بارش تھی اور ایسی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا۔ چھاجوں مینہ پڑ رہا تھا۔ اسکی کار کے شیشے پر وائپر تیزی سے چل رہا تھے لیکن بارش کی رفتار کہیں زیادہ تھی۔ کبھی کبھی تو سڑک نظر تک نہیں آتی تھی۔ وہ دوسرے شہر سے آ رہا تھا اور اُسے ڈر تھا کہ وقتِ مقررہ پر نہ پہنچا تو جن صاحب سے ملنا تھا، انتظار کر کے چلے نہ جائیں۔ کام بہت ضروری تھا۔ وقت کم تھا، گاڑی تیز چلانا ممکن نہ تھا۔ بارش اکیلی نہیں تھی تیز ہَوا بھی تھی۔ درخت یوں لگتا تھا زمین پر آ رہیں گے اس پر طرہ یہ کہ وہ اس علاقے میں پہلی بار آیا تھا۔ اس بارش میں سڑک پر کوئی نہ تھا جس سے وہ پتہ پوچھتا۔ گاڑی کھڑی کر کے موسلادھار بارش میں وہ ایک دکان میں جا گھسا لیکن دکاندار خود موجود نہ تھا، ملازم رہنمائی نہ کر سکا۔ پھر اُس نے ایک پراپرٹی ڈیلر کا دفتر ڈھونڈا۔ وہاں سے اُسے مدد ملی اور وہ مطلوبہ مکان تک پہنچ گیا۔ ساتھ ہی اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ صرف دو منٹ لیٹ تھا، گھنٹی بجائی، ایک عورت نے کھڑکی سے سر نکالا اور بتایا کہ ذوالفقار صاحب گھر پر نہیں ہیں، انہیں ایک ضروری کام سے کہیں جانا پڑ گیا۔
یہ افسانہ نگاری نہیں، سو فی صد سچائی ہے۔ بیان کرنے میں صرف اتنی خیانت ہوئی ہے کہ نام بدل دیا گیا ہے فسادِ خلق سے بچنے کیلئے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ہم میں سے نوے فی صد لوگ یہی کرتے ہیں۔ وقت طے کر کے پہنچتے ہی نہیں، پہنچیں تو گھنٹوں کی تاخیر کے ساتھ پہنچتے ہیں یا کسی دوسرے نے ہمارے پاس پہنچنا ہے تو ہم غائب ہوتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ آنےوالا کتنی دور سے آ رہا ہے، کس موسم اور کن حالات میں آ رہا ہے۔ اب تو موبائل فون کا زمانہ ہے۔ خواجہ سرائوں کے گھر بچہ پیدا ہوا تھا تو انہوں نے اُسے چوم چوم کر مار دیا تھا، پاکستانیوں کو موبائل فون ملے تو ایک ایک ”عقل مند“ نے چار چار سِم رکھی ہوئی ہیں، لیکن اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ جس سے وعدہ کیا ہوا ہے اُسے پروگرام میں تبدیلی کے بارے میں بتا دیں۔ جن ”ذوالفقار“ صاحب کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ متشرع ہیں، ایک مذہبی تحریک کے باقاعدہ رکن ہیں، ایک مسجد کے منتظم ہیں، خوبصورت آواز سے نعتِ رسول پڑھتے ہیں، ہر سال عمرہ کرتے ہیں لیکن اُنکے اسلام میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ وعدہ ایفا کریں۔ مجھے معلوم نہیں، لیکن میرا گمان ہے کہ انہوں نے نصیحت و وعظ کے طوفان میں بہتے ہوئے، لوگوں کو یہ ضرور بتایا ہو گا کہ اللہ کے رسول سے کسی نے کہا کہ آپ یہیں کھڑے رہیں، میں آتا ہوں۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ نے وعدہ فرما لیا۔ وہ شخص بھول گیا۔ آپ تین دن اُس جگہ سے نہ ہلے، انتظار فرماتے رہے، یہاں تک کہ اُس شخص کو یاد آ گیا اور وہ واپس آیا!
ہم مسلمان بالعموم اور ہم پاکستانی بالخصوص اس وقت جس اخلاقی زوال سے دوچار ہیں اُس کی شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ حالی نے جو کچھ 1889ءمیں کہا تھا آج بھی صحیح ہے
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
[کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مسدسِ حالی اپنے بچوں کو سبقاً سبقاً پڑھا دیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ہم میں اور ترقی یافتہ قوموں میں کیا فرق ہے؟) ۔
ہم مسلمانوں کا طرز عمل حرمین شریفین میں کیا ہوتا ہے ؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کے لیے کہ جو کچھ حجر اسود کو ہاتھ لگانے اور چومنے کے لیے کیا جاتا ہے کیا وہ اسلامی یا اخلاقی لحاظ سے روا ہے ؟ گریبان پھٹ رہے ہیں۔ احرام کی چادریں اتر رہی ہیں۔ خواتین کی تذلیل ہو رہی ہے۔دھکم پیل سے سانس لینے میں دقّت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہاں وہ شرطہ نہ ہو تو مسلمان ایک دوسرےکو گرا کر ، اوپر پائوں رکھ کر حجر اسود کو چومیں اور پحر بھی یہی سمجھیں کہ نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ کسی ایک میں بھی اتنا ایثار نہیں کہ وہ دوسرے کو آگے جانے دے اس لیے کہ کسی مسلمان کو تکلیف دے کر حجر اسود چومنا یاہاتھ لگانا اسلام کا مطالبہ ہی نہیں۔
اب مدینہ منورہ آ جائیے۔ ریاض الجنہ مسجد نبوی کا وہ حصّہ ہے جو حیات مبارکہ کے دوران اصل مسجد تھا۔ اسے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے۔ آپ ذرا ہٹ کر کھڑے ہو جائیے اور دیکھیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جن کو جگہ مل گئی ہے ان میں اتنا شعور نہیں ہے نہ ایثار کہ کچھ نوافل ادا کر کے شائستگی اور وقار کے ساتھ باہر نکل آئیں اور اپنے کسی مسلمان بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ جانے کتنے گھنٹوں سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ موقع دیں۔ جنہیں جگہ نہیں ملی وہ وہاں بھی گھُسنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں انسان تو کیاچند انچ کی بھی گنجائش نہیں۔ ایک بار پھر پھر غور سے دیکھیے کوئی ایک فرد بھی سہولت کے ساتھ ، دلجمعی اور سکون کے ساتھ نوافل ادا نہیں کر پا رہا اس لیے کہ سجدہ کرنے کی جگہ ہے نہ رکوع کرنا ہی ممکن ہے۔ حالانکہ اگر اپنی جگہ کسی مسلمان بھائی کو دے دی جائے تو یقینا َ َ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے جگہ دینے والے کو بھی نوازیں گے لیکن ایثار ، محبت اور شائستگی دور دور تک نظر نہیں آتی۔
پستی کی اس گہرائی میں گرنے کے باوجود نعرہ یہ ہے کہ ہمارے جیسا کوئی نہیں اور ہمارے علاوہ سارے گمراہ ہیں اور بدبخت ہیں! اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کی تنقیص، بُرائی اور تضحیک ہمارا قومی شعار بن چکا ہے، حالانکہ دنیا نہ صرف مادی لحاظ سے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی ادیبہ ایک غیر مسلم ملک کا دورہ کر کے واپس آئی ہیں۔ دیکھئے، کیا کہتی ہیں
”ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ شہرِ دہلی کی ترقی، تزئین و آرائش اور نظام دیکھ کر ہم متاثر ہوئے اور رشک میں مبتلا ہو گئے کہ کاش! ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی کوئی نظام چلتا نظر آئے جس میں عوام کی سہولت اور آسانی کو ہی پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ہمیں پہلے بھی آنے کا اتفاق ہو چکا ہے مگر اب کے پہلے کی نسبت شہر زیادہ قاعدے والا محسوس ہوا۔ تجاوزات کا نام و نشان نہ تھا۔ ہمیں میٹرو ٹرین (زیر زمین ریلوے) ، بس، آٹو رکشے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کرائے بہت ہی کم تھے، سب آرام چین سے سفر کرتے تھے، نہ دھکم پیل، نہ رش نہ بیزاری نہ کوفت، خواتین دن ہو یا رات بے فکری سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہیں موٹر بائیک چلاتی ہیں مگر انہیں کوئی ہراساں نہیں کرتا۔ اسکے برعکس ہمارے اسلامی معاشرے میں ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہاں تو عورت کسی بھی عمر کی ہو کوئی لباس پہنے ہوئے ہو اُسے ہوس ناک نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دلّی میں ہمیں کوئی سپیڈ بریکر، مورچہ، پولیس ناکہ یا سنگین بردار فوجی نظر نہیں آئے۔ یہ نعمتیں شاید صرف ہمارے ہی نصیبوں میں لکھی جا چکی ہیں۔ ہمسایہ ملک کے سکھ دیکھ کر ہمیں اپنے گھر کے دکھ بہت یاد آئے۔“
حالی ایک بار پھر یاد آ رہے ہیں :
سمجھے ہیں گمراہ جن کو مسلماں
نہیں جن کو عقبیٰ میں امیدِ غفراں
نہ حصہ میں فردوس جن کے نہ رضواں
نہ تقدیر میں حور جن کے نہ غلماں
وہ ملک اور ملت پہ اپنی فدا ہیں
سب آپس میں اک اک کے حاجت روا ہیں
اولوالعلم ہیں ان میں یا اغنیا ہیں
طلب گارِ بہبودِ خلقِ خدا ہیں
عروج ان کا جو تم عیاں دیکھتے ہو
جہاں میں انہیں کامراں دیکھتے ہو
مطیع ان کا سارا جہاں دیکھتے ہو
انہیں برتر از آسماں دیکھتے ہو
یہ ثمرے ہیں ان کی جواں مردیوں کے
نتیجے میں آپس کی ہمدردیوں کے