آج کی دنیا میں کسی بھی ملک جانا ہو تو پاسپورٹ لازمی ہے۔ جدید ماڈرن ٹیکنالوجی کے شاہکار اس کتابچے میں بائیومیٹرک فوٹو اور بارکوڈ موجود ہیں جن سے اس کو پڑھا جاتا ہے۔ آج سے سو سال پہلے کی دنیا میں پاسپورٹ نہیں تھا۔ سست رفتار ذرائع نقل و حمل کی دنیا میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی عالمی ادارہ جہاں پر اس پر کوئی بات ہو سکے۔ مختلف ادوار اور جنگوں کے دوران کچھ علاقوں میں راہداری کی دستاویز مختلف شکلوں میں رہی لیکن اس کا کوئی عالمی سٹینڈرڈ نہیں رہا۔
ریلوے اور بحری جہازوں کے آنے کے بعد یہاں تبدیلی آ گئی۔ تارکینِ وطن بڑی تعداد میں اس وقت کے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کر رہے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1920 میں لیگ آف نیشنز میں اس پر پہلی بار بات ہوئی اور جدید دنیا کے پاسپورٹ کا آغاز ہوا۔ آج یہ انتہائی حیرت انگیز لگے لیکن امریکہ میں شادی شدہ خواتین کے لئے الگ پاسپورٹ نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ ان کا اندراج شوہر کے پاسپورٹ پر ہی ہوتا تھا۔ شادی شدہ خواتین اپنے شوہر کے بغیر دوسرے ملک نہیں جا سکتی تھیں۔ یہ 1927 میں تبدیل ہوا۔
پاکستان نے 1947 میں پہلا پاسپورٹ جاری کیا جو انگریزی، بنگالی اور اردو زبانوں میں تھا۔ اس کے سرورق پر بنے دو جھنڈے مشرقی اور مغربی پاکستان کی علامت تھے۔ اس کے اندر پاسپورٹ ہولڈر کا نام، پتہ، تصویر، پیشہ اور ازدواجی حیثیت تھی۔ پاکستانی شہریوں کو انڈیا سمیت کسی بھی ملک میں ویزہ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ پی آئی اے نے اپنی پہلی پرواز کراچی سے دہلی اور لاہور سے دہلی کی شروع کی۔ یہ ائیرلائن کے لئے اگلے بیس سال تک سب سے منافع بخش روٹ رہا۔
ون یونٹ بننے کے بعد 1954 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کا پاسپورٹ فرق کر دیا گیا۔ اس وقت تک پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کے لئے اسرائیل، سوویت یونین اور افغانستان میں ویزہ کی پابندی لگ چکی تھی۔
ہلکے سبز رنگ کا نیا پاسپورٹ پاکستان کا نام بدلنے کے بعد 1960 میں جاری ہوا۔ اب مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک نے ویزہ کی شرط عائد کر دی تھی لیکن اب افغانستان نے ویزہ کی پابندی ختم کر دی تھی۔
پاکستان اور انڈیا کی 1965 میں جنگ ہوئی۔ اس وقت بھی بارڈر کھلا تھا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفر کے لئے ویزہ کی شرط 1967 میں پہلی بار لگی۔ پاسپورٹ میں اگلی تبدیلی اس وقت آئی جب پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ ملک 1974 میں تسلیم کیا۔ اس نئے جاری کردہ پاسپورٹ سے بنگالی زبان نکال لی گئی تھی۔ اس وقت تک امریکہ پاکستانی پاسپورٹ پر ویزہ کی شرط عائد کر چکا تھا۔ 1974 میں پہلی بار پاکستان نے اپنے شہریوں کو اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے سفر سے روک دیا۔ (جنوبی افریقہ پر سفر سے پابندی اٹھا لی گئی تھی لیکن اسرائیل پر آج تک ہے۔ اسرائیل پاکستانی پاسپورٹ کو سفر کے لئے قابلِ قبول ڈاکومنٹ سمجھتا ہے)۔
افغانستان نے 1979 میں پاکستانی پاسپورٹ پر ویزہ کی شرط دوبارہ عائد کر دی۔
پاکستان کا اگلا پاسپورٹ ڈیزائن 1984 میں بنا۔ اس میں عربی زبان کا اور مذہبی شناخت کے خانے کا اضافہ ہوا۔ یہ تبدیلیاں دس برس تک پاسپورٹ کا حصہ رہیں۔ 1983 میں برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک نے ویزہ کی شرط لگا دی۔ اس سے قبل خلیجی ریاستیں، جن میں سعودی عرب، عمان، کوئت، قطر اور متحدہ عرب امارات تھے، 1980 میں پہلے ہی یہ شرط لگا چکے تھے۔
رفتہ رفتہ ویزے کی یہ پابندیاں چین، آسٹریلیا، افریقی ممالک، لاطینی اور جنوبی افرقی کے ممالک ھی لگاتے گئے۔ اس وقت دنیا میں صرف 29 ممالک ایسے ہیں جن میں پاکستانی پاسپورٹ پر بغیر ویزہ لگوائے جا سکتے ہیں جن میں کچھ افریقی ممالک اور کچھ چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ پوری دنیا میں افغانستان کے بعد ویزہ فری ممالک کی سب سے کم تعداد پاکستانی پاسپورٹ پر ہے۔ ان کی تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے۔
دنیا کیسے بدلتی رہے، خواہ خواتین کی معاشرے میں شناخت ہو، ممالک کی حدود کی اپنی تعریف،یا پھر ملک کی اپنی تاریخ، اس کو بھی صرف سفر کی اس دستاویز کی تفصیلی تاریخ سے جانا جا سکتا ہے۔
ساتھ لگی کچھ تصاویر پاکستان کے مختلف ادوار میں رہنے والے پاسپورٹ کے ڈیزائن کی۔