{کلیدی لفظیات اور اصطلاحات:۔ پس نو آبادیات۔ مشرقیت ۔ فلسطین۔ ثقافت۔ تانیثیت ۔ تاریخ ۔}
پس نو آبادیاتی نظرئیے تاریخیی اور اس تحریر میں تاریخی یا اس وقت نوآبادیاتی ممالک میں ادب کے مطالعے اورتجزیات پر مرکوز نظر ڈالی جائے گی۔ ۔ جس کا تعلق ادب قع ہس نو آبادیاتی نوآبادیاتی ممالک پر مشتمل ہے جو نوآبادیات یا نوآبادیاتی افراد کے ساتھ معاملات کرتےہوئےیہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو مغربی طاقتوں کی سابقہ نوآبادیات کے نظریاتی اور تنقیدی مشاہدات کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ کہ وہ پوری دنیا سے کس طرح کا تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ اور نوآبادیاتی اور نوآبادیاتی ثقافتی اصولوں کی ثقافتوں میں بڑی دلچسپی لیتے1ہیں۔ جب دو ثقافتوں آپس میں تصادم ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے اور1970 کے عشرے تک اس حوالے سے یہ ایک نظریاتی طور پر خود کو اعلی سمجھنے اور دوسرے پر غلبہ اور کنٹرول سنبھالنے کی کوششش کرتے ہیں۔ اس کا کرتے ہیں اور ان سے لڑتے رہیں ہیں۔ ۔ پس نو آبادیاتی کا اصل مبدا مابعد جدجدیت ہے۔ عارف ڈارک نت نوآبادیات اور مابعد جدیدیت کے مابیں انسلاک کو کحوجنے کی کوشش کی ہے ان کو یہ احساس ہے مابعد جدیدیت کا تاریخ اور ثقافت کے نئے احساسات کے تحت جنم ہوا۔ بلکہ یہ تیسری دنیا کی ثقافتی صورت کے سبب وجود میں آتی ہیں۔ " تین دنی کے نظرئیے" کا ایک مابعد جدید نقطہ نظر ہے۔ یہ ایک انتہا درجے کے ریڈیکل مارکسزم سے متصادم ہے۔
. *: پس نو آبادیاتی نظرئیے کےتین/ 3 ستون یہ ہیں :*
1. ایڈورڈ ڈبلیوسعید، 2. گایتری چکورورتی سپیوک 3. ہومی کے بھابھا
مصنف ، نظریہ دان ایڈور سعید سن 1935 میں یروشلم میں پیدا ہوئے اور 2003 میں فوت ہوئے امریکی اسکالر ، نقاد ، اور مصنف • سید ، وہ عسیائی ہیں۔ قاہرہ کے ایک برطانوی اسکول تعلیم حاصل کرنے کے بعد تو پرنسٹن اور ہارورڈ یں تعلیم حاصل کرنے اور پڑھانے کے بعد وہ ایک علمی ادبی نقاد بن گئے تھے۔ 1963 ء سے وفات تک وہ نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر رہے۔
Ed. ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے کہ soon وہ جلد ہی فلسطینی مقصد کے لئے مشہور امریکی وکیل بن گیا۔ ان کی 1978 کی کتاب اورینٹل ازم نے یورپی اور امریکی فکر کی ایک پوری تاریخی روایت کا دوبارہ جائزہ لیا ، جس نے دنیا کی نمائندگی سے سیاسی طاقت کے رشتے کی جانچ کی ، اور ثقافتی اور پس نو آبادیاتی مطالعے کے ایک پورے مکتبہ فکر کو تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ ہر علاقے کے ادبّا ، دانشوروں اور ناقدین کو آگاہ کیا۔ ثقافتی ، معاشرتی اور تاریخی کام کی۔
. ایڈورڈ سید نے جاری رکھا • دیگر قابل ذکر کتابوں میں فلسطین کا سوال (1979) ، کورینگ اسلام (1981) ، دنیا ، متن اور نقاد (1983) ، ثقافت اور سامراج (1993) ، دی سیاست برائے تلفی (1994) شامل ہیں۔ ، دانشورانہ نمائندگی (1994) ، امن اور اس کے تنازعات (1995) ، امن عمل کا خاتمہ (2000) ، جلاوطنی پر غور (2000) اور انسانیت اور جمہوری تنقید (2004)۔ شامل ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقرام متحدہ نے 1947 میں فلسطیںن کو دو حصوں میں منقسم کردیا۔ کچھ علاقے عربوں کے پاس رہے۔ اور کچھ یہودیوں کے حصے میں آئے ۔ یروشلیم برطانیہ کا قلم رو بن گیا۔ اور فلسطیں مین جنگ شروع ہوگئی اور1947 میں ایڈورڈ سعید کا خاندان قاہرہ منتقل ہوگیا۔ 1948 مین اسرائیل کی ریاست قائم کردی گئی۔ اور فلسطینوں کو اپنی سرزمین جبرا چھوڑنی پڑی۔ اور مغربی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور جش بنایا۔ ایویڈ سعید کا کہنا تھا۔ کہ اسرائیل کے قیام سے فلسطیں تباہ اور برباد ہوگیا۔ ایدورڈ کی تعلیم مغربی ماحول میں ہوئی مگر وہ زہنی طور پر مشرقی ہی رہے اور فلسطینوں اور ںوابادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ اپنی موت سے قبل جب ان کو " لکومیا" کا مرض ہوا۔ اور ان کو اس بات کا تہ تھا کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکین گے۔ لیکن فلسطینی کاز کے لیے خاصء جذباتی تھےاور ان کے عزائم راسخ تھے جن خطوط پر فلسطینوں کی حمایت میں متشد د قوتوں سے برسرپیکار تھے اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہر چند کی انھیں " متشدد "پروفیسر" اور " نیویارک میں یاسر عرفات کا چیلا" جیسے خطابات سے بھی نوازہ گیا ۔مگر ان کے عزائم کبھی پست نہیں ہوئے۔ ان کو قتل کرنے کی بھی دھمکیاں دی گئی مگر وہ اہن کام اور فلسطینی کاز کے لیے لڑتے رہے۔ 1994 مین ایڈور سعید کو وہائٹ ہاوس میں دعوت دی گئی کہ وہ ایک کاص معاہدے پر دستخط کرین۔ ایڈورڈ سعید کویہ احساس ہوا کی یہ معاہدہ فلسطینوں کے حق میں نہین ہے لہذا انھون ے نہ صرف دستخط کئےبلکہ معاہدے کو فلسظینوں کے لیے " یوم ماتم" قرار دیا۔ وہ ایک مزاحمت کار تھے۔ وہ عملی طور پر سٹرکوں پر آکر اسراِئیلی پوس اور فوج کے سامنے بڑی دلیری سے سنگ بازی کرتے تھے۔
. اپنی تحریر میں انھون نے کہ یوروپی سامراج کے دوران ایشیائی اور اسلامی ثقافتوں کی عکاسی کی ہے اور غیر یورپیوں کے اقتدار اور تسلط کو برقرار رکھنے کے یورپ کے اہداف کو انہوں نے دلیلوں کے ساتھ پیش کیا کہ یورپ اورینینٹ اور سامراج کو اپنی طاقت اور فوقیت کی علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ طور پر ایدورڈ سعید نے مشورہ دیا کہ اورینٹلسٹس/ مشرقیت کی شناخت اس کو دوسروں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے – اس معاملے میں ، مسلمان اور ایشین – اور بطور ایسی چیزیں ہیں جو ان کی اپنی گفتگو میں بیان نہیں کر پاتے۔ ، بلکہ صرف ان کے باہر سے آنے والے معیارات ، تعریفوں اورتصورات کومقامی ثقافیوں اور ممالک پر لاد دیا جاتا ہے ہیں۔ ان تعریفوں کے حوالے ان کے ان اثرات کے پس منظر میں ایڈورڈ سعید کے خیال میں یہ اسلام کو عیسائیت کے برخلاف پیش کرنے کے بارے میں ایک دیرینہ مغربی تشویش تھی۔
. گایتری چکورتی اسپوتک 1942 میں پیدا ہوئے تھے بعد کے نظریے کے تین شریک بانیوں میں سے ایک کے بارے میں سوچا جاتا ہے پوسٹ کلونیل تھیوری پر اس کا بنیادی کام اس کی تنقیدی پوسٹ کلونئیل اسباب تھا: غائب ہونے والے حال کی تاریخ کی اس کے کام سے مارکسزم ، نسوانیت اور تعمیرات کا امتزاج ہے۔ اسپانواک نے امریکہ کارنیل یونورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کی۔ انھوں فرانسیسی ادبی ، ردتشکیل اور نو آبادیاتی کو امریکہ میں متعارف کروایا۔اور ان نظریات کے ادبی اور سیاسی تشدد کو کئی مرحلوں پر بے نقاب کیا۔وہ خود فوکو، دریدا اور کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے گکمران کء مخصوص " منصوبوں" { پروجیکٹ} نے محکوم کے مسائل کو کسی طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ اور راضی نہیں ہیں۔ انھون نے یہ موقف بھی اختیار کیا کی عورتوں کا استحصال نو آبادیاتی مرحلے میں کئی سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے کس نوابدیاتی مرحلے میں پیدارار کی حصے داری کے سلسلے میں SUBALTERN کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اس لیے انھیں کبھی کچھ کہنے کی اجازت نہیں ملی ۔ چنانچہ خواتین کی حیثت سایہ سے زیادہ کچھ اور نہیں رہی ۔ یہ ایک تشددد میں ان کی خاموشی کا پہلو کتنا المناک ہوسکتا ہے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مغرب کے دانشور ایسی صورت حال سے آگاہ نہ ہوں ایسا نہیں ہے۔ لیکن ان کی دانش وری اس سارتحال کو کسی طور بھی بدلنے کو راضی نہیں ہیں
. گایتری چکورتی اسپوتک نے 1980 کے دہائی میں گاتیری چکورتی اسپوتک پس نو آبادتی نظرئیے کے متن کو تین حصوں میں شائع کیا گیا۔ اس طرح کے پس نو آبادیاتی نظرئیے سے بہت سارے لوگوں کو متعارف ہوئے: "تین خواتین کے متن اور سامراج کی تنقید ،" "کیا سبلٹن اسپیک بول سکتا ہے؟" ، اور "دراوپادی" مہاسوتا دیوی۔ " انہوں نے بنگالی زبان میں افسانہ نگار مہاویشتا دیوی کے ناولوں کا بھی ترجمہ کیا ، جو مابعد جدیدیت کے ادب کے پیرامیٹرز کو قائم کرنے میں اثرورسوخ باعث بنا ۔ ان میں پولٹری میپ (1995) ، اولڈ ویمن (1999) ، اور چھوٹی منڈا اور اس کا تیر (2002) شامل ہیں۔ Maha مہاویشتا دیوی کے تخیلاتی ناولوں میں ، جو مقامی طورپر جو وہ و اپنی دوسری ممتاز اور یکسانیت کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بومی بھا بھا ہندوستاں کے کے شہر ممبئی کے ایک پارسی خاندان مین پیدا ہوئی۔ اعلی تعلیم انگلستان مین مکمل کی۔ بھا بھا نے " نطرئیے میں سیاسی معنیت کو تسلیم کیا ہے۔ گویا وہ ایک طرف تو نظرئیے کی سیاسی ترجیہات پیش کرتے ہیں۔ تو دوسری جانب اسے ادب سے جدا نہیں کرتے۔ انھوں نے نظرئیے { تھیوری} سے اختلاف کرنے والوں کو زہن میں رکھا اور ان کے نقطہ نظر کی نہ صرف نکتہ چینی کی بلکہ اس نے خیالات کو سختی سے مسترد کیا۔ اس تناطر میں بومی بھا بھا ساختیاتی نظرئیے کے اہم نظریہ دان بن کے سامنے آتے ہیں،وہ ںوآبادیاتی مطالعے سے اس کے مساَل کے تفھیم اور تشریح کرتے ہیں۔ بھا بھا نے دریدا کی تائید کی۔ اور اس میں فکری گہرائی عطا کی۔ اور ان میں نوآبادیاتی نصوص/ متنون کے تجزیات میں دور رس نتائج اخذ کئے ان کا ان کا مقالہ " وابستگی کا نظریہ " لکھا۔ اور نظرایات کو عظمت اور قدر ومنزلت عطا کی ۔
۔ ہومی کے بھابھا • انہوں نے نیشن اینڈ بیریمنٹ (1990) لکھا • اس بات پر غور کیا گیا ہے نوآبادیاتی نظام کے تحت قوم کو کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے ناکام ، اور بنیادی طور پر ، بعد از سامراج حوالے سے یہاں وہ سامراجیت اور تخیل شدہ کمیونٹیز (1991) میں مزاحمت کے مابین تعلقات کے بارے میں ماہر بشریات بینیڈکٹ اینڈرسن کے نظریہ کو مد نظر رکھتے ہیں۔
11. پس نو آبادیاتی کے مقامات • لاطینی امریکہ • افریقہ • مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء • جنوبی ایشیا • کیریبین • پولینیشیا • ریاستہائے متحدہ
12. لاطینی امریکہ • الیجو کارپینٹیئر ، دی گمشدہ اقدامات (1956)؛ los کارلوس فیوینٹس ، آرٹیمیو کروز کی موت (1964)؛ • جولیو کورٹزار ، ہاپسکوچ (1966)؛ • ماریو ورگاس للوسا ، گرین ہاؤس (1968)؛ • گیبریل گارسیا مرکیز ، تنہائی کے ایک سو سال (1970)؛ • مینوئل پِگ ، کے ساتھ ریٹا ہیوورتھ (1971) کو دھوکہ دیا گیا۔ • مارٹا تربا ، ماؤں اور سائے (1983)؛ ver سیورو سرڈوئی ، کولبری (1984)؛ • اسابیل ایلینڈے ، ہاؤس آف دی اسپرٹ (1985)؛ vian سلویانو سانتیاگو ، سٹیلا مینہٹن (1985)؛ ame دیامیلا ایلٹٹ ، چوتھی دنیا (1995)؛ • جویو گلبرٹو نول ، ہوٹل اٹلانٹک (1989)؛
کیسار آئرا ، ہر (1998)؛ • ریکارڈو پگلیہ ، غیر حاضر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: " اردو ادب کے حوالے سےچند تخلیقات کے نمونے" :::
13 صفدر زیدی کا ناول ” چینی جو میٹھی نہ تھی“ نو آبادیاتی جبر کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ یہ ناول پس کربیہ یا ناسٹلجیائی کیفیت اورنقل مکانی کے المیات کو فنکارانہ سیاق و انداز میں پیش کرتا ہے ۔اس ناول میں ثقافتی اور تہذیبی معاملات کا بشری اور انسانی تاریخ میں پنڈولم کی طرح ڈولتا ہوا فرد سامراج یا نوآبادیات کے کثیرُالملکی جبر سے دوچار ہے ، جس کل آج پر بھاری ہے۔ اس ناول کے منفرد اور اچھوتے ہونے کا انداز اس کے اصل بیانیے یعنی فرد، اجتماع اورنقل مکانی میں پوشیدہ ہے۔ ان کا افسانوی اسلوب و اظہار اردو میں نئے فکشن کی شعریات کو بڑی ہنر مندی سے خلق کرتا ہے ۔
پس نو آبادیاتی اردو تناظر میں نسائی یا تانیثی مدافعتی بیانیے کا عمیق رویّہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ اس کی مثال رشید جہاں کی سامراج کے خلاف علم بلند ہونے والی ایک اہم تانیثی آواز کی موت کی صورت میں سامنے آئی ڈاکٹر رشید جہاں کے ’’انصاف اور قانون ‘‘جیسے افسانے سند کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ پس نو آبادیاتی مدافعت اور احتجاج کا عمدہ افسانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
*** شاعری ****
حمد ندیم قاسمی
دِل یا شکم
جستجوئے معاش کو ضِدہے
جیتے جی علم و فن کا دم نہ بھروں
اے شکم اے مِرے تقاضۂ زیست
تیری خدمت کروں کہ شعر کہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجیدؔلاہوری (عبدا لمجید چوہان )
یہ کیسی آزادی ہے
یہ کیسی آزادی ہے بھئی ! یہ کیسی آزادی ہے؟
کنگلے تو کنگلے ہی رہے اور دھن والے دھن وان ہوئے
رہزن رہبر بن بیٹھے جو غنڈے تھے پر دھان ہوئے
جاہل تو فرزانے ٹھہرے اورعاقل نادان ہوئے
شہد لگا کر ہم نے چاٹے جتنے بھی اعلان ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ احمد ظفر
آپ کہیں تو گلشن ہے
ورنہ دِل اِک مدفن ہے
آگ لگی ہے سانسوں میں
ہائے یہ کیسا ساون ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن حمیدی
وجدان
کیا غم کہ اپنے سر پہ غلامی کا تاج ہے
جب کہ تصورات کی دنیا پہ راج ہے
ہیں اپنے گِردو پیش جہنم کی وادیاں
لیکن سُنا رہا ہوں بہاروں کی داستاں
ایک صدی پہلے۔۔۔۔
ٹیپو کا لہو بیچنے والوں کا کرم ہے
پردے میں اُجالوں کے وہی شامِ الم ہے
سہمی ہوئی آہوں کے جنازوں کو اُٹھائے
کہتے ہیں کہ ہاتھوں میں بہاروں کا علَم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارغ بخاری
فرازِ دار پہ پہنچے قفس میں بند ہوئے
جہاں گئے تِرے عشاق سر بلند ہوئے
فلک کو اہلِ ہنر سے ہمیشہ لاگ رہی
جو ہوش مند نہیں تھے وہ ارجمند ہوئے
کیا ہے وقت کے جلاد نے قلم اُن کو
جو ہاتھ راہِ وفا میں کبھی بلند ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجید لاہوری مجیدؔلاہوری (عبدا لمجید چوہان
دستور بن رہا ہے
’’کھوڑو ‘‘ اکڑرہا ہے اور ’’نون‘‘ رہا ہے
روٹھا ہے سہروردی ’’ممدوٹ‘ ‘ تن رہاہے
اور فضل الحق کہ اپنی دھن میں مگن رہا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
سردار امیراعظم گیسو سنوارتا ہے
بڑھ بڑھ کے فضل رحمن جب ڈینگ مارتا ہے
ممتاز دولتانہ نالج بکھارتا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
ہارون کے گلے میں تقریر اٹک رہی ہے
اور اپنے راشدی کی ٹوپی چمک رہی ہے
ہے افتخار دین یا چڑیا پھدک رہی ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
عبدالرشید اپنا دکھڑا سنارہا ہے
جوش غضب میں جعفر طوفاں اٹھا رہا ہے
عبدالوہاب خاں بھی گھنٹی بجارہا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
منصور لیگیوں کی ہر راہ گھیرتا ہے
باری میاں بھی اٹھ کے شعلے بکھیرتا ہے
صوفی حمید، داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
خاموش تالپور ہے سوہن میاں بھی چپ ہے
ہے نور حق بھی خاموش بسواس خاں بھی چپ ہے
عابد حسین چپ ہے زیب جہاں بھی چپ ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
کر تا ہے بات گر کی نواب گرمانی
بابا جلال کا ہے لہجہ جلال خانی
جنرل مجیب میں ہے کیازور نوجوانی
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
———————————
نظم اکبر آبادی
جبر مصلحت
بے در و دیوار زیر آسماں رہنا پڑا
ہم کہاں کے رہنے والے تھے کہاں رہنا پڑا
بے وطن ، بے گلستاں بے آشیاں رہنا پڑا
ہم کو غر بت نے جہاں رکھا وہاں رہنا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی مچھلی شہری
نشانہ ٔ ستم ِروز گار ہے اب تک
جو بے قرار تھا دل بے قرار ہے اب تک
وطن پہنچ کے بھی لطف ِ وطن نصیب نہیں
دلِ ِ غریب، غریب الدیار ہے اب تک
وہ کارواں جسے گزرے ہوئے زمانہ ہوا
ہماری آنکھ میں اس کا غبار ہے اب تک۔
،،،،،،،،
ظہیر کاشمیری
کشتۂ جورِ بہاراں نہیں دیکھے جاتے
ہم سے یہ چاک گریباں نہیں دیکھے جاتے
ہائے وہ لوگ جو خود گھر کو جلا دیتے تھے
آج وہ سوختہ ساماں نہیں دیکھے جاتے
جاں سُلگتی ہے ،کہیں دِل سے دُھواں اُٹھتا ہے
منظرِ شامِ غریباں نہیں دیکھے جاتے
کون دیکھے گا یہ در پردہ سُلگتے ہوئے دِل
اب چراغِ تہِ داماں نہیں دیکھے جاتے
جب سے خاموش چراغِ دِلِ بر باد ہوا
شہر کے جشنِ چراغاں نہیں دیکھے جاتے
آج اِحساسِ بشر نرم و سُبک تر ہے ظہیرؔ
آج یہ وحشی و زِنداں نہیں دیکھے جاتے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...