پتنگ کا کھیل دنیا بھر میں کھیلا جاتا ہے مگر انداز مختلف ہیں ،بالی کاٸیٹ فیسٹیول بین الاقوامی پتنگ بازی کا تہوار ہے جو پڈنگ گلک علاقے کے سانور ساحل کنارے منعقد ہوا کرتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اس میں شامل ہونے کے لیۓ آتے ہیں ،پتنگ بازی ایک قدیم کھیل ہے آدم سے وابستہ دوسرے کھیلوں کی طرح یہ بھی زندگی سے بھر پور ہے ،پتنگ جسے ہم ”گڈی“ کہتے ہیں انسان سے کتنی ملتی جلتی ہےڈور جس سے باندھ کر پتنگ اڑائی جاتی ہے سانس کی ڈور جسی ،کچے سے دھاگے کو باریک شیشہ بھرا سفوف میں پسندیدہ رنگ ملا کر لئی بنائی جاتی ہے جو دھاگے پر اتنی اچھی طرح چڑھائی جاتی ہے کہ کچا دھاگہ اپنی اصل کھو کر اتنا مضبوط بن جاتا ہے کہ آسمان پر اڑتی دوسری پتنگوں کے اڑان ختم کرنے کی جرات کر لیتا ہے، مانجھا تیار کرنے والے اپنی کامیابی کو پرکھنے کے لیۓ پہلے سے تیار شدہ ڈور سے ٹکراتے ہیں تاکہ دھار کی تیزی کا اچھی طرح اندازہ کیا جا سکے جیسے زندگی کی تجربہ گاہ میں نو آموز کامیابی کے گر سیکھتے ہیں. آسمان پر اڑتی پتنگ کے دوسری پتنگوں سے ٹکراٶ پر بڑے ڈھول پیٹے جاتے ہیں اپنی ڈور کی مضبوطی اور دوسرے کی پتنگ کٹنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں کھانے پکتے ہیں بسنتی رنگ کے ملبوسات پہنے جاتے ہیں غرض کہ خوشی منانے کے پورے اہتمام ہوتے ہیں مگر جو پتنگ کٹ کر گرتی ہے اس کا حال کوئی نہیں جانتا، کٹی ڈور کے ساتھ ڈولتے ڈولتے نجانے کس گلی محلے، چھت یا پھر کسی کیچڑ میں لت پت ہو خبر نہیں، چین میں پتنگ بازی کی تاریخ بہت پرانی ہے وہ چھت پر گری پتنگ کو بد شگونی مانتے ہیں اور گرنے والی پتنگ کو پھاڑ کر جلا دیتے ہیں چین والے سمجھتے ہیں کہ رنگ برنگی کاغذ کی بنی پتنگ جتنا اونچا اڑے گی زمینی دکھ اتنے ہی کم ہوں گے (ہائے بچارے) برصغیر میں پتنگ بازی کی اولین شہادت مغل دور کی مصوری میں نظر آتی ہے ،سولہویں صدی کی پینٹگز میں اکثر دکھائی دیتا ہے کہ عاشق زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر قلمبند کر کے ایک پتنگ سے باندھتا ہے جسے ہوا کے دوش پر چھوڑ کوچہ محبوب کی فضاٶں میں پہنچایا جاتا ہے .
تاریخ عالم میں پتنگ بازی کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں چین سے ملتا ہے ہاں ایک سپہ سالار ہان سینگ دشمن کا شہر فتح کرنے کو سرنگ کھودنا چاہتا تھا مگر سرنگ کی لمبائی کا ادراک نہ تھا چنانچہ پڑاٶ سے شہر کی فصیل تک فاصلہ ماپنے کو اس نے ترکیب سوچی ،کاغذ کے چند ٹکڑے لے کر درخت کے تنکوں کے ساتھ بانھا اور ہوا کے رخ پر دھاگہ کی مدد سے اڑا دیا جب کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا ،دھاگہ کو ناپ کر سرنگ کھودی اور فتح یاب ہوا،پتنگ بازی کو جاسوس کے لیۓ بھی استعمال کیا گیا حتی کہ چھوٹے ہتھیار بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچائے جاتے رہے،تارا ٹوٹنے کو برا شگن سمجھا جاتا رہا ہے کوریا میں میدان جنگ میں فوج نے آسمان پر تارا ٹوٹتا دیکھا تو جنگ سے پہلے ہی شکست مان لی ان کے جرنیل نے ایک بڑی سیاہ پتنگ تیار کراٸ جس کی دم سے شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ ٹوٹا تارہ دوبارہ آسمان کا حصہ بننے کو واپس آگیا اور یوں وہ دل لگا کر لڑے اور جنگ جیت گیۓ، پتنگ بازی فوجی مقاصد کے علاوہ جادو ٹونے دور کرنے کے لیۓ بھی استعمال ہوتی رہی اور بعض ممالک میں اس کھیل کو صرف مراعات یافتہ طبقہ کے لیۓ مختص کر رکھا ہے جیسے جاپان.
پتنگ بازی پاکستان میں بھی بہت پسندیدہ کھیل ہے مگر یہاں زیادہ تر پتنگ کو گڈی کہا جاتا ہے اور یہ گڈی جب کٹتی ہے تو ”بو کاٹا“ کے فلک شگاف نعرے گونجتے ہیں ،کھل سب ہی زندگی کی کسی نہ کسی حرکت کو ظاہر کرتے ہیں پتنگ کی ڈور کو سانس کی ڈور کی مشابہت سے کون انکار کر سکتا ہے جو نہ جانے کون سی برتر دھار کی زد میں آکر کس گھڑی کٹ جائے شہ رگ بھی تو ایک دھاگہ ہی ہے جو جسم کی چرخی پر بندھ کر انسان کو اونچی ہواٶں کا ذاٸقہ چکھاتا ہے مگر اونچی ہواٶں میں جانے والا واپسی سے اس وقت تک انجان رہتا ہے جب تک ڈور نہیں کٹتی
ماخذات
محمد ارشد قریشی
پتنگ بازی کی دلچسپ تاریخ
ڈان نیوز