آپ کبھی کسی سنجیدہ انسان سے ملے ہیں؟ یقینا ملے ہوں گے، ہمارے اردگرد جابجا سنجیدہ لوگ بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جو واقعتاً سنجیدہ ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو بولتے ہیں تو دل کرتاہے کہ انہیں سنجیدہ کہا تو جائے لیکن دو ٹکڑوں میں۔پہلے میں سمجھتا تھا کہ جو سنجیدہ ہوتاہے وہ دانشور ہوتاہے۔ اب پتا چلا کہ واقعی ایسا ہوتاہے۔کم ازکم دنیا اُسے دانشور ہی سمجھتی ہے۔ میرے ایک عزیز خاموشی کی ازلی چادر اوڑھے رکھتے ہیں ، سوچ سمجھ کر جواب دینے کے اتنے قائل ہیں کہ سلام بھی لیا جائے تو پہلے خاموشی سے دیکھتے ہیں، پھر دل ہی دل میں سلام کا اردو ترجمہ کرتے ہیں اور پوری تسلی کرکے چھ منٹ بعد جواب دیتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں اب تک چھ سات ہزار الفاظ ہی خرچ کیے ہوں گے۔خاموشی کے اتنے شوقین ہیں کہ بول بھی رہے ہوں تو لگتاہے سن رہے ہیں۔اہل علاقہ انہیں 'سیرئس صاحب‘ کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہیں۔ہر وقت ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے ہیں،گرمیوں میں بھی کندھے پر ایک دانشورانہ چادر اور ہاتھ میں سگریٹ تھامے رکھتے ہیں۔میں نے آج تک انہیں مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔دنیا کی کوئی شرارت‘ کوئی لطیفہ‘ کوئی مذاق انہیں نہیں گدگداتا۔قہقہوں سے بھی سنجیدگی برآمد کر لیتے ہیں۔ایک دفعہ میں نے تہیہ کرلیا کہ انہیں ہرحال میں ہنسانا ہے۔میں نے ایک بالکل نیانکور لطیفہ یاد کیا اور انہیں سنایاکہ ایک دفعہ ایک مراثی نے اپنی معاشی بدحالی کا ذکر اپنے پیر صاحب سے کیا تو پیر صاحب کہنے لگے کہ مجھے لگتا ہے تم پر کسی نے تعویذ کرائے ہیں۔ مراثی پریشان ہوگیا اور گذارش کی کہ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ تعویذ نکالے جائیں۔ پیر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ مراثی کے گھر آئیں گے اور اسے تعویذوں سے چھٹکارا دلائیں گے۔ کچھ روز بعد وہ مراثی کے گھر تشریف لائے۔ مراثی بہت خوش ہوا اور انہیں گھر کے فرد کی حیثیت سے اندر لے آیا۔ پیر صاحب نے مراثی کی بیوی کو دیکھا تو اس پر لٹو ہوگئے۔ فرمانے لگے کہ تمہارا پورا گھر تعویذوں کے اثر میں ہے لہذا فوری طور پر جائو اور آدھا کلو دیسی گڑ لے آئو۔ مراثی نے سرکھجایا''پیر صاحب دیسی گڑ تو گھرمیں نہیں ہے، ساتھ والے گائوں سے ملے گا‘‘۔ پیر صاحب جلدی سے بولے''جہاں سے بھی ملے فوراً لے آئو‘‘۔ مراثی نے حکم کی تعمیل کی اور گڑ لینے چلا گیا۔ بیس پچیس منٹ بعد جب واپس لوٹا تو پیر صاحب کو اپنی اہلیہ کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف پایا۔ ایک دم آپے سے باہر ہوگیا، گڑ ایک طرف پھینکا، ڈنڈا اٹھایا اور پیر صاحب کو پیٹنے لگا۔ پیر صاحب کی فلک شگاف چیخوں سے پورا گھر گونج اٹھا۔ آس پاس کے لوگ اکٹھے ہوگئے لیکن مراثی نے اپنا ڈنڈا نہیں روکا۔ پیر صاحب بمشکل گرتے پڑتے گھر سے باہر نکل آئے ، مراثی بھی باہر نکل آیا اور گلی میں ہی پیر صاحب پر ڈنڈے برسانے لگا۔ اتنی دیر میں گائوں کے چوہدری صاحب کو کسی نے اطلاع کردی۔ وہ فوراً پہنچے اورمراثی سے پوچھا کہ آخر بات کیا ہے؟ مراثی ہانپتے ہوئے بولا''چوہدری صاحب! مر جائوں گا لیکن وجہ نہیں بتائوں گا۔‘‘ اور دوبارہ پیر صاحب کو مارنا شروع ہوگیا۔ چوہدری صاحب بوکھلا گئے، بمشکل مراثی کو روکا اور غصے سے بولے''کچھ عقل کرو، یہ مرجائے گا…آخر بتائو تو سہی کیوں مار رہے ہو؟‘‘۔ مراثی نے قہر آلو د نظروں سے کراہتے ہوئے پیر صاحب کی طرف دیکھا اور چوہدری صاحب کی طرف گھوما''چوہدری صاحب! میںنے کہا ناں میں وجہ نہیں بتا سکتا، اور اگر آپ کو وجہ جاننے کا اتنا ہی شوق ہے توپیر صاحب کو اپنے گھر لے جائیں اور خود ذرا آدھا کلو دیسی گڑ لینے جائیں…‘‘لطیفہ سنا کر میں نے سیرئس صاحب کی طرف دیکھا اور سٹپٹا گیا۔ ان کے چہرے پر گمبھیر سنجیدگی طاری تھی اوروہ غور سے میری آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ میں نے بوکھلا کر جلدی سے کہا''لطیفہ پسند نہیں آیا؟‘‘۔سپاٹ لہجے میں بولے ''کسی پر یوں اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے…‘‘ اور خاموش ہوگئے۔ پس ثابت ہوا کہ فٹے منہ…!!!
سیرئس صاحب کے متعلق سب کو یہی گمان ہے کہ وہ بلا کے دانشور ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف درجہ سوئم کے 'چول‘ واقع ہوئے ہیں اور اپنی یہی قابلیت چھپانے کے لیے انہوں نے خود پر سنجیدگی کا گہرا نقاب اوڑھ لیا ہے۔چونکہ زیادہ بولتے نہیں اس لیے پتا نہیں چلتا کہ دل میں کیا ہے تاہم جناب نے زندگی میں جب جب کچھ بولا ‘تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ایک دفعہ میں نے ان سے شیکسپیئر ڈسکس کرنا شروع کر دیا اور پوچھ لیا کہ 'ہملٹ‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ انتہائی متانت سے فرمایا'بہت اچھی چیز ہے خصوصاً موٹر سائیکل چلانے والوں کو ضرور پہننا چاہیے‘‘۔ایک دفعہ جب ان کے ڈرائنگ رو م میں موسیقی کے اسرار و رموز پرضخیم کتاب پڑی دیکھی تو مرعوب ہوا اور پوچھ بیٹھا کہ ''احمد رشدی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘۔ انہوں نے بے چینی سے پہلو بدلا‘ سگریٹ کا ایک گہرا کش لگایا ‘ عینک درست کی اور آہستہ سے بولے'واجب القتل ہے۔‘‘ میں اچھل پڑااور تب پتا چلا کہ وہ لفظ'رشدی‘ سے کہیں اور نکل گئے ہیں۔ان کی دانشوری اور کتاب دوستی کا سب سے بڑا پول اُس وقت کھلا جب میں ایک دن ان سے پوچھ بیٹھا کہ 'آپ نے کبھی فیس بک بھی پڑھی ہے؟‘ ‘۔ کامل اطمینان کے ساتھ سرہلاکر پروقار لہجے میں فرمایا'ہاں…بچپن میں ہی پڑھ لی تھی ۔‘‘پس دوسری دفعہ بھی ثابت ہوا کہ فٹے منہ…!!!
خاموشی اچھی چیز ہے لیکن اس کی آڑ میں'میسنے‘ بن کر خود کو دانشور ظاہر کرنا بڑا خطرناک ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ بڑبولے بندے کو احمق تصور کیا جاتاہے لیکن بات الٹ بھی ہوسکتی ہے۔آپ نے کئی خاموش بندے دیکھے ہوں گے جو محفل میں سب کی سنتے ہیں لیکن اپنی ایک نہیں کہتے۔ کسی بات پر دلائل سے بھرپور بحث بھی ہورہی ہو تو ان کے کان آوازوں کی طرف ہوتے ہیں اور آنکھیں پیسٹریوں پر۔انہیں پتا ہوتاہے کہ جونہی یہ لب کھولیں گے ، پکڑے جائیں گے لہٰذا یہ ''دڑ ۔وٹ‘ کے بیٹھے رہتے ہیں اور دیکھنے والوں کو لگتاہے کہ یہ کوئی بہت ہی نپے تلے انسان ہیں جو انتہائی سوچی سمجھی رائے رکھتے ہیں۔ محفل میں اگر کسی بات پر ان سے رائے بھی لی جائے تویہ ہلکا سا مسکرا کر رہ جاتے ہیں ‘ یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب تک جو کچھ بھی ڈسکس ہوا ہے وہ فضول تھا اور ڈسکس کرنے والے ڈنگر تھے۔مجھے آج تک وہ صاحب نہیںبھولتے جو مجھے ملتان سے لاہور آتے ہوئے ٹرین میں ملے تھے۔ نہایت ڈیسنٹ تھے، بہت اچھی ڈریسنگ تھی، کنپٹیوں کے بالوں میں ہلکی ہلکی سفیدی جھلک رہی تھی۔ ایک نفیس سی عینک پہن رکھی تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں کیا کرتاہوں، میں نے بتایا کہ لکھنے لکھانے کی مزدوری کرتاہوں۔ وہ نہایت متاثر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ پھر تو آپ بہت کتابیں پڑھتے ہوں گے؟ میں سمجھ گیا کہ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لہذا مزید متاثر کرنے کے لیے ڈیل کارنیگی سے میکسم گورکی تک اپنے نظریات بیان کرنے لگے۔ وہ نہایت توجہ سے ہر بات نہ صرف سن رہے تھے بلکہ باقاعدگی سے سر بھی ہلا رہے تھے۔لاہور سٹیشن آیا تو انہوں نے جیب سے ایک چٹ نکالی اور میری طرف بڑھائی''یہ ذرا پڑھ دیجئے گا یہ کس ہوٹل کا نام لکھا ہواہے؟‘‘…میرے دل سے بے اختیار نکلا…پس ثابت ہواکہ…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“