غوری
عربوں کے حملے کے وقت علاقہ غور میں جہان پہلوان کی حکمرانی تھی۔ بعد کے دور میں یہاں غوری حکمران ہوئے۔ غالباً یہ جہان پہلوان کے اخلاف تھے اور اس علاقے کی نسبت سے غوری مشہور ہوئے۔ اس طرح غوری پہلی پشتون افغانوں کی پہلی آزاد حکومت غوریوں کی مملکت تھی جو مسلمانوں کی آمد سے قبل غور کے علاقے میں قائم ہوئی تھی اور بعد میں اپنے عروج کے زمانے میں بنگال سے لے کر خوارزم تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی سلطنت تیرویں صدی میں پہلے خوارزم شاہیوں اور پھر منگولوں نے مٹا دیا اور اس علاقے میں ایلخانی سلطنت قائم ہو گئی ۔
پشتونوں کا اثر و رسوخ
خلجی
بلبن کی وفات کے بعد کیفباد حکمران ہوا۔ جب کیفباد پر فالج گرا اور وہ بے دست پا ہو گیا تو ملک خلجی فوج لے کے چڑھ آیا۔ افغان سرداروں نے ملک فیروز خلجی کو بادشاہ منتخب کر لیا۔ اس طرح 1290 میں دہلی میں پہلی پٹھان سلطنت قائم ہو گئی۔ جلال الدین فیروز خلجی کے اس کارنامے پر کہ اس نے ہندوستان میں پہلی پشتون سلطنت قائم کی تھی اس کے ہم وطن صدیوں تک اس پر فخر کرتے ہے۔ چنانچہ خوشحال خٹک 1650 میں لکھتا ہے کہ
بیا سلطان جلال الدین پوہ سربر کخئ است چمیہ پو اصل کخے غلچی داد لایت ودہ
اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤ الدین خلجی تھا۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا۔ یہ پہلا حکمران تھا جس نے جنوبی ہند کو فتح کیا۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کر دیا ۔
مالوہ کے خلجی
1426میں مالوہ کی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا۔ اس نے اپنے برادر نسبتی کو ذہر دے کر ہلاک کر دیا اور خود تخت پربیٹھ گیا۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گزرا۔ اس خاندان کا آخر حکمران باز بہادر تھا۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے 1561 میں تخت سے محروم کر دیا ۔
لودھی
تیمور نے برصغیر کی حکمرانی سید خاندان کے حوالے کردی تھی اور سید خاندان کے مبارک شاہ کو بہلول لودھی نے 1451 میں سیّد خاندان کو تخت سے بے دخل کر کے خاندان لودھی خاندان کی بنیاد رکھی۔ اس طرح برصغیر میں ایک پشتون حکومت پھر قائم ہو گئی ۔
بہلول لودھی نے اپنی سلطنت مستحکم کرنے کی غرض سے پشتونوں کے قومی جزبہ کو ابھارا اور ان کو جاگیروں کا لالچ دے کر ترک وطن پر آمادہ کیا۔ بہلول کی دعوت پر بہت سے پٹھان قبائل ہندوستان میں آباد ہو گئے۔ بہلول نے اپنی سلطنت کی آدھی زمین پشتونوں میں بطور جاگیر تقسیم کردی اور ان جاگیروں کو موروثی بنا دیا ۔
لودھیوں نے ہندوستان پر 1451 تا 1526 تک حکومت کی ہے۔ اس خاندان کا سب سے نامور حکمران سکندر لودھی تھا۔ اس کا بیٹا ابراہیم لودھی جو اس کے بعد حکمران بنا۔ اس نے اپنی کوتابینی سے امرائ کو دشمن بنا لیا۔ جنہوں نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ بابر نے پانی پت کے میدان میں اسے شکست دی اور ابراہیم لودھی مارا گیا، اس کے ساتھ ہی ہندوستان پر سے لودھی خاندان کو خاتمہ ہو گیا ۔
سوری
سوری خاندان کی حکومت ( 1540 تا 1555 ) تک رہی ہے۔ اس خاندان کا بانی شیر شاہ سوری نے اپنے فہم و فراست سے اور سازشوں کے ذریعے ایک اتالیق سے ترقی کرکے بہار و بنگال کی حکومتوں کو زیر کر لیا اور اپنی طاقت بڑھایا تھا کہ ہمایوں شیر شاہ کی سرزش کے لیے بنگال پہنچا۔ شیر شاہ جو علاقائی حکمران تھا اور اس قابل نہیں تھا کہ ہمایوں سے دو بدو جنگ کرسکے۔ لہذا اس نے ہمایوں کو اپنی اطاعت کا یقین دلایا اور ہمایوں مطمین ہو گیا۔ شیر شاہ سوری نے ہمایوں کی غفلت کا فائدہ اٹھایا اور اس کے لشکر پر شب خون مارا جس سے ہمایوں کے لشکر میں انتشار اور بگڈر مچ گئی اور مغل حکومت کا بنیادی ڈھانچہ مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے اور اپنے بھائیوں کی دغابازی کی وجہ سے ہمایوں کہیں رک نہ پایا اور نہ ہی لشکر فراہم ہو سکا ۔
فرشتہ لکھتا ہے کہ سوری اپنا شیر شاہ سوری نے جب مغلوں سے لڑنے کے لیے کمر باندھی تو اس نے پشتونوں کو یہ کہہ کر جوش دلایا کہ مغل غاصب اور غیر ملکی ہیں، انہوں نے تمہای سلطنت پر قبضہ کر لیا ہے۔ لہذا تمہارا قومی فریضہ ہے کہ مغلوں کے خلاف نبرآزما ہو جاؤ۔ چنانچہ اس کی دعوت پر بہت سے پشتون فوج میں شامل ہو گئے ۔
شیر شاہ سوری کے براقتدار میں آنے کا بڑا سبب مغلوں کی داخلی کمزوری اور ہمایوں کی لاپروائی تھی۔ اس کی حکومت کے مستحکم ہونے میں اس کی قائدانہ صلاحیتوں سے زیادہ حالات تھے جس کا اس نے فائدہ اٹھایا۔ اس کا دور حکومت مختصر لیکن شاندار تھا۔ یہ پورا دور جدو جہد کا تھا۔ اس نے مغلوں کو غیر اور غاصب کہہ کر اپنے بھائی بندوں کو اکھٹا کر لیا۔ مگر اس کی موت کے بعد ہی یہ طلسم ٹوٹ گیا۔ ایک بار پھر اس کے بیٹوں کے درمیان میں تخت نشینی کی جنگوں کے علاوہ درباری سازشیں ابھر آئیں۔ یہی وجہ ہے مغلوں کو دوبارہ ہند پر قبصہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ۔
ہوتکی
اٹھارویں صدی میں قندھار کے علاقہ میں قندھار کے علاقہ میں غلزئیوں کی ہوتکی شاخ نے میر اویس کی سردگی میں ایرانی حکومت کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حکومت قائم کرلی۔ لیکن اس کو استحکام حاصل نہیں حاصل ہو سکا۔ کیوں کے اسے دوسرے قبائل کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اسے افغان قبائل کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں ابدالی سرفہرست تھے۔ دوسری طرف ایرانی حکومت بھی اس کی مخالفت کر رہی تھی۔ مگر ایرانی خود بھی انتشار کا شکار تھے۔ اس لیے وہ خود اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرسکے۔ جب کہ میر اویس کے پوتے اشرف نے ایرانی انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصفہان پر قبضہ کر لیا۔ اصفہان پر دوبارہ قبضہ اور ہوتکی حکومت کا خاتمہ نادر شاہ افشار نے کیا ۔
درانی
اٹھارویں صدی عیسوی میں نادر شاہ افشار نے افغانستان پر مکمل قبضہ کر لیا۔ مگر نادر شاہ کے قتل ہوتے ہی ایرانی حکومت ایک دفع پھر انتشار کا شکار ہو گئی۔ نادر شاہ درانی کے افغانی جرنیل احمد شاہ ابدالی نے اس انتشار کو دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قندھار آگیا اور اس نے موجودہ افغانستان کی بنیاد رکھی ۔
پشتون حکومتوں کا انتشار
بالاالذکر ہوچکا ہے کہ افغانوں کی عصبیت خاندانی اور قبائیلی ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پشتونوں نے مختلف حکومتوں کے قیام اور استحکام کے لیے بہت مختلف خذمات انجام دیں ہیں، جنہیں ہم نذر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ تاہم جہاں پشتون حکومتوں کے قیام میں جہاں یہ مدد گار ہوئے وہاں یہ ان کی شکست و رنجیت میں بھی ان کا حصہ رہا ہے۔ برصغیر میں پشتون حکمرانوں کی دعوت پر ان کی بڑے پیمانے پر آمد اور آباد کاری بھی ہوئی اور ان حکمرانوں کی حکومتوں میں یہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ مگر ان کی شورش اور سازشوں کی وجہ سے یہ حکومتیں ذوال پزیر ہوئیں۔ ان میں لودھی، سوری کے علاوہ بنگال اور بہار کی حکومتیں قابل ذکر ہیں۔ یہاں تک افغانستان کی ابتدائی ہوتک حکومت بھی ان کی مخالفت کا شکار رہی۔ جب کہ افغانستان کی بنیاد رکھنے والے ابدالی خاندان کی حکومت سازشوں اور مخالفتوں کی وجہ سے صرف تین پشت تک قائم رہی۔ یہی حال افغانستان کی دوسری حکومتوں کا ہوا ۔
ماخذ
ڈاکٹر شیر بہادر پنی۔ تاریخ ہزارہ
سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا
غوری۔ معارف اسلامیہ
افغانستان۔ معارف اسلامیہ
منہاج سراج۔ طبقات ناصری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرچ حاجی میاں علی نواز مدے خیل گنیار تھانہ ملاکنڈ
“