یہ اصطلاح عام طور پر شمالی مغربی اور بلو چستان کے پشتو بولنے والے قبائل کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور افغانستان کے پشتو بولنے والے قبائل کے لئے افغان کی اصطلاع استعمال کی جاتی ہے ۔ مگر پٹھانوں کو یہود النسل بتانے والوں کا دعویٰ ہے کہ صرف قیس عبدالرشید کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہی پٹھان ہیں اور باقی دوسرے پشتو بولنے والے قبائل افغان ہیں ۔ اگرچہ کڑانی قبائل کو بھی بعض اوقات یہود النسل بتایا جاتا ہے لیکن پٹھان نہیں ۔ نعمت اللہ ہراتی کا کہنا ہے کہ یہ اگرچہ پٹھان مشہور ہیں ۔ جب کہ غوری النسل یا متو یا مٹو کے گروہ کہ قبائل کو ضحاک کی نسل سے تسلیم کیا جاتا ہے ۔ مگر انہیں سامی النسل بھی کہا جاتا ہے ۔ کیوں کے ان کا کہنا ہے کہ ضحاک عربی النسل تھا ۔
نعمت ہراتی نے لکھا ہے کہ قیس عبدالرشید کو اس کی بہادری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہادری سے خوش ہوکر پٹھان کا خطاب دیا تھا ۔ پٹھان اس لکڑی کو کہتے ہیں جس پر جہاز یا کشتی کی عمارت استوار ہوتی ہے ۔ مگر یہ کلمہ پٹھان بائے فارسی اور تائے معجمہ نوخانی کے ساتھ تھا یعنی بتان ۔ مگر کثرت استعمال سے پٹھان مشہور ہوگیا ۔
شیر محمد گنڈا پور کا کہنا ہے کہ قیس عبدالرشید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بہادری کی وجہ سے کہا تھا یہ میرے دین کا بطان ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد عرب کے لوگ عبدالرشید کو بطان کہنے لگے ۔ یہ بطان لغت عربی ہے ، فارسی میں اس کے معنی زیریں کے ہیں اور اردو میں اسے پیندا کہتے ہیں ۔ بطان عربی میں بَطَنَ ، بَطنَ سے بنا ہے اس اس کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہوتا ہے جو نیچے پوشیدہ ہوں ۔ مثلاً زیرجامہ جو لباس کے نیچے پہناجاتا ہے اور کشتی کا وہ تختہ جو پانی کے نیچے ہوتا ہے ۔ ہندی زبان میں سخان کشتی کہتے ہیں ۔ بطان عام طور پر مستعمل ہے ۔ جب یہ لفظ عجم پہنچا تو ’ ب ‘ ’ پ ‘ سے بدل گئی اور ’ ط ‘ ’ت ‘ ہوگیا اور بعد میں یہ ’ ٹ ‘ ہوگیا اور پٹھان ہوگیا ۔ مگر اسماء رجال کی کتابوں اور شرح صحابہ کی کتابوں میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے ۔ اس لئے اس روایت میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی ہے ۔
افغانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پانچ طبقات ہیں ۔ ( ۱ ) سٹر بنی ( ۲ ) پتنی ( ۳ ) غور غشی ( ۴ ) متی ( ۵ ) کڑلانی ۔ ان طبقات میں تین طبقے سٹر بنی پٹنی ور غور غشی اصلی ہیں ۔ یعنی یہ عبدالرشد کی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جب کہ دو طبقہ متی اور کڑلانی الحاقی ہیں ۔ کیوں کے یہ قبائل عبدالرشید کے صلب سے نہیں ہیں ۔ اگرچہ ان کی اولادیں عبدالرشید میں ضم ہوکر یہ پٹھان کہلاتے ہیں ۔ کیوں کے طبقہ متی شاہ حسین غوری بن معزز الدین محمود بن جمال الدین حسین بن شاہ بہرام غور کی ضحاک النسل سے ہیں اور عربی النسل ہیں ۔ کڑلانی مجہول النسب اور افغان نسل سے ہیں ۔ چوں کہ دونوں طبقہ غور میں رہنے کی وجہ سے افغان اور پٹھان مشہور ہوگئے تھے اور ان گروہوں کے بارے میں افغان ہونے میں کوئی شک نہیں یا امتیاز نہیں رہا ۔ لہذا بلا تفاق افغان اور پٹھان مان لئے گئے ۔
فرشتہ کا کہنا ہے کہ افغانوں کو پٹھان اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے پہل سلاطین کے عہد میں ہندوستان آئے تو یہ پٹنہ میں مقیم ہوگئے تو اہل ہند انہیں پٹھان کہنے لگے ۔
روشن خان کا کہنا ہے کہ افغان جس وقت ہندوستان پر قابض ہوئے تو اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو بٹنی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ جو افغانوں کا بڑا قبیلہ ہے اور اس میں لودھی ، سوری ، سروانی اور خلجی وغیرہ اسی قبیلہ کے متعلق ہیں ۔ اس قبیلے کے لوگ شام کے اس شہر سے تعلق رکھتے تھے جو اردن کے شمال میں واقع ہے اور بٹھانیا کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔
معارف جنوری ۱۹۴۷ء میں ہے حقیقت یہ ہے کہ اس قوم کو افغان کے سے ابتداً لٹیری طور پر غیر ملکیوں نے موسوم کیا ۔ پھر رفتہ رفتہ درانیوں اور بعض دوسرے پٹھان قبائل نے اپنے آپ کو افغان کے نام سے موسوم کرلیا اور باقی ماندہ دوسرے قبائل غلزئی ، آّفریدی ، بنگش ، شیرانی اور استرانی وغیر حسب سابق پٹھان کہے جارہے ہیں ۔ بلکہ اصلیت کے لحاظ سے ان کا قومی نام پُشتان یا پکھٹانا کی طرف سے منسوب تھا اور یہی قدیم لفظ آگے چل کر پٹھان بن گیا ۔ البتہ آگے چل کر ان میں بعض کے وطن میں تبدیلی ہوئی اور ان کے بعض قبائل مغرب سے مشرق کی سمت قندھار وغیرہ میں آباد ہوگئے تو ان کی آبادی دوسری قوموں کی آبادی سے مخلوط ہوگئی ۔ اس وقت سے انہیں ان دوسری قوموں سے ممتاز کرنے کے لئے خاص طور پر ان کے قدیمی نام سے موسوم کیا گیا ۔ کیوں کہ یہ لوگ گندھار ( قندھار ) میں ہندوستانی نو آبادی سے ملے تھے اور انہی سے انہوں نے پشتو سیکھی ۔ کیوں کہ یہ زبان بھی پراکرت کی شاخ تھی ۔
یہ بیانات پختون مورخین کے ہیں جن میں تضاد ہے اور تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں اس لیے ان کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس کلمہ کی حقیقت تک پہچنے کے لئے ایک تفصیلی بحث کیا ضرورت ہے ۔
پروفیسر احمد حسین دانی کا کہنا ہے کہ افغان اور پٹھان میں امتیاز نہ پٹھانوں کے نذدیک صحیح ہے اور نہ ہی تاریخی طور پر درست ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کڑلانی قبائل وزیریِ بنوچی ، خٹک ، بنگش اور آفریدی وغیرہ اپنے کو پٹھان کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور پختوں ولی ( پٹھان ولی ) میں دیگر اقوام سے زیادہ اپنے کو ممتاز سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یوسف زئیوں کے بر عکس پٹھان رسم و رواج کو افغان رسم و رواج پر ترجیع دیتے ہیں ۔
سولویں صدی سے پہلے یہ کلمہ کسی کتاب میں نہیں ملتا ہے ۔ لیکن ٹھ کا استعمال بتاتا کہ یہ ہند آریائی کلمہ ہے ۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کلمہ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے پارت جمع استھان برابر پارٹھان ۔ یعنی اس کی ابتدائی شکل پارٹھان ہوگی ۔ پارت قدیم زمانے میں موجودہ خراسان کو بولتے تھے اور استھان ہند آریائی کلمہ ہے ، جس کے معنی مقام یا ٹھکانے کے ہیں ۔ پارتھی جنہوں نے قدیم زمانے میں شمالی برصغیر کو پنے قبضہ میں کرلیا تھا اور انہوں نے ستھیوں کے ساتھ مل کر شمالی ہندمیں نیم آزاد حکومتیں ( سٹراپی ) قائم کیں تھیں ۔ غالب امکان یہی ہے کہ کلمہ پٹھان پارٹھان یا پارتھان سے بنا ہے اور اس کلمہ میں تکرار سے ’ ر ‘ خارج ہوگیا ، اس طرح یہ پٹھان بن گیا ۔
اکثر زبانوں میں ’ ر ‘ خارج ہوجاتا ہے اور اس کا کوئی قائدہ متعین نہیں ہے ۔ مثلاً آذری زبان میں فعل کے صعیفے ، جمع ، مخاطب اور صیفعہ غائب میں ہمیشہ ’ر ‘ گر جاتا ہے ۔ مثلاً Dir کی جگہ Di بولا جاتا ہے ۔ اس طرح سنسکرت میں بھی بعض اوقات ’ ر ‘ گر جاتا ہے مہا بھارت میں کوہ آبو کا نام ’ آربو ‘ اور ’ اربد ‘ آیا ہے ۔ اشکانی کے بانی کا نام ارشک تھا اور اس کے نام سے یہ خاندان اشکانی مشہور ہوا ۔ اس میں سے بھی ’ ر ‘ خارج ہوگیا ۔ خود پشتو میں ’ ر ‘ خارج ہوجاتا ہے مثلاً لڑکے کو ’ لکا ‘ بولتے ہیں ۔
پ / پھ / ب / بھ دو لبی صوتے ہیں اور یہ سب مسودے ہیں ، اس لئے ماہرین لسانیات ان کو ایک سلسلے کے صوتے تسلیم کرتے ہیں اور یہ ترتیب پاننی اور دوسرے قدیم ماہرین لسانیات سے لے کر آج دور جدید کی تحریروں میں قائم ہے ۔ یہی وجہ ہے آج بھی پنجابی میں بھائی کو پرا اور بھابی کو پابی کہا جاتا ہے ۔ جب کہ ہند آریائی میں بھائی ، بھرائی کہلاتا ہے ۔ بٹ ایک کشمیری قبیلہ ہے اور ہند آریائی میں یہ بھٹ کہلاتا ہے ۔ نام نہاد قیس عبدالرشید کا نام نہاد لڑکا بٹن جس کاایک تلفظ بطان بتایا جاتا ہے ۔ اس سے ایک قبیلہ بٹانی نکلا ہے ، بٹائیوں کو ڈیرہ جات میں بھٹانی کہا جاتا ہے ۔ اس سے بھی تصدیق ہوتی ہے ان سب کلمات کی اصل ایک ہی ہے اور یہ کلمات پارت یا پارتھیاکے معرب ہیں ۔
قدیم پارتی آریائی تھے اس لئے ایرانیوں اور برصغیر کے باشندوں کے ہم نسل تھے ، اس لئے ان کا مذہب اور زبان تقریباً ایک تھی ۔ صرف لہجہ کا فرق تھا ۔ کیوں کہ قدیم ایرانی کے غیر کشیدہ حروف صحیح میں بدل گئے ۔ اس لئے پارتھی سے پارتی ، پارتھ سے پارت اور پارتھیا سے پارتیا کہلانے لگے ۔ جبکہ یہ جگھڑالو حروف ہند آریائی میں بدستور استعمال ہوتے رہے بلکہ ان کی بندشیں بڑھ گئیں ۔ بھارت ہندو دیوملائی ہیرو تھا جس کے نام پر اس ملک کا نام رکھا گیا ہے ۔ رگ ویدمیں بھارت قبیلے کا ذکر ملتا ہے ، جو سروتی و جمنا کے کنارے آباد ہوا تھا ۔ ان بندشوں کے بڑھ جانے سے پارت ہی بھارت ہوگیا ۔ اس طرح بالاالذکر کلمات بھٹی ، بھاٹی ، بھٹ ، بھٹہ اور بھٹو میں تبدیل ہوگئے ۔ ان سب کلمات کی اصل ایک ہی ہے ۔
تحقیق و تحریر
(عبدالمعین انصاری)
ڈاکٹر شیر بہادر پنی ۔ تاریخ
شیر محمد گنڈا پور ۔ تاریخ پشتون
دائرۃ المعارف اسلامیہ
نعمت اللہ ہراتی ، مخزن افغانی
مفتی ولی اللہ فرح آبادی ۔ عہد بنگیش
ابو القاسم فرشتہ ۔ تاریخ فرشتہ ،
معلومات شہکار انسایئکلوپیڈیا
جیمزٹاڈ ۔ تاریخ راجستان
سدھیشورورما ، آریائی زبانیں
ڈاکٹر ابولیث صدیقی ۔ ادب و لسانیات
اردو جامع انسائیکلوپیڈیا
ڈاکٹر معین الدین ، قدیم مشرق
بلوچستان گزیٹیر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...