پشتون معاشرے کو اپنے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے
آج کا دور ذہانت کا اور ورچوئل کنٹیوٹی کا دور ہے- اس دور میں اپنی بات پہنچانے کے لیے ذہانت اور علم درکار ہے۔پشتون لوگوں کے پاس خود کو سماج کا اہم جزو ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بصیرت کی بجائے بندوق کیوں ہے؟
پشتون لفظ پانچ خوبیوں کا مخفف ہے۔خودی/فخر, بھلائی ,بہادری وفاداری, عزت و غیرت اس میں مزید چار خوبیاں شامل کی گئی ہیں۔ بدلہ،خاندانی دشمنی, مہمان نوازی .رحم اور امن کی دعا , جرگہ۔ قبیلے کے بڑوں کا گروہ جو اسلامی اور پشتون روایات کے مطابق فیصلے لیتا ہے۔ پشتوں ماڈل قرون وسطی کا رنگ لیے ہوئے ہے اور جدید ترقیاتی سوچ سے ہم اہنگ نہیں ہے۔ پشتون ولی کوڈ کو شریعہ کے ساتھ ملا دیا جائے تو آئیڈیل جہادی وجود میں آتا ہے۔
پشتون کوڈ صحرا میں بسنے والے عربوں کی روایات سے مماثلت رکھتا ہے۔ پشتون کوئی تبدیلی نہیں چاہتے وہ وراثتی طور پہ صحرا کے پیغام کی طرف رحجان رکھتے ہیں۔ اگر عرب بدل سکتے ہیں تو ان کے فطری طور پہ مماثلت رکھنے والے قدرتی کزنز پشتون کیوں نہیں بدل سکتے۔ ان کوڈ میں بندوق اور غصہ اہم جزو ہے ۔ یہ پشتون قوم میں صدیوں میں پروان چڑھایا گیا ہے اور پشتوں ذہننیت کاحصہ بنایا گیا ہے۔
فکری ترقی اور نشاتہ ثانیہ کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، انہوں نے جدید علم کے دور سے خود کو الگ کر کے خود کو اس علم سے محروم رکھا ہے ۔ ہم انسان اب جنگل کے قانون میں نہیں رہ رہے۔ ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں جو علم اور دانائی کی دنیا ہے ہمیں اپنے انداز فکر کو سائبر دنیا اور کوانٹم فزکس کے حقائق کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔۔ یہ پرانی بوسیدہ خیالی اپنی تباہی اور حتمی خاتمے کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ایک بڑے مکالمے کی ضرورت ہے کہ اسے پشتون اپنائیں اور خود کو جدید حقائق اور ضروریات کے مطابق ڈھالیں ہزاروں سال پہلے کے سوچ میں بہتری لا کر علم، امن اور گلوبل ویلیج کا حصہ بنیں۔
یہ افسوس ناک ہے کہ پچھلی پانچ دہائیوں سے پشتون معاشرہ، پشتون کوڈ کو بغیر بصیرت اور علم کے اپنائے ہوئے ہے۔ اس میں قتل، غیرت، بہادری، بدلہ، وفاداری ، مہمان نوازی، یہ مہلک مجموعہ پشتونوں کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ 1978 میں روسی حملہ ننگ یعنی غیرت کی بے ادبی کے طور پہ دیکھا گیا جو قوم کی غیرت پہ حملے کے مترادف ہے۔ ملا عمر نے وفا کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ پھر 9/11 کے واقعے کے بعد اسامہ کو جو کہ ایک ان چاہا مہمان تھا اس کی حفاظت کے لیے سب کچھ تباہ کر دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کے دور میں جامعہ بنوریہ اور جامعہ حقانیہ کی تعلیم کی بجائے جدید تعلیم کی ضرورت ہے آج کے دور میں جنگ ٹیکنالوجی اور ترقی کی ہے نہ کہ قتل و غارت گری کی۔ جس شعبے میں نام پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ سائنس کا شعبہ ہے۔ ذرا تاریخ پہ نظر ڈالیں پشتون علاقہ نے حملہ آور پیدا کیے اس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ایک ہزار سالہ حملہ آوروں کی تاریخ جو غزنوی سےابدالی تک محیط ہے۔
ہندوستان میں جب کافروں کی سر کی فصل پک جاتی تھی گویا ان کو کاٹنے کی ذمہ داری پشتوں حملہ آوروں کی عطا کر دی جاتی تھی۔ انہیں روایات کی سنہری مثال سومنات پہ سترہ حملے ہیں جن کی معافی مانگنا توہین سمجھا جاتا ہے۔ اب دیکھا جائے تو پشتون قوم پہ ہونے والی زیادتیوں کا ملبہ پنجاب پہ ڈالا جا رہا ہے۔ لیکن کیا اس کو کسی ایک قوم پہ الزام ڈال کے کہا جاسکتا ہے کہ اس سب کی ذمہ دار وہی قوم ہے ۔ جواب نہیں میں ہوگا۔ پشتون معاشرے کو اپنے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔دوسروں کو اس ناسور کا ذمہ دار ٹھہرائے بغیر جو ان میں پراون چڑھ رہا ہے۔ آج کے دور میں یہ سچائی جاننے کی کہ یہ دور عقل و دانش کا دور ہے اور اپنی بنیادی خوبیوں کے ساتھ ساتھ جدید دور کے علم اور کوانٹم فزکس کے اصولوں اور تیزی سے بدلتی سائیبر دنیا کے ہم قدم ہونے میں ہی بھلائی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“