سوشل میڈیا پر "شیریں مزاری نامی" ایک عجیب الخلقت مخلوق کا ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ وائرل ہوگیا ہے جس میں مذکورہ مخلوق کا کہنا ہے کہ ایک عام پشتون اور شدت پسند طالبان میں فرق کرنا مشکل ہے۔ یہ کوئی نئ بات نہیں ہے، اس ملک کے سرکاری چینلوں، فلموں، ڈراموں، نصابی کتب، رسالوں، جریدوں اور اخباروں میں پچھلے کئ سالوں سے اسی بیانیے پر کام ہو رہا ہے۔ مذکورہ مخلوق نے بھی اسی بیانیے کے اثر میں یہ گُل کھلائے ہیں۔ بعض لوگ وضاحتیں بھی دے رہے ہیں لیکن میرے خیال میں اس معاملے میں وضاحتوں اور تاویلوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ صرف ایک شیریں مزاری نہیں ہے بلکہ ایک پورا مائنڈ سیٹ اور ذہنیت ہے۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ شدت پسندی اور دہشتگردی کا یہ طوق کس نے ، کب اور کیوں پشتونوں کےگلے میں ڈال دیا ہے؟
خیر یہ سب چیزیں اپنی جگہ ليکن عام پشتونوں کو مسلح شدت پسندوں کے ساتھ برابر کرنے سے پہلے شیریں مزاری نامی عجیب الخلقت تخلیق اگر اپنے قبیلے "مزاری" کی قتل و غارت گری، چوری چکاری، ڈکیتی، وطن فروشی، انگریزوں کی چاپلوسی، دلالی اور غداری سے بھرپور تاریخ پڑھ لیتی تو وہ ایسی فضول واہیات کبھی بھی نہ بکتی.
یہ وہی قبیلہ ہے جن کے مسلح ڈاکو انگریزوں کے آنے سے پہلےاکثر بگٹیوں کی مال مویشی چرا کر لے جاتے. کبھی چانڈیوں پر حملے کرکے لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے، کبھی چانڈیو سے ملکر ان کی مدد سے بروہیوں پر حملہ کرکے ان کو بے دریغ قتل کرتے، ان کے گھر بار اور مال متاع کو لوٹ لیتے اور ان کی عزتوں کو تار تار کرکے چلے جاتے.
جب انگریز آیا تو اس نے خطہ میں اپنا سامراجی تسلط قائم رکھنے کے لئے اس علاقے میں اپنے نمک خوار پیدا کئے اور ڈ یره غازی خان اور آس پاس کے بلوچ قبائل کو 9 تمن داریوں میں تقسیم کیا جن میں تمن مزاری، تمن لغاری، تمن دریشک، تمن گورچانی، تمن لنڈ، تمن کھوسہ، تمن بزدار، تمن قیصرانی اور تمن کھتران نمایاں ہیں۔ ان تمن داروں کے ذریعے انگریزوں نے اس علاقے کے لوگوں کے جذبہ حُریت کو کُچل کر رکھ دیا اور انہی کی مدد سے عوام پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ اس سلسلے میں مزاری سب سے آگے تھے.
انگریز نے اپنی مطلب برآوری یعنی سامراجی تسلط قائم کرنے کے لیے عوام کو ظلم و استبداد کی جس آہنی شکنجے میں جکڑا اس کے چلے جانے کے بعد بھی عوام بدستور ظلم کی چکی میں اسی شدت اور بے رحمی سے پسے جا رہے ہیں انگریز نے مال مفت دل بے رحم کے مصداق اپنے وفادار تمنداروں کو بے حد و حساب جاگیریں بخش کر نہ صرف دولت کا مالک بنا دیا تھا بلکہ انہیں نیم سیاسی اختیارات بھی عطا کر دیے تھے اور اس طرح انگریزوں کے وفادار مکمل طور پر عوام کی قسمت کے مالک بن گئے انگریز نے ان سرداروں کو افسر مال کے اختیارات اور محدود فوج رکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ ان سرداروں نے عوام کا خون پوری سنگدلی سے چوس کر سامراجی رگوں میں بھرا اور انگریز کی بخشی ہوئی حیثیت کو ڈھٹائی کے ساتھ استعمال کیا۔ سرکاری زمینیں جو مقامی لوگوں سے چینی گئ تهيں، چپکے چپکے ان کے نام منتقل ہونے لگیے ۔ ان سرداروں کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ ڈیرہ غازی خان کی قیادت انہیں نو بڑے خاندانوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان تمنداریوں کے سرکردہ سرداروں میں کھتران کے ربنواز، قیصرانی کے سردار منظور احمد خان، بزدار کے دوست محمد، لغاری کے سردار جمال محمد خان، گورچانی کے سردار غلام حیدر اور مزاری کے سردار بلخ شیر مزاری نے سیاست و قیادت میں خوب نام کمایا ہے۔
اس ضلع میں زمین بھی تقریبا انہیں نو خاندانوں میں تقسیم ہے۔ آٹھ لاکھ، چار لاکھ ،تین لاکھ اور دو لاکھ ایکڑ اراضی کی ذاتی ملکیت ایک جانب اور سات لاکھ افراد میں سے کم و بیش پونے سات لاکھ باشندوں کی غیرمتوازن اقتصادی زندگی دوسری طرف تھی۔
لیکن اس ضلع میں اب بهی غربت اپنے آخری نشیب پر اور امارت انتہائی عروج پر ہے۔ اس ضلع میں بسنے والے قبائل میں سب سے بڑا قبیلہ مزار یوں کا ہے۔ کسی زمانے میں انہیں شورش پسند کہا جاتا تھا۔ لیکن جو نہی یہ انگریز کا دم بھرنے لگا، اسے معزز اور قابل فخر کہتے کہتے انگریز کی زبان خشک نہ ہوتی۔ مزاری قبیلہ کسی زمانے میں ڈیرہ غازی خان کے پورے جنوبی علاقہ پر عمرکوٹ تک قابض تھا اور ان کی ریاست کی سرحدیں سندھ اور بہاولپور کو چھوتی تھیں۔
جب ۱۸۴۹ء میں انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو مزاریوں کے اس وقت کے سردار میر دوست علی خان مزاری نے انگریزوں کو دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور انگریزوں کے برصغیر سے جانے تک مزاریوں نے ان کیلیے ہر جائز و ناجائز کام کردیا. ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی کے دوران دوست علی خان مزاری نے استعماری قوتوں کا بھرپور ساتھ دیا، آزادی کے ہزاروں متوالے پیرنگیوں کی خوشنودی کیلیے شہید کیے۔ اپنے ہی لوگوں کی دلالی کرکے اپنی مٹی، غیرت، حمیت اور آزادی کا سودا کرتا رہا۔ جس کے صلے میں اٹھارہ سو انسٹھ میں اسے آنریری مجسٹریٹ کا اعزاز دیا گیا۔ اس نے علاقے میں آزادی کی لہر، انگریزوں کے خلاف اُٹھنے والی بغاوت اورسیاسی بےچینی کو روکنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا اور قدم قدم پر انگریزوں کیلئے وفاداری کے عہد و پیمان کئے۔ انگریز سرکار نے اس سے خوش ہوکر اسے سر کے خطاب سے نوازا اور اٹھارہ سو چوراسی میں مزاری قبیلہ انگریز سرکار کے سب سے زیادہ وفاداروں کی فہرست میں اول نمبر پر تها۔ اس کے چار سال بعد دوست علی مزاری کو نائٹ ہوڈ کے خطاب پر متمکن کردیا۔ اسے پنجاب لیجسلیٹیو کونسل کے رکن کے ساتھ ساتھ صوبائی درباری بھی بنایا گیا ۔ انگریزوں کے نزدیک نواب سر امام بخش مزاری اس علاقے میں ایسا سردار تھا جو برطانیہ کی سرحدوں کی بہتر حفاظت کر سکتا تھا۔ انیس سو تین میں اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بہرام خان مزاری قبیلے کا سردار بن گیا تو اس نے اپنے باپ سے بھی زیادہ انگریز سرکار کی خدمت کی۔ انیس سو چار میں انگریزوں نے اسے نواب اور انگریزوں کی بہترین ساتھی کے خطاب سے نوازا۔ انیس سو آٹھ میں پنجاب کے جاگیرداروں اور تمنداروں کے ایسوسی ایشن کا صدر بنایا گیا۔ انیس سو دس میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا ممبر بنایا گیا ۔ اور انیس سو تیرہ میں کونسل آف سٹیٹ کے رکن بھی بنايا گیا۔ اس کے ایک سال بعد اسے کے بی ای کے اعزاز سے نوازا گیا جو ہندوستان میں پیرنگیوں کے چند انتہائی وفاداروں اور قریبی ساتھیوں کو دیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں ،اعزازی مجسٹریٹ اور صوبائی درباری کے عہدے سے بھی نوازا گیا۔ اور سا تھ میں ضلع کا اسسٹنٹ کلیکٹر بھی بنا دیا گیا۔ اسکادوسرا بھائی غلام حیدر خان مزاری ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا اور عطا محمد مزاری انگریز سرکار کے ساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تھا۔ اس کے علاوہ اس کے دیگر رشتہ دار بھی انگریز سرکار کے وفادار تھے۔ اس کا کزن تلا خان مزاری ڈویژنل درباری تھے اور سردار تاج محمد خان مزاری انیس سو بیس تک انگریز وں کا پولیٹیکل تحصیلدار رہا. اس کا بھتیجا سردارغوث بخش خان مزاری انڈین برٹش بارڈر ملٹری پولیس میں جمعدار تھا جو بعدازاں آنریری مجسٹریٹ بنا اور پهر سب جج مقرر ہوا۔ سردار عبدالرحمن مزاری جو کہ اس کا داماد تھا ایکسٹر اسسٹنٹ کمشنر بنایا گیا۔ 1933 میں بہرام خان مزاری کی موت کے بعد شیر محمد خان مزاری کا بیٹا دوست محمد خان مزاری اپنے قبیلے کا سردار بنا اور اسے وراثت میں نواب کا خطاب بھی ملا۔ انیس سو پچیس میں اس کو خان بہادر کے لقب سے سرفراز کیا گیا اور اس کے چار سال بعد صوبائی درباری، آنریری مجسٹریٹ اور سب جج بنا دیا گیا۔ غداروں، وطن فروشوں، دلالوں او انگریزوں کے تلویں چاٹنے والوں کی یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ انگریز اکثر امام بخش مزاری کے خاندان کا رتبہ بڑھاتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کے مزاری سرداروں پر خطابات کی بارش ہونے لگی۔ پہلے نواب پھر سر، پھر صوبائی درباری اور پھر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن. نواب امام بخش مزاری کے بھائی، ان کے بیٹے، پوتے اور پڑپوتے قیام پاکستان تک انگریزی راج کی مسکراہٹوں میں پروان چڑھے۔ ان کو نہ صرف اعزازات و خطابات دے دی گئی بلکہ مقامی لوگوں کی غصب شده زمینوں پر مشتمل ایک وسیع اراضی بھی ملی۔ جن پر وه اب تک قابض ہیں، پشتونوں کو دہشت گرد اور شدت پسند کہنے والی "شیریں مزاری" عرف لیڈی طالبان کا تعلق بھی حرام خوروں، قاتلوں، رہزنوں، ڈاکووں، غداروں، دلالوں اور وطن فروشوں کے اسی قبیلے سے ہے، اس کی باتوں پر زیادہ دھیان مت دیں، بس بکنے دیں ، اب اس مسخرے کو کون سمجھائے کہ جب تمہارے قبیلے کے سردار انگریزوں کے کُتے اور گھوڑے نہلاتے تھے اس وقت پشتون تمہارے اس انگریز آقا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔
“