پشتو اور اس کی قدامت
(پہلا حصہ)
پشتو موخین کے دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پشتو آریوں سے پہلے کی زبان ہے ۔ جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ عبرانی کی بگڑی ہوئی شکل ہے ۔ جب کہ دوسرے ماہر لسانیات اسے ہند آریائی کی ایرانی شاخ کی زبان قرار دیتے ہیں ۔ لہذا اس پر تفسیلی بحث کی ضرورت ہے۔
پروفیسر پری شان خٹک لکھتے ہین کہ پشتو زبان کی قدامت ہزاروں سال تک پہنچتی ہے ۔ مگر پشتو شاعری کا تحریری ثبوت ۱۳۸ھ میں پہلی بار ہاتھ آیا ہے ۔ مولانا عبدالقادر کا کہنا ہے کہ پشتو ہند آریا زبانوں کی ماں ہے اس لئے لب و لہچہ اور صوتیات میں یہ عربی و عبرانی زبانوں سے یعنی سامی زبانوں سے مختلف ہے ۔ قیاس کہتا ہے پشتو جس دور سے گزری اور جیسے رنگ میں رہی ہے یقیناًوقت وقت کے مختلف لہجوں میں بولی گئی ہو گی اور وقت وقت کے مختلف خطوں میں لکھی گئی ہوگی ۔ اس خیال کی اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ داریوس کبیر ( ۵۱۶ ق م ) کے سنگی کتبوں میں جو میخی خط میں کندہ کیئے گئے ہیں ۔ تین جملے پشتو سے اس قدر مشابہ ہیں کہ خالص پشتو معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ جملے بہت ٹھورے اختلاف کے ساتھ یوں ہیں ۔
نے اُرَیکہَ آہم ۔ نے دِِرَوعَنہَ ۔ نے زوُر گرَ ہ آہم ( قدیم سنگی کتبہ )
نے اڑیل یم ۔ نہ درو غژن یم ۔ نہ زور ور یم ( پشتو صورت )
نہ اڑیل ہوں ۔ دروغ گو ہوں ۔ نہ جابر ہوں ( اردو ترجمہ)
ایسے ہی سنگی کتبوں کا جو خروشتی یا کسی دوسرے براہمی خط میں کندہ ہیں اور پشتونوں کے علاقے میں پائے گئے ہیں ۔ اگر بغور و بدقت نظر مطالعہ کیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ ان میں کسی نہ کسی شکل میں پشتو نکل آئے ۔ کیوں کہ جیسا کہ شروع میں بیان کیا جا چکا ہے ، ادھر اوستا ، پہلوی اور فارسی میں ، ادھر سنسکرت ، ہندی اور دیگر ملحقہ پراکرت میں پشتو کے سیکڑوں الفاظ آج بھی پائے جاتے ہیں ۔ بہر کیف باقیدہ تحریری شکل میں پشتو ادب صرف عربی رسم الخط میں سامنے آیا ۔
یہاں اگر یہ اعتراف کرلیا جاتا کہ پشتو ہند آریائی کی ایک شاخ ہے تو سارے عقدے حل ہوجاتے ۔ جب کہ انہیں یہ بھی اعتراف ہے کہ صدیوں کے تغیرات سے زبانیں کچھ سے کچھ ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے ان کا کہنا ہے کہ پشتو وقت کے ساتھ مختلف لہجوں اور خظوں میں لکھی جاتی ہوگی ۔ اس سلسلے میں داریوش کے کتبے کے تین جملوں کا بالاذکر حوالہ دیاہے ان جملوں کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ پشتو ہے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رنگ اور لہجہ مختلف ہوگیا تو وہ پشتو کیسے ہوگئی7 ؟ اور دارانے اپنے کتبہ میں پشتو کو قدیم فارسی کے ساتھ کیوں جگہ دی7 ؟ کیا پشتو اس وقت اتنی ترقی یافتہ زبان تھی کہ اس کا استعمال ایک طاقت ور حکومت نے اپنے کتبہ میں جگہ دی اور قدیم فارسی اتنی اتنی غیر ترقی یافہ تھی وہ بنیادی ضرورتوں کو یا خیالات اور افکار کو پیش کرنے سے قاصر تھی کہ وہ روز مرہ پشتو کا محتاج ہوگئی ؟
نعمت اللہ ہراتی نے سب سے پہلے پٹھانوں کو یہود نسل بتایا ہے ۔ پٹھانوں کو یہود نسل کہنے والوں کا دعویٰ ہے کہ پشتو عبرانی کی بگڑی شکل ہے ۔
عجیب بات ہے پشتونوں کے دونوں گروہ اس دعویٰ کے مدعی ہیں ، کہ انہوں نے آریاؤں کو تہذیب و تمذن سے آشنا کیا ۔ آپ بالاالذکر پڑھ چکے ہیں کہ آریوں نے باختریوں سے کاشتکاری اور تہذیب و تمذن سے آشنا ہوئے ۔
افغانوں کو یہود نسل پر اصرار کرنے والوں دعویٰ ہے کہ پشتو سامی زبان ہے ۔ مگر درج ذیل خصوصیات بتاتی ہیں کہ پشتو آریائی زبان ہے ۔
( ۱ ) پشتو میں نمایاں حرف ڈندانے دار ہیں ، جو آریائی زبانوں کی خصوصیت ہے اور یہ حرف ( پ ، ٹ ، چ ، ژ ، ذ ، ڑ ، گ ) سامی زبانوں میں استعمال نہیں ہوتے ہیں اور سامی قومیں ان حرف کی ادائیگی نہیں کرسکتی ہیں ۔
( ۲ ) پشتو میں ابتدائی حرف صیح کے ساکن کا استعمال عام ہے ۔ جب کہ سامی زبانوں میں ابتدائی حرف ساکن نہیں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے اردومیں سامی یا عربی کے زیر اثر ’ سکول ‘ کو اسکول بولتے ہیں ۔
( ۳ ) پشتو میں سامی زبانوں کی طرح ایک ساتھ دو ساکن حرف استعمال نہیں ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے پشتو بولنے والے درخت اور گوشت بولنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ وہ اسے ’ دَرخَت ‘ اور گُوشَت سے ادا کرتے ہیں ۔
( ۴ ) مولانا عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ’ ث ، ح ، ذ ، ص ، ض ، ط ، ظ اور ع ‘ عربی حرف ہیں ، پشتو کے کلمہ ان حرف سے نہیں بنتے ہیں ، اگر کسی کلمہ میں ان حرف کا استعمال ہوا ہے تو کلمہ عربی ہے یا معرب ۔ (جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔