جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ دارالحکومت میں ایک وزارت، قانون، انصاف اور انسانی حقوقکی تھی۔ ایک دن ایک حساس ادارے کا نمائندہ اس وزارت میں آیا۔ وہ ان لاکھوں روپے کےناجائز خرچ کی سن گن لینے آیا تھا جو دراصل ان مظلوموں پر صرف کیے جانے تھےجو انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہوں۔ لیکن خرچ کہیں اور ہوئے تھے۔ ان دنوں اسوزارت میں ایک خاتون افسر تعینات تھی۔ اس نے یہ فنڈ ان سینکڑوں افراد کے لیے منظورکیا تھا جو وزیر صاحب کے انتخابی حلقے سے تعلق رکھتے تھے۔ شامت اعمال کہ آڈیٹرجنرل آف پاکستان نے بھرے اجلاس میں اسی پر اعتراض کر دیا۔ اس کے بعد خاتون افسرمحتاط ہو گئی۔ اسے جب نئے ’’احکام‘‘ ملے کہ اسی انتخابی حلقے کے کچھ اور ’’مظلوموں‘‘ کویہ رقوم دی جائیں تو اس نے وزیر صاحب کے سیکرٹری سے کہا کہ تحریری احکام دیےجائیں۔ سیکرٹری نے تحریری حکم دے دیا۔ وزیر صاحب کو تائو آ گیا۔ انہوں نے فائلیںپھاڑ دیں، خاتون افسر کو گالیاں دیں اور الزام لگایا کہ یہ میرے خلاف تحریری شہادتیں جمعکر رہی ہے۔
قانون یہ تھا کہ جو خواتین زبردستی کی زیادتی کا شکار ہوئی ہوں یا کوئی شخص پولیستشدد کے نرغے میں رہا ہو یا ماورائے عدالت قتل ہوا ہو، باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوئی ہو اورمتعلقہ حکام کی سفارشات بھی موجود ہوں، تب اس فنڈ سے مدد دی جا سکتی ہے لیکنسینکڑوں افراد جو ایک خاص انتخابی حلقے سے تھے، صرف شناختی کارڈوں کی مدد سےیہ رقوم حاصل کرتے رہے تھے اور یہ کام کم از کم دو سال ہوتا رہا۔
بہرطور خاتون افسر نے اس ’’آرام دہ‘‘ ماحول سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنا تبادلہکرا لیا۔ وزیر صاحب اسے پھر واپس لے آئے تاکہ تفتیش کے بعد اسے فارغ کرا دیں۔خاتون پر الزام یہ لگا کہ وہ بوگس این جی اوز کو رقوم فراہم کرتی رہی ہے۔ خاتون نےالزام ماننے سے انکار کر دیا۔ یوں یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ حساس ادارے کے ’’ٹاپ‘‘ تکمعاملہ رپورٹ ہوا اور وہاں سے حقائق کی دریافت کے لیے ایک افسر کو بھیجنا پڑا۔
یہی وزیر صاحب ان دنوں کراچی سے لاہور آ رہے تھے۔ ان کے صاحبزادے بھی ہمراہتھے۔ ہوا یوں کہ ایئرپورٹ سیکورٹی فورس نے دونوں کو جسمانی تلاشی کے بغیر اندرجانے دیا۔ وہاں ایک مسافر مجیب نامی نے جو اسلام آباد والے جہاز میں سوار ہو رہا تھا، اعتراضکر دیا کہ وزیر صاحب کے صاحبزادے کو کس بنیاد پر تلاشی سے مستثنیٰ کیا جا رہاہے۔ یہ الفاظ صاحبزادے کے کان میں پڑ گئے۔ وہ واپس پلٹے اور معترض پر اچانک مکوں،لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ پل پڑے۔ وہ لہولہان ہو گیا۔ جوں توں کرکے لوگوں نےجان خلاصی کرائی۔ قانون پر عمل درآمد کا یہ واقعہ سارے پریس میں رپورٹ ہوا۔ وزیراعظمشوکت عزیز تھے جو پلاسٹک کے بنے ہوئے تھے۔ وہی جنہوں نے جامعہ حفصہ پر حملےکی رات، قلفی والی دکان خصوصی طور پر کھلوا کر منہ میٹھا اور جگر ٹھنڈا کیا تھا۔ انہوںنے جب یہ واقعہ سنا تو اپنے وزیر قانون کے اس کارنامے پر اپنا ردعمل محض ایک مجہولمسکراہٹ کی صورت میں ظاہر کیا۔
2005ء کا ستمبر تھا جب وزیر صاحب نے ایسا ہی ایک کارنامہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد میںانجام دیا۔ رات کے بارہ بجے تھے جب وہ تشریف لائے اور ڈنر کا آرڈر دیا۔ پرویز مشرفکا سینئر سٹاف افسر اور کچھ اور اہلکار وہاں موجود تھے۔ وزیر صاحب کی خدمت میں ڈنرپیش ہونے میں تاخیر رونما ہو گئی۔ بیرے نے بہت ادب کے ساتھ بتانے کی کوشش کیکہ تاخیر کی وجہ کیا ہے۔ اس پر وزیر صاحب غصے میں آ گئے کہ آگے سے باتیںکرتے ہو۔ اخباری رپورٹ کے مطابق عینی شاہدوں کا بیان تھا کہ گالیوں کے علاوہ انہوںنے بیرے کے چہرے پر پے در پے کئی تھپڑ مارے۔
27 مارچ 2006ء کو ایک اور واقعہ رپورٹ کیا گیا۔ پی آئی اے کی فلائٹ پر، جس میں آںجناب سفر کر رہے تھے، ایک ایسی نشست پر تشریف فرما ہو گئے جو ان کی تھی ہینہیں۔ جب نشست کا اصلی اور قانونی دعویدار رونما ہوا اور اس نے اپنا بورڈنگ کارڈ دکھاکر بہت خوش اخلاقی سے درخواست کی کہ اس کی نشست اسے دی جائے تو وزیر صاحبکا پارہ چڑھ گیا۔ انہوں نے زبان کا فیاضانہ استعمال کیا اور یہ بھی دھمکی دی کہ وہنشست کے دعویدار کا چہرا تبدیل کرکے رکھ دیں گے۔ سینیٹ میں بھی ان کی زبان دانیکے کئی مظاہر دیکھنے میں آئے۔ میاں رضا ربانی کے ساتھ تو وہ جسمانی طاقت کا مظاہرہکرنے پر بھی تُل گئے تھے۔ رہ گئے حافظ حسین احمد تو ان کے معاملے میں انہوں نےزبان کے جوہر دکھائے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ یہ وزیر چند دن ہوئے عمران خان کیاس حویلی میں حاضر ہوئے جو تین سو کنال کے رقبے پر بنی ہوئی ہے اور اپنے دونوںصاحبزادوں کے ہمراہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ اس موقع پر عمران خان نے کچھگفتگو بھی کی جس کا موضوع وہ انتخابی مہم تھی جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نونسرکاری خزانے سے چلا رہی ہے۔
شک کا فائدہ دینے کی ایک حد ہے اور عمران خان یہ حد عبور کر چکے۔ مسئلہ کسیشخصیت کا نہیں، نہ ہی یہ کہ پرویز مشرف کے یہ وزیر، جو اس وقت مسلم لیگ (ق) میںتھے پہلے پیپلزپارٹی میں رہے تھے، مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے، ذہنی ساخت کا ہے، اور ذہنیتکا ہے کہ ہمارے عوام ذہنیت کا لفظ ہی بخوبی سمجھتے ہیں۔ کیا یہ ذہنیت، جو سرکاریخزانے کو اپنے انتخابی حلقے کے ووٹروں پر بے دریغ خرچ کرتی ہے، بات بات پرگالیاں دیتی ہے، مسافروں اور غریب بیروں کو تھپڑوں سے نوازتی ہے تحریک انصاف کےلیے باعث فخر ہے؟ چلئے فخر کو تو چھوڑیے، کیا باعث اطمینان ہے؟ آپ اس ذہنیت کااندازہ لگایئے جو کسی اور مسافر کی نشست پر براجمان ہونے میں کوئی قباحت نہیںمحسوس کرتی۔ کیا باقی معاملات میں، جو قومی ہو سکتے ہیں اور بین الاقوامی بھی، یہذہنیت تبدیل ہو جائے گی؟ یہی وہ ذہنیت ہے جو اس قوم کو پستی کی گہرائیوں میں لےگئی ہے۔
اسی کالم نگار نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ ایک فائدہ عمران خان کو حاصل ہے کہ وہآزمایا نہیں گیا، لیکن یہی کالم نگار اعتراف کرتا ہے کہ وہ آزمایا جا چکا، جس قبیل کےسیاست دان تحریک انصاف کے سایۂ عاطفت میں پناہ گزین ہو رہے ہیں، انہیں دیکھنے کےبعد مستقبل کے بارے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ ان وزیر صاحب کےصاحبزادے تحریک کی طرف سے الیکشن بھی لڑیں گے۔ اس سے پہلے دو سیاست دان،ایک قصور سے اور ایک راولپنڈی کی نواحی بستی سے، تحریک انصاف میں شامل ہو کرعمران خان صاحب کے ذوقِ لطیف کی داد دے چکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرزمین عراق کوامیر المومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی بددعا ہے کہ ہمیشہ خون بہاتی ہے۔ نہ جانے اسسرزمین کو کس کی بددعا ہے کہ جو آتا ہے، اسی طرح کا ہوتا ہے جیسے سب آنے والےہوتے ہیں۔
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رفعتوں پر لے جاتا ہے اور پھر زمین پر دے مارتا ہے۔یہی عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے!
http://columns.izharulhaq.net/2013/01/blog-post_7136.html
“