د زرو کارګر لور وه چې اسلامي نوم یې ښکلې ښځه راک وه. بهیما ډیره ښکلې وه او بهلول ورسره مینه وکړه. سلطان بهلول ، د بهیما د مور او پلار له هڅولو وروسته هغه اسلام قبول کړ او له هغې سره یې د بیګم بنګي په نوم یوې ښکلې ښځې سره واده وکړ. د سکندر تخت ته د لاسرسي په موقع ، د پتنیا ځینې لوړپوړي امپراتوران سره توپیر لري. د زرو زوی پاچا زوی کول ګناه وه. مګر له یوې خوا د الیګزانډر شخصي وړتیا ، له بلې خوا د الیګزانډر مور بیگم زیبا خټون هڅې سکندر بریالۍ کړې. عیسی خان چې د بهلول کاکا و ، او خان خان قرملي د انتخاب په اړه ګرم بحث درلود ، مګر په پای کې هرڅوک سکندر د پاچا په توګه ومنله. تخت ته له ورتګ وروسته ، سلطان سکندر د خپل منشي له لارې ، د جون پور واکمن ، بارک شاه ته د خپل ورور بارک شاه ته د اتحاد او همغږي پیغام ولیږه. مګر بارک شاه سکندر د پاچا په توګه په رسمیت پیژندلو څخه انکار وکړ او جګړې ته یې اتحاد ته ترجیع ورکړه. په نهایت کې ، الیګزانډر اړ شو چې د باریک شاه په وړاندې وجنګیږي او هغه ته یې ماته ورکړه او تور غره یې ونیول چې د بارک شاه د لښکرو روح و. د دې له امله ، بارک شاه اطاعت ته اړ شو. کله چې تور غره د الیګزانډر مخې ته راوړل شوه ، الیګزانډر ورته وویل ، “تاسو زما د تره او پلار ځای یاست ، نو ستاسو درناوی زما له امله دی.” هغه هغه خوشې کړ او د خپل ورور بارک شاه سره یې په خورا درناوي چلند وکړ. . دوی دواړو د دې درنښت چلند وکړ. دې ښودلې چې د عاجزۍ تیغ د وسپنې تیغ څخه ډیر اغیزناک دی. د وسپنې تیغ یوازې درد کوي ، مګر د عاجزۍ تیغ د زړه ژورتیا ته ښکته کیږي. یو چا وویل: د خوب بلیډ د وسپنې تیغ څخه ګړندی دی
سلطان الیګزانډر په AH هجري / پنځم کال قلعه بیانا فتح کړه او په AH ه / / in کې یې پتن او د بهار نور ځایونه فتح کړل او هغه یې په خپله خاوره کې شامل کړ. بنارس ته څېرمه د بارانونو او خرابې هوا له امله د سلطان لښکر د اسونو او اکمالاتو دروند زیان اړولی. حسین شاه شرقي د شاهي لښکر له دې کمزورتیا ګټه پورته کړه او خپله بخت یې یو ځل بیا هڅه وکړه او د سکندر پر لښکر یې برید وکړ چې زوړ شوی و. خو پټانان د آسونو او اکمالاتو او خوراکي توکو له کمبود سربیره په کلکه وجنګیدل او حسین شاه ته یې ماتې ورکړه ، هغه دې ته اړ کړ چې بنګال ته وتښتي ، چې د ختیځ شاهانو پای و. د نغر پشتون د خپل مشر قبیلې یونس خان تر ولکې لاندې ، د سلطان بهلول لودي او سلطان سکندر سره لاس یو کړی او په ټولو جګړو کې یې برخه اخیستې چې د شاه شرقي او یو څو هندو پاچاهانو ترمینځ شوې. د ډهلي ، جونپور ، پټنا ، اوټاوا ، شمس آباد ، بییانا او ګوالیر جنګونه د یادولو وړ دي ، په دې ټولو جګړو کې ناګیر پشتان د خپل طبیعي زړورتیا او زړورتیا ښکارندویي کوي. کله چې سلطان سکندر د مبارک خان واکمن جون پور د بې وفاۍ لپاره سخت حساب وکړ ، نو د پټان امپراتوران د پاچا په شک شکمن شول. مګر کله چې د سلطان الیګزانډر په څیر یو عادل او محتاط پاچا د پټانانو ناروا ته سترګې پټې کړي. سلطان الیګزانډر په قهر شو او په AH ه / / AD AD کې یې د پټان امپراتورانو ته امر وکړ چې خپلو ټاټوبو ته لاړشي. په دې لړ کې اسماعیل خان ناګار ، چې سکندر یې د war دلاور خان title لقب ورکړ او د سلطان الیګزانډر سکرتر هم و ، د خپل پلار نواب یونس خان پرځای د ننگر منور په اعلانولو سره په خپل نوم ناراحر ته راغی.
سلطان الیګزانډر په 3 هه / 5 هه کې د مرګ غوښتنه وکړه. سلطان الیګزانډر د ټولو صفاتو ، عالم ، مدیر ، قاضي او د شریعت پابند و. هغه د پولو لوبو ته خورا لیواله و او حتی د جګړې په ډګر کې هغه د ځان ساتیرۍ لپاره کارولی که چیرې هغه ښه ډګر ومومي. د سکندر پاچا د هند په تاریخ کې ځانګړی ځای لري. یو شاعر په سمه توګه د سکندر په تعریف کې ویلي دي:
لوی سکندر
د سکندر څوک دی؟ د الیګزانډر وروسته د هغه زوی ابراهیم په 3 ه AH / AD میلادي کال کې د خپل پلار پر ځای پاچا شو. کله چې هغه تخت کېښود ، نو هغه په غلچکۍ سره خپل ورور جلال خان وواژه. دې بې باوره پاچا خپله مهربانۍ لاره د پښتنو سره په مهربانۍ او مساواتو سره وتړله او د دې پرځای چې له پښتنو سره د هغه خپل لاس او لاس وګ asي ، د هغوی سره د کم ظرفیته خدمتګارانو په توګه چلند یې پیل کړ. هغه د اعظم همایون په څیر یو زوړ او نفوذ لرونکی امیر په بند محکوم کړ. د ابراهیم ناوړه چلند څخه ناراضه ، د پټان امپراتوران سلطان ابراهیم پریښود او ډیر امپراتوران لکه دولت خان لودي ، د ابراهیم کاکا عالم عالم خان او اسماعیل خان د مغل امپراتور بابر سره په هند یرغل وکړ. د مغل اردو سره په هند د یرغل کولو ته وهڅول شو. د سلطان ابراهیم بې اتفاقۍ او د پښتنو دې منافقت ورته برخلیک درلود چې د هر منافقت لپاره د طبیعت لخوا ټاکل شوی دی. رسول الله صلی الله علیه وسلم وفرمایل: “الجماع’ ، رحمت او د عذاب بېلتون” او علامه اقبال ، د اسلام د سپیڅلي ملت شاعر وویل:
په AH ه / / In کې ، بابر په ډیرې پریکړې سره د پانیپت مشهوره جګړه کې ابراهیم ته ماتې ورکړه ، په کوم کې چې ابراهیم وژل شوی و او په دې سره لودي حکمراني پای ته ورسیده. د لودي د واکمنۍ پای د بابر له کتاب “د نګار قبیلې” کتاب څخه اقتباس پشتو ترجمہ میاں علی نواز باچا مدے خیل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...