پشتون جس کی جمع پشتیانہ ہے ( شمال مشرق کی بولی میں پختون ) لیسن نے اور اس تبع میں بعض اور لوگوں نے پشتون کا موازنہ ہیروڈوٹیس کے پکھتولیس سے کیا ہے ۔ یہ شناخت ممکن صحیح ہو اگرچہ یقینی نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس کو صوتی اور یگر وجوہ کی بنا پر رد کردینا لازم ہے ۔ آخر جز ’ اون ‘ آنہ سے مشتق ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ زمانہ قدیم کا صوتی مرکب جس کے نتیجے میں پشتو کا شت وجود میں آیا ہے ۔ ( بعد کی بولی میں خت ) یونانی حروف سے ادا کیا گیا ہو ۔ زیادہ قرین قیاس بات وہ ہے جو سب سے پہلے ماکوارٹ نے کہی تھی ، کہ اس نام کا تعلق بطلمیوس کے پارو فامیس کوہ بابا یا کوہ سفید میں آباد ایک قبیلہ پرسوا سے ہو ۔ پشتو کا رس زمانہ قدیم کے رس سے مشتق ہوسکتا ہے اور غالباً اس کی قدیم شکل پرسوانہ تھی ۔ مگر اس سے لازم نہیں آتا ہے کہ ان زیر بحث ایرانی قبیلوں کے درمیان کوئی رشتہ تھا ۔
ہیروڈوٹسHerodatieis کے پکھتولیس اور بطلمیوس کے پرسوا سے پشتون سے تعلق اور اس کی تبدیلیوں کے بارے میں تفصیلی بحث کی صرورت ہے ۔ اس طرح ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
ہیروڈوٹس نے اس علاقے کے پانچ قبائل ( ۱ ) پکتھولیس ( ۲ ) آپارتیوے ( ۳ ) گندھاریو ( ۴ ) ستارگوئے ( ۵ ) دادایکائے کا ذکر کیا ۔ لیکن یہ امر مشکوک ہے کہ ہیروڈوٹس کا بیان ان کے مساکن کا بیان ہو ۔
ہیروڈوٹس پانچویں صدی قبل مسیح کا مورخ ہے ۔ یہ دور دارا یا داریوش اول اور اس کے بیٹے خشاریہ یا کیخسرو یا کزک رس اول کا ہے ۔ یونانی عموماً ناموں کو بگاڑ کرکے لکھتے ہیں ۔ اس لئے انہیں سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ لیکن خوش قسمتی ان باپ بیٹا نے مختلف کتبات چھوڑے ہیں ۔ ان کتبوں میں کتبہ بہستون بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کتبہ کی مدد سے ہم ہیروڈوٹس کے ناموں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔
ہگتمان ( ہمدان ) کے قریب ہگتمان اور بابل کی قدیم شاہرہ پر کرمان شاہ کے مشرق میں پہاڑیاں واقع ہیں ۔ ان پہاڑیوں کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں باستون یا بہستون واقع ہے ۔ اس گاؤں کی قربت کی وجہ سے یہ کتبہ بہستون مشہور ہوگیا ہے ۔ متعدد الوح کے اوپر تین زبانوں عیلامی ، بابلی اور قدیم فرنس یا قدیم فارسی میں لکھا ہوا ہے ۔ اس کی ایک نقل مصر کے العطین کے کاغذات سے ملی ہے ۔ یہ نقل آرانی رسم الخط میں ہے ۔ اس کتبہ میں تحریر کے علاوہ مختلف مناظر ہیں جو پھتروں پر نقوش میں پیش کئے گئے ہیں ۔ ان میں دارا کی شاندار کامیابیوں اور دشمنوں کے عجر و عزمیتوں کو دیکھایا گیا ہے ۔
پکھتولیس جس کا ہیروڈوٹس نے ذکر کیا ہے یہ یقناً باختریہ ہے ۔ جس کو دارا کے کتبے میں باختریش کہا گیا ہے ۔ اس کے لئے رگ وید میں پکھتا اور پکھت کے علاوہ اوستا میں بختہ بخت آیا ہے ۔ نہ کہ اس سے مراد کسی خاص قبیلے یا گروہ سے ہے ۔ جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے ۔ اسطرح رگ وید میں آنے والا کلمہ بلہہ یا بلہکا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد بلخ ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہے ۔ کیوں کہ اس وقت تک بلخ وجود میں نہیں آیا تھا ۔ یونانی ماخذوں میں باختریہ کا نام باکترا ملتا ہے ۔ جب کہ بلخ کاتذکرہ یونانییوں کے یہاں بخپا کی شکل میں ملتا ہے تاہم سکندر کی مہموں میں بلخ کا تزکرہ نہیں ملتا ہے ۔ غالباً اس وقت تک یہاں کوئی شہر وجود میں نہیں آیا تھا ۔
بالہک یا بالہق آریائی زبان کا کلمہ ہے ۔ اس کے معنی شہر کے ہیں ۔ یہ ترکوں میں ’ گوا بالق ‘ یعنی خوبصورت شہر ۔ غز بلیغ ، قر بالیغ ، قربلیق ، غور بالیغ آیا ہے ۔ مرکورٹ نے ’ غز بالیغ ‘ یعنی ترکوں کا شہر کوصیح تسلیم کیا ہے ۔ غزبالیق ان کی دستاویزوں میں ملتا ہے جو قرہ خانی خاندان کے متعلق ہیں ۔ صدیوں کے بعد منگولوں نے ’ خان بالہق ‘ یعنی خان کا شہر کا ذکر کیا ہے ۔ اس لئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ رگ وید میں آنے والا کلمہ بلہہ اور بلہکا سے مراد شہر کے ہیں نہ کہ کسی خاص شہر سے ۔ کیوں کہ رگ ویداور اوستا کی تدوین کے سیکڑوں سال بعد بلخ شہر وجود میں آیا ہے ۔ کیوں کہ بلخ اگر آریاؤں کے دور میں آباد ہوتا تو سکندر کی مہموں میں اس کا تذکرہ ضرور ملتا ۔ مگر ہمیں سکندر کی مہموں کے دوران اس کا کوئی ذکر نہیں ملا ۔
سکندرنے اپنی فتوحات کی یاد میں چار شہر سکندریہ کے نام سے بسائے تھے ۔ آخری شہر جیحوں دریا کے کنارے آباد کیا تھا ۔ لیکن آموں دریا کے کنارے کسی شہر کی بنیا د یا آباد کرنے کی تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔ بلخ کا سب سے پہلا تزکرہ یونانی نوآبادی کی حثیت سے یونانی سردار ڈیوٹس کی بغاوت کے دوران سنے کو ملتا ہے ۔ یونانی نوآبادی سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ یونانیوں کا آباد کیا ہوا ہے ۔ مگر اس کے نام سے ترید ہوتی ہے ۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شہر معمولی آبادی یا قبضہ ہو اور یونانیوں نے موزوں مقام جان کر اس کو نو آبادی بنالیا ہو ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے اسے یونانیوں نے آباد کیا ہو اور مقامی باشندے اس کو بالق یا بالغ یعنی کے شہر کے نام سے پکارتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس کا اصل نام محو ہوگیا ہوگا ۔ بحال حقیقت جو بھی ہو یہ شہر بعد کا آباد کیا ہوا ہے ۔
قدیم زبانیں ابتدا میں آرامی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں ۔ بعد میں اس رسم الخط میں ترمیم کرکے مقامی رسم الخط ترتیب دیئے گئے ۔ سامی ’ پ ‘ نہیں ہوتا ہے ۔ اس لئے عہد قدیم میں ’ ب ‘ اور ’ پ ‘ کی تمیز نہیں رکھی جاتی تھی اور مختلف کلموں میں ’ ب ‘ اور ’ پ ‘ متبادل استعمال ہوتے ہیں ۔ مثلاً ’اسب ۔ اسپ ‘ ، ’ دبیر ۔ دپیر ‘ تب ۔ تپ ‘ وغیرہ ہیں ۔ علاوہ ازیں پ / ب دو لبی صوتے ہیں، اس لئے ماہرین لسانیات ان کو ایک سلسلے کے صوتے تسلیم کرتے ہیں ، اور یہ ترتیب پاننی اور دوسرے قدیم ماہرین لسانیات سے لے کر آج دور جدید کی تحریروں میں قائم ہے ۔
سنسکرت میں ’ خ ‘ کا حروف نہیں ہے اور یہ سنسکرت میں ’ ک ‘ میں بدل جاتا ہے ۔ سنسکرت میں ’ خ ‘ کا متبادل حروف کھ کی آواز دیتا ہے یعنی ’ ک اور خ ‘ کے بین اس کی آواز ہے ۔ اس لئے رگ وید میں یہ کلمہ پکھتا پکھت آئے ہیں ۔ جب کہ یہ کلمات اوستا میں بخت اور بختہ آئے ہیں جو کہ باختریہ کے ہی ہند آریائی اور ایرانی دو مختلف لہجے ہیں ۔ قدیم یونانی میں ’ خ ‘ کے لئے X استعمال ہوتا تھا ۔ جو اب ’ ک اور س ‘ کی درمیانی آواز دیتا ہے ۔ اس لئے ہیروڈوٹس نے پکھت یا پکتھ ( باختریہ ) کے لئے یونانی تلفظ میں پکھتولیس سے ادائیگی کی تھی ۔
رگ وید میں ’ داش راجیہ ‘ کے نام سے دس بادشاہوں کی لڑائی کا ذکر آیا ہے ۔ یہ ایک بڑی جنگ تھی جس میں ’ بھرت ‘ قبیلہ کے خلاف دس قبائل نے متحدہ ہو کر جنگ لڑی ۔ جس میں سیاسی اقتدا کا فیصلہ بھرت کے حق میں ہوا اور قبائلی اتحاد کو شکست ہوئی ۔ ان دس شکست خوردہ قبیلوں میں ایک پکھتا بھی ہے ، جو کہ دریائے کروُمو ( کرم ) کے منبع کے علاقہ میں رہتا ہے ۔ اس پکھت کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پختون یا پٹھان ہیں ۔ مگر یہ گمان غلط ہے ۔ یہ باختریہ کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے اس نسبتی کلمہ ہے اور اس سے مراد باختروی ہے ۔
قرین ترین قیاس یہی ہے کہ کلمہ پشتون ( پختون ) بالاالذکر پرسو کے ’ رس ‘ سےُ شتون کا ’ شت ‘ وجود میں میں نہیں آیا ہے ، بلکہ ’ پار تو ‘ جو کہ داراکے کتبہ میں پارتھیا کے ’رت ‘ سے پشتون کا شت وجود میں آیا ہے ۔
قدیم ایرانی زبانوں میں بعض اوقت ’ ر ‘ کی جگہ ’ ش یا س ، یا چ ‘ استعما، ہوتا تھا اور یہ تینوں حروف ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔ مثلاً قدیم فارسی زبان میں اوستا کے ’ ر ‘ کی جگہ ’ ش ‘ استعمال ہوا ہے مثلاً ’ مرت یہ ‘ اوستامیں ، جبکہ قدیم فارسی میں مشیہ آیا ہے ۔ ( دیکھے اوستازبان ) اس طرح سوغدی ( چغدی ) زبان میں میانہ فارسی کے ’ تھ 228 ر ‘ کی جگہ ’ ش ‘ بھی استعمال ہوا ہے ۔ ایک قدیم کتاب جو اوستا میں لکھی گئی تھی ، اس میں فریدون کے لڑکے کا نام توچ آیا ہے ۔ جب کہ فردوسی نے یہ کانام تور لکھا ہے جو غالباً اس کا اصل تلفظ ہے ۔ قدیم زبانوں میں اس طرح ’ چ ‘ ’ ش ‘ کے متبادل کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً تاشقند کے لئے قدیم زمانے می تاش اور شاش دونوں استعمال ہوتے تھے ۔ اس لئے قرین ترین قیاس ہے کہ ’ پارتو ‘ جو کہ دارا کے کتبہ میں پارتھیا کے ’رت ‘ سے پشتون کا ’شت : وجود میں آیا ہے ۔
تحقیق و تحریر
(عبدالمعین انصاری)
ماخذ
دائرۃ المعارف اسلامیہ
عبدالحئی حبیبی ۔ تقلیمات طبقات ناصری جلد دوم
ویمرے ۔ تاریخ بخارا
ہیرالڈیم ۔ سکندر اعظم
ڈاکٹر معین الدین ، قدیم مشرق
ڈاکٹر ابولیث صدیقی ۔ ادب و لسانیات
یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
سدھیشورورما ، آریائی زبانیں
ڈاکٹر شیر بہادر پنی تاریخ ہزارہ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...